وَهَلۡ اَتٰٮكَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَۙ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 21
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَهَلۡ اَتٰٮكَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَۙ ۞
ترجمہ:
اور کیا آپ کے پاس جھگڑنے والوں کی خبر آئی ؟ جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور کیا آپ کے پاس جھگڑنے والوں کی خبر آئی ؟ جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے جب وہ دائود کے پاس پہنچے تو وہ ان سے گھبرا گئے، انہوں نے کہا : آپ نہ گھبرائیں، ہم دو لڑنے والے فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں اور بےانصافی نہ کریں اور ہمیں سیدھی راہ بتائیں بیشک یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے، اب یہ کہتا ہے کہ وہ (ایک دنبی بھی) مجھے دے دے اور مجھ پر بات میں دبائو ڈال رہا ہے دائود نے کہا : اس نے تجھ سے دنبی کا سوال کرکے تجھ پر ظلم کیا ہے تاکہ اس کو انپی دنبیوں کے ساتھ ملائے اور بیشک اکثر شرکاء ایک دوسرے پر ضرور زیادتی کرتے ہیں سو ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں اور دائود نے یہ گمان کیا کہ ہم نے ان کو آزمائش میں ڈالا ہے، سو انہوں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی اور سجدہ میں گرگئے اور اللہ کی طرف رجوع کیا تو ہم نے ان کی اس بات کہ معاف کردیا اور بیشک ان کے لئے ہماری بارگاہ میں خاص تقرب ہے اور بہترین ٹھکانا ہے (ص ٓ : ٢٥۔ ٢١ )
مشکل الفاظ کے معانی
ص ٓ: ٢١ میں ” نبوء “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے خبر، اس کے بعد ” الخصم “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے جھگڑنے والا، اس کا استعمال واحد، تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث سب کے لئے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ” تسسوروا “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : انہوں نے دیوار کو پھاند، تسور کا معنی ہے دیوار پر چڑھنا اور بلندی سے کودنا، اس کے بعد ” محراب “ کا لفظ ہے، محرات کا معنی ہے گھر یا مجلس کا صدر مقام، سب سے بلند اور مقام جگہ۔ حرب کا معنی ہے جنگ کرنا سو محراب کا معنی ہے جنگ کرنے کی جگہ، مسجد اور عبادت کی جگہ کو محراب کہتے ہیں کیونکہ وہاں انسان اپنے نفس اور شیطان سے جنگ کرتا ہے یا اس لئے کہ وہاں انسان دنیا کے مشاغل اور افکار پریشان سے منقطع ہو کر یکسوئی کے ساتھ یاد الٰہی میں بیٹھ جاتا ہے، بالاخ، انہ اور چوبارہ کو بھی محراب کہتے ہیں۔ محراب کی مکمل تفصیل اور تحقیق ہم نے سبا : ١٣ بتیان القرآن ج ٩ ص ٦١٠ میں کی ہے۔
حضرت دائود علیہ السلام کے حجرہ کی دیوار پھاند کر آنے والے آیا انسان تھے یا فرشتے ؟
اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) جس حجرے میں عبادت کرتے تھے، اس کے عام اور معروف راستہ کے بجائے دیوار کو پھاند کر آنے والے کون تھے ؟ بعض مفسرین نے کہا : وہ دو انسان تھے جو ایک معاملہ میں ایک دوسرے کے مخالف تھے اور حضرت دائود (علیہ السلام) سے فیصلہ کرانے کے لئے آئے تھے اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ وہ دو فرشتے تھے جو ایک فرضی مناقشہ بیان کرکے حضرت دائود (علیہ السلام) کی اس اجتہادی خطا یا لغزش پر متنبہ کرنا چاہتے تھے کہ جب ان کے عقد میں پہلے سے ننانوے بیویاں موجود تھیں تو پھر انہوں نے اور یا سے یہ کیوں کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو تاکہ میں اس سے نکاح کرلوں، پھر ان کے عقد میں سو بیویاں ہوجائیں گی اور جب حضرت دائود (علیہ السلام) اپنی اجتہادی خطا یا لغزش پر متنبہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمادے گا اور ان کو اپنا قرب خاص اور بلند درجہ عطا فرمائے گا۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ، علامہ ابواسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ، علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ، علامہ ابوالحسن علی بن احمد الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ، امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ، علامہ محمود بن عمر الزمخشری المتوفی ٥٣٧ ھ، علامہ عبدالرحمان بن علی ابن اجلوزی المتوفی ٥٩٧، علامہ عبداللہ بن عمر البیضاوی المتوفی ٦٨٥ ھ، علامہ علی بن محمد الخازن المتوفی ٧٢٥ ھ، علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ١١٠ ھ، قاضی ابو سعود محمد بن محمد المتوفی ٩٨٢ ھ، علامہ احمد بن محمد خفا جی متوفی ١٠٦٩ ھ اور دیگر مفسرین نے اس آیت کے تحت یہ تصریح کی ہے کہ یہ فرشتے تھے۔ (جامع البیان جز ٢٣ ص ١٦٨، الکشف والبیان ج ٨ ص ١٨٨، النکت والعیوج ج ٥ ص ٨٦، الوسیط ج ٣ ص ٥٤٧، معالم التنزیل ج ٤ ص ٦٠، الکشاف ج ٤ ص ٨٤، زادالمسیر ج ٧ ص ١١٨، انوار النتزیل مع الخفاجی ج ٨ ص ١٣٩، لباب اتاویل ج ٤ ص ٣٤، الدرالمنثور ج ٧ ص ١٣٩، تفسیر ابو سعود ج ٥ ص ٣٥٥، حاشیۃ الشہاب ج ٨ ص ١٣٩)
آنے والوں کے فرشتے ہونے پر علامہ ابوبکر العربی کے دلائل
علامہ ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی مالکی متوفی ٥٤٣ ھ نے اس پر دلائل قائم کیے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس رات کو دیوار پھاند کر آنے والے فرشتے تھے، انسان نہ تھے۔ وہ لکھتے ہیں : نقاش نے کہا : یہ دونوں شخص تھے اور مفسرین کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ وہ آنے والے فرشتے تھے اور انہوں نے یہ بھی معین کردیا ہے کہ وہدونوں حضرت جبریل اور میکائیل تھے اور اس کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ ہی جاننے والا ہے، حضرت دائودعلیہ السلام کی محراب (بالاخانہ) بہت بلند تھی اور کسی آدمی کی قدرت میں یہ نہیں تھا کہ وہ اسباب اور وسائل کے بعیر اس بلند محراب تک پہنچ سکے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ دروازہ سے محراب تک پہنچ گئے تھے تو پھر اللہ تعالیٰ اس واقعہ کی خبر دیتے ہوئے یہ نہ فرماتا : ” جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے “ اور اگر کہا جائے کہ انہوں نے سیڑھی لگائی اور اس کے ذریعہ چڑھ کر محراب میں داخل ہوگئے تو یہ مجاز ہوگا اور اگر یہ کہا جائے گا کہ وہ کھڑکی یا روشن دان کے ذریعہ محراب میں داخل ہوگئے تو پھر لازماً اور قطعاً یہ ماننا ہوگا کہ وہ آنے والے فرشتے تھے۔ (احکام القرآن ج ٤ ص ٤٧، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٠٨ ھ)
آنے والوں کے انسان ہونے پر امام رازی کے دلائل
امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ کا یہ نظریہ ہے کہ جو دیوار پھاند کر آئے وہ انسان تھے، فرشتے نہ تھے۔ وہ لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ وہ فرشتے تھے جو آسمان سے نازل ہوئے تھے اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ حضرت دائود (علیہ السلام) کو اس پر تنبیہ کریں کہ جب ان کے عقد میں پہلے ہی ننانوے بیویاں موجود ہیں تو پھر ان کا اور یا سے یہ کہنا مناسب ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تاکہ میں اس سے عقد کرلوں اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ دونوں انسان تھے اور وہ دونوں بری نیت سے حضرت دائود (علیہ السلام) کی محراب میں گئے تھے اور ان کا ارادہ حضرت دائود (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا