وَقَالُوۡا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبۡلَ يَوۡمِ الۡحِسَابِ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالُوۡا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبۡلَ يَوۡمِ الۡحِسَابِ ۞
ترجمہ:
اور انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہمار احصہ تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی جلد دے دے
” قط “ کا معنی
اس کے بعد فرمایا : ” اور انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہمارا حصہ تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی جلد دے دے۔ “ (ص ٓ: ١٦) اس قوت کے قائل النضر بن الحارث بن علقمہ بن کندہ الخزاعی اور اس کے موافقین تھے، انہیں لوگوں نے یہ بھی کہا تھا : واذ قالوا اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوائتنا بعذاب الیم (الانفال : ٣٢) اور جب ان لوگوں نے یہ کہا کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن واقعی تیری طرف سے برحق ہے تو، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی اور درد ناک عذاب نازل کردے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو واحد اور سیدانا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجنے والا نہیں مانتے تھے، اس کے باوجود انہوں نے اس دعا کے شروع میں کہا : اے ہمارے رب ! اس سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ صدق دل اور حضور قلب اور انتہائی دل سوزی سے یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمارا صہ تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی جلد جے دے۔ اس آیت میں ” قطنا ” کا لفظ ہے، الفظ کا معنی ہے کسی چیزکو کاٹنے کے بعد اس کا حاصل شدہ ٹکڑا، اور اس سے مراد ان کا حصہ اور مقسوم ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہم کو جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں، اس عذاب میں سے جو حصہ ہمارے لیے مقدر ہے وہ حصہ ہمیں دنیا میں دلوادیں اور اس کو روز حساب تک مؤخر نہ کریں۔ اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ قیامت کی دن ہمارے صحائف اعمال ہمارے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے تو ہمارے اعمال نامہ کا جو حصہ اور کاغذ کا ٹکڑا ہے وہ ہم کو روز حساب سے پہلے دنیا میں ہی دے دیں تاکہ ہم دیکھیں کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے۔
سھل بن عبداللہ تستری نے کہا : موت کی تمنا صرف تین شخص کرتے ہیں : ایک وہ شخص جو موت کے بعد پیش آنے والے عواقب سے جاہل ہو، دوسرا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے منکر ہو اور تیسرا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہو اور اس سے ملاقات کے اشتیاق میں موت کی تمنا کرے، اسی طرح جو شخص مرتبہ شہادت کے حصول کی تمنا کرنے والا ہو وہ بھی شہادت کی صورت میں موت کی تمنا کرتا ہے۔
موت کی تمنا کی ممانعت کے متعلق احادیث
موت کی تمنا کرنے کی ممانعت میں حسب ذیل احادیث ہیں : حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے ہرگز موت کی تمنا نہ کرے اور اگر اس نے ضرور دعا کرنی ہو تو وہ یوں دعا کرے : اے اللہ ! جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت عطا کر۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٧١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٠٨، سنن الترمذی الحدیث : ٩٧١، سنن نسائی : ١٨١٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٦٥، مسند احمد ج ٣ ص ١٠١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٦٨، جامع المسانید والسنن مسند انس بن مالک رقم الحدیث : ١٩٢٧ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت آنے سے پہلے اس کی دعا کرے، جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے اور زندگی مومن کی صرف نیکیوں کو زندہ کرتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٨٢) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہرگز موت کی تمنا نہ کرے، اگر وہ نیک شخص ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ زیادہ نیکیاں کرے اور اگر بدکار ہے تو ہوسکتا ہے وہ توبہ کرلے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٢٣٥، سننن النسائی رقم الحدیث : ١٨١٨)
اللہ سے ملاقات اور شہادت کے حصول کے لئے موت کی تمنا کا جواز
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے اشتیاق اور حصول شہادت کے لئے موت کی تمنا کے جواز میں حسب ذیل احادیث ہیں : حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ سے ملاقات کرنے کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ کی کسی اور زوجہ نے کہا : بیشک ہم موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : یہ بات نہیں ہے، لیکن جب مومن کے پاس موت آتی ہے تو اس کو اللہ کی رضا اور اس کی کرامت کی بشارت دی جاتی ہے، پھر مومن کو موت کے بعد ملنے والے انعامات سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی، سو وہ اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور کافر کے پاس جب موت آتی ہے تو اس کو اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے اور اس کو موت کے بعد پیش آنے والے امور سے زیادہ اور کوئی چیز ناپسند اور ناگوار نہیں ہوتی، وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٠٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٨٤۔ ٢٦٨٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٦٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٨٣٦، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٠٧٢، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٨٤، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٧٥٩، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٥٧٤) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ مؤمنوں کو یہ پسند نہیں ہے کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں اور یہ بات نہ ہوتی کہ میں ان کے لئے سواریاں مہیا نہیں کرسکتا تو میں کسی ایسے لشکر کے پیچھے بیٹھا نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے جاتا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، مجھے یہ محبوب ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائو، پھر قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں پھر قتل کیا جائوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٩٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٠٢٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث؍ ٢٧٥٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٩١٧٦) زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہ بات کی : اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہر میں میری موت مقدر کردے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٨٩٠) نفوس خبیثہ سفلیہ ادنیٰ اور ارزل چیزوں کی طرف راغب ہوتے ہیں، دنیا میں ان کا مطمح نظر شہوات حیوانیہ اور مرغوبات نفسانیہ ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ دوزخ کا سب سے نچلا طبقہ ہے اور بلند ہمت اور اولوالعزم لوگ اعلیٰ اور اطیب چیزوں کی طرف راغب ہوتے ہیں، دنیا میں ان کا مطمح نظر عبادات کی لذتیں اور اطاعات کی حلاوتیں ہوتی ہیں اور آخرت میں ان کے لئے اعلیٰ علیین کے درجات اور جنات کے مقامات ہوتے ہیں اور ارواح قدسیہ اللہ عزوجل کے جلال اور جمال کی تجلیات کے مشاہدہ اور اس کی صفات کے مطالعہ میں مشغول اور منہمک رہتی ہیں اور ان میں سے ہر فریق اپنے مطلوب کی طرف اس طرح بےاختیار ملصوق اور مجذوب رہتا ہے جس طرح لوہا مقناطیس کی طرف بےاختیار کھنچا ہوا اور چپکا ہوا رہتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 16