وَمَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا بَاطِلًا ؕ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡاۚ فَوَيۡلٌ لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنَ النَّار ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 27
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا بَاطِلًا ؕ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡاۚ فَوَيۡلٌ لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنَ النَّار ۞
ترجمہ:
اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو بےفائدہ پیدا نہیں کیا، یہ تو کافروں کا گمان ہے، پس کافروں کے لیے آگ کا عذاب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ص ٓ: ٢٧ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے وہ لغو، عبث اور بےمقصد نہیں پیدا فرمایا، اس نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے اس میں بیشمار حکمتیں ہیں خواہ وہ حکمتیں ہمیں سمجھ آئیں یہ نہ آئیں، اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل آیات میں بھی بیان فرمایا ہے : ربنا ما خلقت ھذا باطلا ج سبحنک فقنا عذاب النار (آل عمران : ١٩١) اے ہمارے رب ! تو نے ان چیزوں کو بےفائدہ نہیں بنایا، تو سبحان ہے تو تو ہم کو دوزخ کی آگ سے بچا لے
وما خلقنا السموت والارض وما بینھما الا بالحق۔ (الحجر : ٥٨) اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
ان آیتوں میں حشرونشر اور قیامت کے ثبوت پر بھی دلیل ہے اور اس دلیل کی تقریر اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق جو پیدا کیا ہے تو یا اس کو نفع پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہے یا نقصان پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہے یا نفع پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہے نہ نقصان پہنچانے کے لیے۔ دوسری صورت باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو نقصان پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ رحیم اور کریم ہے اور یہ چیز اس کی رحمت کے منافی ہے اور تیسری صورت بھی باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو نہ نفع پہنچانے کے لیے پیدا کیا نہ نقصان پہنچانے کے لیے، کیونکہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو نہ نقصان پہنچایا تھا نہ نفع، اگر پیدا کرنے کے بعد بھی مخلوق اسی صفت پر ہو تو مخلوق کا پیدا کرنا اور نہ کرنا دونوں حال برابر ہوں گے اور پھر مخلوق کو پیدا کرنا عبث ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث نہیں ہوتا، اس لیے اب تیسری صورت متعین ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو نفع پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو یہ نفع اس دنیا میں پہنچائے گا یا آخرت میں، اس دنیا میں نفع پہنچانا تو مراد ہو نہیں سکتا، کیونکہ اس دنیا میں منافع کم ہیں اور ضرر رساں چیزیں بہت ہیں اور تھوڑے نفع کے لیے زیادہ نقصان برداشت کرنا حکمت کے خلاف ہے، پس متعین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو نفع پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ نفع آخرت میں پہنچائے گا، اس لیے قیامت کا آنا اور حشر ونشر کا ہونا اور جنت اور دوزخ کا ہونا ضروری ہے اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مخلوق میں تو کفار بھی ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے کون سا نفع پہنچایا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی دائمی نفع پہنچانے کے لیے بنایا تھا لیکن انہوں نے دائمی نفع کے اوپر دائمی نقصان کو اختیار کرلیا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 27