تھا، ان کا گمان یہ تھا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) تنہا ہوں گے اور وہ آسانی سے حضرت دائود (علیہ السلام) کو قتل کرسکیں گے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس لوگوں کی جماعت بیٹھی ہوئی ہے تو انہوں نے جان لیا کہ اب وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے، پس انہوں نے جان چھڑانے کے لئے فی الفور یہ بات گھڑلی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے فریق مخالف ہیں اور حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس فیصلہ کرانے کے لئے آئے ہیں اور یہ کا کہ ان میں سے ایک کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور دوسرے کے پاس صرف ایک دنبی ہے، اس کے باوجود ننانوے دنبیوں والا دوسرے سے کہہ رہا ہے کہ تمہارے پاس جو ایک دنبی ہے وہ بھی مجھے دے دو ۔
جو مفسرین اس کے قائل ہیں کہ وہ آنے والے فرشتے نہ تھے بلکہ انسان تھے ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ دونوں فرشتے تھے تو ان کا یہ قول جھوٹا ہوگا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے خصم ہیں کیونکہ فرشتوں کی آپس میں مخاصمت نہیں ہوتی۔ اسی طرح ان دونوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، اگر وہ فرشتے تھے تو ان کا یہ قول بھی جھوٹا تھا، کیونکہ فرشتے کسی پر زیادتی نہیں کرتے نہ کسی کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، اسی طرح انہوں نے کا : ” بیشک یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے، اب یہ کہتا ہے کہ وہ (ایک دنبی بھی) مجھے دے دے اور مجھ پر بات میں دبائو ڈال رہا ہے “ اگر وہ فرشتے تھے تو ان کا یہ قول بھی جھوٹا ہے کیونکہ کسی فرشتے کے پاس دنبیاں نہیں تھیں اور نہ ننانوے دنبیوں والا ایک دنبی والے سے اس کی دنبی مانگ رہا تھا، سو اگر حضرت دائود (علیہ السلام) کی محراب پھاند کر آنے والے فرشتے تھے تو لازم آئے گا کہ انہوں نے تین جھوٹی باتیں کہیں اور فرشتے جھوٹ نہیں بول سکتے کیونکہ جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے اور فرشتے اللہ تعالیٰ کی معصیت نہیں کرتے، قرآن مجید میں ہے :
علیھا ملئکۃ غلاظ شداد لایعصون اللہ مآامرھم و یفعلون مایومرون۔ (التحریم : ٦)
دوزخ پر مضبوط دل فرشتے مقرر ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی معصیت (نافرمانی) نہیں کرتے اور وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے نیز فرمایا :
لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون۔ (الانبیاء : ٢٧) وہ کسی بات میں اللہ سے تجاوز نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم پر ہی عمل کرتے ہیں
(تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٨٣، ٣٨٢، موضحا ومفصلا، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
آنے والوں کے فرشتے ہونے کی توجیہ
علامہ محمود بن عمر الزمخشری المتوفی ٥٣٨ ھ نے ملائکہ کے قائلین کی طرف سے یہ جواب لکھا ہے : اگر تم یہ اعتراض کرو کہ ملائکہ (علیہم السلام) نے ایسی بات کیوں کہی جو واقعہ کے خلاف تھی اور جو کام انہوں نے نہیں کیے تھے اس کی کیوں خبر دی اور یہ ان کی شان کے لائق نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ کے وقوع کو فرض کرلیا اور انہوں نے اپنے اوپر اس صورت کی تصویر کشی کی اور وہ حضرت دائود کے پاس انسانوں کی صورت میں آئے تھے جیسے تم کسی مسئلہ کی مثال بیان کرتے ہوئے کہتے ہو کہ زید کی چالیس بکریاں ہیں اور عمرو کی بھی چالیس بکریاں ہیں اور ان دونوں نے اپنی بکریوں کو خلط ملط کردیا اور ان کے اوپر ایک سال گزر چکا ہے، اس ان پر کتنی زکوٰۃ واجب ہوگی ؟ یا تم اس طرح صورت بنا کر سوال کرو کہ مری چالیس بکریاں ہیں اور تمہاری بھی چالیس بکریاں ہیں اور ہم نے ان بکریوں کو ملا دیا ہے، ان پر سال گزر چکا ہے اب ہم پر کتنی زکوٰۃ واجب ہوگی ؟ (الکشاف ج ٤ ص ٨٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٧ ھ)
