وَالشَّيٰطِيۡنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍۙ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 37
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالشَّيٰطِيۡنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍۙ ۞
ترجمہ:
اور قوی جنات کو بھی ان کے تابع کردیا، ہر معمار اور غوطہ خور کو
جو جنات حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کیے گئے تھے ان کے مختلف النوع فرائض
ص ٓ: ٣٧ میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے قوی جنات کو ان کے تابع کردیا تھا، ان میں سے بعض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق قلعے اور اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے اور بعض ان کے حکم کے مطابق سمندر میں غوطے لگاتے تھے۔
قلعے اور اونچی اونچی عمارتیں بنانے کا ذکر اس آیت میں ہے :
یعملون لہ مایشاء من محاریب وتماثیل وجفات کالجواب وقدرو رسیت۔ (سباء : ١٣)
سلیمان جو کچھ چاہتے تھے وہ جناب ان کے لیے بنا دیتے تھے، قلعے، مجسمے، حوضوں کے برابر ناند (ٹب) اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں۔ اور غوطہ لگانے والے جنات کا ذکر اس آیت میں ہے :
ومن الشیطین من یغوصون لہ ویعملون عملا دون ذلک ج وکنا لھم حفظین (الانبیاء : ٨٢) اور بعض شیاطین سلیمان کے لیے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ بھی بہت کام کرتے تھے اور ہم ہی ان کے محافظ تھے وہ جنات سمندر میں غوطہ لگا کر موتی، جواہر اور دوسری ایسی چیزیں نکال کر لاتے تھے جو زیورات میں کام آتی ہیں، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے سلیمان کے لیے ایسے جنات بھی مسخر کردیئے تھے جو اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے اور ایسے جنات بھی مسخر کیے تھے جو سمندر میں غوطے لگاتے تھے اور دوسری قسم کے ایسے جنات بھی مسخر کیے تھے جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے یعنی وہ بہت سرکش جن تھے، جن کو لوہے کی زنجیروں کے ساتھ جکڑکے رکھا ہوا تھا تاکہ ان کو شر اور فساد سے روکا جاسکے۔
جن جنات کو زنجیروں سے جکڑا گیا ان کی جسامت پر ایک اعتراض کا جواب
اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ان دو آیتوں میں جن جنات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہت سخت کام کرلیتے تھے، اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے، سمندر میں غوطے لگاتے تھے اور بعض کو زنجیروں سے باندھ کررکھا جاتا تھا، ان جنات کے جسم کثیف تھے یا لطیف تھے۔ اگر ان کے اجسام کثیف تھے تو ہم کو نظر آنے چاہیے تھے۔ کیونکہ جسم کثیف کو انسان کی آنکھ دیکھ لیتی ہے اور اگر کہا جائے کہ وہ کثافت کے باوجود نظر نہیں آتے تھے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہوسکتا ہے ہمارے سامنے بڑے بڑے پہاڑ اور جنگلات ہوں اور ہمیں نظر نہ آرہے ہوں تو جس طرح یہ صحیح نہیں ہے اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ ہمارے سامنے جنات جسم کثیف میں موجود ہوں اور ہمیں نظر نہ آرہے ہوں اور اگر یہ کہا جائے کہ ان جنات کا جسم لطیف ہے اور لطافت سختی کے منافی ی ہے، تو پھر یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ وہ جنات قوت شدیدہ کے حامل ہیں اور وہ ان کاموں کو کر گزرتے ہیں جن پر عام بشر اور انسان قادر نہیں ہوتے، کیونکہ جسم لطیف کا اقوام بہت ضیعف ہوتا ہے اور معمولی مزاحمت کے بعد اس کے اجزاء پھٹ جاتے ہیں، لہٰذا وہ ثقیل اشیاء کو اٹھانے اور سخت کاموں کے کرنے پر قادر نہیں ہوگا، نیز جب ان جنات کا جسم لطیف ہوگا تو پھر ان کو طوق اور زنجیروں کے ساتھ جکڑنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ان جنات کے اجسام لطیف ہیں لیکن لطافت، صلابت اور سختی کے منافی نہیں ہے، پس چونکہ وہ اجسام لطیف ہیں اس لیے وہ دکھائی نہیں دیتے، اور چونکہ ان میں صلابت اور سختی ہے اس لیے ان کو طوق اور زنجیروں کے ساتھ جکڑنا ممکن ہے، اسی طرح ان کا بھاری چیزوں کو اٹھانا اور سخت اور دشوار کاموں کو کرنا بھی ممکن ہے۔ کیا یہ مشاہدہ نہیں ہے کہ سخت اور تیز آندھی بڑے بڑے تناور درختوں کو جڑ سے اٹھا کر پھینک دیتی ہے اور مضبوط بجلی کے کھمبوں کو گرا دیتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان جنات کے اجسام کثیف ہوں اور وہ سخت اور دشوار کاموں پر قادر ہوں اور ان کو طوق اور زنجیروں کے ساتھ جکڑنا بھی ممکن ہو اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں وہ لوگوں کو دکھائی دیتے ہوں اور ہمارے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت کی وجہ سے ان کا دکھائی دینا ممتنع کردیا ہو۔
القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 37
[…] تفسیر […]