امام احمد بن حنبل اور بدعت کا مفہوم!

معلمی صاحب لکھتے ہیں :

ہر بدعت ہی گمراہی ہے

امام عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

ﺳﺄﻟﺖ اﺑﻲ ﻋﻦ اﻟﺮﺟﻞ ﻳﺤﻤﻞ ﻣﻌﻪ اﻟﻤﺼﺤﻒ اﻟﻰ اﻟﻘﺒﺮ ﻳﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻪ؟

میں نے اپنے ابا جان (امام اہل السنہ احمد بن حنبل )سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جو قرآن مجید کو قبرستان لے کر جاتا ہے اور قبر پر تلاوت کرتا ہے ؟

ﻗﺎﻝ ﻫﺬﻩ #ﺑﺪﻋﺔ

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:یہ #بدعت ہے

ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ ﻭاﻥ ﻛﺎﻥ ﻳﺤﻔﻆ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻳﻘﺮﺃ

امام عبداللہ کہتے ہیں میں نے کہا:اگر وہ قرآن کا حافظ ہے پھر قبر پر تلاوت کر سکتا ہے ؟

ﻗﺎﻝ ﻻ ﻳﺠﻲء ﻭﻳﺴﻠﻢ ﻭﻳﺪﻋﻮ ﻭﻳﻨﺼﺮﻑ

امام اہل السنہ احمد بن حنبل نے فرمایا: نہیں وہ قبرستان آئے سلام کہے دعا کرے اور واپس چلا جائے ۔

مسائل الامام احمد 145/1 رقم المسئلۃ 544

قارئین کرام ہمارے کچھ احباب بدعت کی حسنہ و سیئہ تقسیم کرتے ہیں ان سے پوچھنا یہ ہے کہ یہاں امام احمد بن حنبل نے جس عمل کو بدعت کہ کر ناقابل عمل کہا کیا وہ آپ کے نزدیک بدعتِ سیئہ ہے؟

الجواب (اسد الطحاوی)

امام احمد بن حنبل مختلف ادوار سے گزرے ہیں پہلے وہ اجتیہاد کے قائل ہی نہیں تھے یعنی انکے اصول نہ تھے

بس جو اثرجو حدیث آجاتی اسی کو قبول کر لیتے بعض اوقات مختلف صحابہ سے اقوال آتے تو انکا فتویٰ ایک ہی مسلے پر مختلف ہوتا تھا

کیونکہ وہ کسی بھی اثر کو رد نہین کرتے تھے اسکی اہم وجہ یہی تھی کہ انکا کوئی فقہی اصول نہ تھا

لیکن امام شافعی کی شاگردی کے بعد ان میں فقاہت کا پودا پھلا پھولا !!!

جو مسلہ اوپر بیان کیا گیا ہے امام احمد سے اس کو انکے بیٹے امام عبداللہ اور امام ابو داود دونوں نے بیان کیا ہے

لیکن امام احمد بن حنبل مسلہ نفس سے رجوع کر گئے تھے کہ قبر پر جا کر قرآن کی تلاوت کی جا سکتی ہے اور انکے رجوع کو متعدد محدثین نے اپنی سند لاباس بہ کے ساتھ نقل کیا ہے

جیسا کہ امام طبرانی اور صاحب طبقات حنابلہ

اس میں معلمی صاحب کو بھی اختلاف نہیں تو اسکو یہاں نقل کرنے کی ضرورت نہیں

اب رہہ گیا یہ سوال کہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک جو مسلہ ثابت نہ تھا جسکا ثبوت نہ تھا تو امام احمد نے اسکو بدعت قرار دیتے ہوئے ناجائز قرار دے دیا

امام احمد بن حنبل نے اپنے اس موقف سے بھی رجوع کر لیا جب یہ اجتیہاد کے درجے پر فائز ہوئے تو پھر یہ ہر ان امور جنکی تفصیل قرآن و حدیث میں نہ ملتی تو یہ اجتیہاد کر کے مسلہ کی نوعیت کے مطابق فتویٰ دیتے تھے