مذکور توجیہ کا امام رازی کی طرف سے جواب
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس جواب کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قرآن مجید کی ان آیات کو اس معنی پر محمول کرنا کہ فرشتوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے سامنے ایک فرضی صورت پیش کرکے صورت مسئلہ کا جواب جاننا چاہا تھا، یہ ان آیات کو مجاز پر محمول کرنا ہے اور جب ان آیات کو حقیقت پر محمول کرکے ان کا صحیح معنی ہوسکتا ہے تو پھر مجاز پر محمول کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٨٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤١٥ ھ)
مذکور توجیہ کا مصنف کی طرف سے جواب
مصنف کے نزدیک علامہ زمخشری اور ان کے موافقین کی تاویل اس لئے درست نہیں ہے کہ ان آنے والوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) سے کہا تھا : ” ہم دو لڑنے والے فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور بےانصافی نہ کریں۔ “ اس کلام سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ حضرت دائود علیہ السلم سے کوئی مسئلہ دریافت کررہے ہیں یا کسی فرضی صورت کا جواب معلوم کررہے ہیں بلکہ وہ خود اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرا رہے ہیں اور اس کو یہ مطلب پہنانا کہ وہ کسی فرضی صورت کا جواب معلوم کررہے ہیں ان آیات میں زبردستی خود ساختہ معنی کو ٹھونسنا ہے۔
آنے والوں کے انسان ہونے پر ابوالحیان اندلسی کے دلائل
علامہ ابوالحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ کا بھی یہ مختار ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس اپنے مقدمہ کا تصفیہ کرانے کے لئے آنے والے فرشتے نہیں تھے، دو انسان تھے۔ وہ لکھتے ہیں : قرآن مجید کی ظاہر آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی محراب میں غیر معروف طریقہ سے داخل ہونے والے دو انسان تھے اور یہ ان کی محراب میں اس وقت داخل ہوئے جو ان کے فیصلہ کرنے کے اوقات نہیں تھے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) ان کو دیکھ کر اس لئے گھبراگئے کہ وہ عام معروف راستہ سے نہیں آتے تھے اور اس وقت آپ عبادت میں مصروف تھے، انہیں دیکھ کر آپ کو یہ خیال آیا کہ وہ آپ کو ضرر پہنچانے کے ارادے سے آئے ہیں، کیونکہ آپ اس وقت بالکل اکیلے تھے اور عبادت میں مصروف تھے اور جب یہ واضح ہوگیا کہ وہ آپ کو ضرر پہنچانے کے ارادہ سے نہیں آئے، بلکہ آپ سے ایک مقدمہ کا فیصلہ کرانے کے لئے آئے ہیں تو حضرت دائود (علیہ السلام) کو اس پر افسوس ہوا اور ندامت ہوئی کہ انہوں نے ان دو انسانوں کے متعلق یہ گمان کیا کہ وہ کسی شر اور بدی کے ارادہ سے آئے ہیں لہٰذا انہوں نے اپنے اس گمان پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور سجدہ میں گر کر اللہ عتالیٰ سے اپنے اس گمان پر معافی چاہی سو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمادیا۔ (البحر المحیط ج ٩ ص ١٥١، دارالفکر، بیروت، ١٤١٢ ھ) اور سجدہ کے لیے رکوع کیا تو دوسری سورت کی آیتیں پڑھ کر رکوع کرے۔ (غنیۃ، عالم گیری، روالمختار، درمختار) (بہار شریعت حصہ چہارم ص ٤٠، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ١٤١٦ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 21
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]