اسکی مثال پیش کرتے ہیں :

امام ابن قدامہ المغنی میں قبر کو چھونے کے حوالے سے اسکے مستحب ہونے کی نفی بیان کرتے ہیں

وَلَا يُسْتَحَبُّ التَّمَسُّحُ بِحَائِطِ قَبْرِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَلَا تَقْبِيلُهُ، قَالَ أَحْمَدُ: مَا أَعْرِفُ هَذَا.

اور پھر امام احمد بن حنبل کا فتویٰ پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں اس (قبر کو چومنے ) کے بارے نہیں جانتا (یعنی اسکے مسلے میں انکے پاس کوئی اثر نہیں تھا )

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام احمد کسی امر کوئی ثبوت نہ پانے پر بدعت کا اطلاق نہیں کر دیتے تھے

اور پھر اب یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ایسا نیا عمل جسکا مقصد اللہ کا قرب پانا یعنی ثواب پانا ہو اسکو کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر یہ اسلام یا شریعت کے خلاف نہ ہو یہ الگ بات ہے کہ اسکا ثبوت بھی بیشک نہ ہو

جیسا کہ امام احمد بن حنبل سے انکے بیٹے روایت کرتے ہیں :

سَأَلْتُہٗ عَنِ الرَّجُلِ یَمَسُّ مِنْبَرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَتَبَرَّکُ بِمَسِّہٖ وَیُقَبِّلُہٗ وَیفْعَلُ بِالْقَبْرِ مِثْلَ ذٰلِک أَوْ نَحْوَ ہٰذَا یُرِیْدُ بِذٰلِکَ التَّقَرُّبَ إِلَی اللّٰہِ جَلَّ وَعَزَّ، فَقَالَ لَا بَأْسَ بذٰلِکَ

امام عبداللہ کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کو چھونے سے تبرک حاصل کرتا ہے،اسے بوسہ دیتا اور قبرِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ایسے کام سر انجام دیتا ہے،اگر وہ اس سے تقرب الی اللہ کا ارادہ رکھتا ہے توکیا یہ جائز ہے؟

اس پر امام احمد نے کہا : ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(العلل ومعرفۃ الرجال : 294/2، ت : 324)

اب اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسا نیک امر جس پر کوئی ثبوت نہ ہو اور آدمی اللہ کے تقرب یعنی صالح عمل کی نیت سے کرے اور اس پر شریعت میں کوئی حکم نہ ہو نفی کا تو امام احمد بن حنبل اسکو جائز بھی قرار دیا

اور یہی مطلب بدعت کا ہے کہ ایسے تمام اعمال جو شریعت کے اصول اور احکامات سے نہ ٹکراتے ہو اور ہوں بھی صالح اعمال اور دین میں اسکی اصل ہو جیسا کہ اسلام میں نبی کریم کے کپڑوں اور بالوں کو بطور تبرک اس سے برکت حاصل کرنا ہے

تو وہی برکت کا حصول انکی قبر مبارک سے بھی لیا جا سکتا ہے یا نہیں تو اس امر کو امام احمد نے لا باس بہ کہا کہ اس کو کرنے میں کوئی حرج نہیں

تو اب ہمارا سوال ہے کہ وہ امام احمد جو کسی امر کے عدم ثبوت پر بدعت کا اطلاق کرتے تھے

وہ پھر ایسے عمل جسکا ثبوت امام احمد کے نزدیک ثابت نہیں تو وہ اسکو بھی جائز قرار دے رہے ہیں

تو کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہر نیا مسلے پر بدعت کا اطلاق کر کے اسکو رد نہیں کیا جائے گا بلکہ مسلے کی نوعیت دیکھی جائے گی

تحققیق: اسد الطحاوی الحنفی