شبِ برأت کی فضیلت و اہمیت
شبِ برأت کی فضیلت و اہمیت پر اتنی کثرت کے ساتھ اَحادیث حسنہ و صحیحہ وارد ہوئی ہیں اور اَئمہ احادیث نے باقاعدہ ابواب قائم کیے ہیں۔ لہذا اس کی فضیلت و اہمیت کا انکار کرنا سوائے جہالت اور لاعلمی اور کتب و ذخیرہ احادیث سے بے خبر ہونے کے اور کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا۔
شبِ برأت اور صحابہ کرام کے معمولات
شبِ برأت ایک انتہائی فضیلت و بزرگی والی رات ہے۔ اس رات کے متعلق تقریباً دس جلیل القدر صحابۂ کرام: (1) حضرت ابوبکر، (2) حضرت علی المرتضیٰ، (3) حضرت عائشہ صدیقہ، (4) حضرت معاذ بن جبل، (5) حضرت ابوہریرہ، (6) حضرت عوف بن مالک، (7) حضرت ابو موسیٰ اشعری، (8) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص، (9) حضرت ابو ثعلبہ الخشنی، (10) حضرت عثمان بن ابی العاص سے مروی احادیث مبارکہ ہیں۔
ذیل میں شبِ برأت کے حوالے سے چند ایک صحابہ کرام کے اقوال اور ان کے معمولات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
يُعْجِبُنِي أَنْ يُفَرِّغَ الرَّجُلُ نَفْسَهُ فِي أَرْبَعِ لَيَالٍ: لَيْلَةُ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةُ الأَضْحٰی، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ.
(ابن جوزی، التبصرة، 2/ 21)
’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ ان چار راتوں میں آدمی خود کو (تمام دنیاوی مصروفیات سے عبادت الٰہی کے لیے) فارغ رکھے۔ (وہ چار راتیں یہ ہیں:) عید الفطر کی رات، عید الاضحی کی رات، شعبان کی پندرہویں رات اور رجب کی پہلی رات۔‘‘
حضرت طاؤوس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں: ایک حصے میں اپنے نانا جان ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود شریف پڑھتا ہوں دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور تیسرے حصے میں نماز پڑھتا ہوں۔
میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لیے کیا ثواب ہوگا۔ آپ نے فرمایا: میں نے حضرت علی g سے سنا اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اسے مقربین لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘(سخاوی، القول البديع، باب الصلاة عليه فی شعبان: 207)
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَةُ الْعِيْدِ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ.
(بيهقی، شعب الايمان، 3/ 342)
’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے۔‘‘(طبری، جامع البيان، 25/ 109)
حضور غوث الاعظم کا فرمان مبارک
شب برأت فیصلے، قضا، قہر و رضا، قبول و ردّ، نزدیکی و دوری، سعادت و شقاوت اور پرہیزگاری کی رات ہے۔ کوئی شخص اس میں نیک بختی حاصل کرتا ہے اور کوئی مردود ہو جاتا ہے، ایک ثواب پاتا ہے اور دوسرا ذلیل ہوتا ہے۔ ایک معزز و مکرم ہوتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ ایک کو اجر دیا جاتا ہے جب کہ دوسرے کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کا کفن دھویا جا رہا ہے اور وہ بازاروں میں مشغول ہیں! کتنی قبریں کھودی جا رہی ہیں لیکن قبر میں دفن ہونے والا اپنی بے خبری کے باعث خوشی اور غرور میں ڈوبا ہوا ہے! کتنے ہی چہرے کھلکھلا رہے ہیں حالانکہ وہ ہلاکت کے قریب ہیں! کتنے مکانوں کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے لیکن ان کا مالک موت کے قریب پہنچ چکا ہے کتنے ہی بندے رحمت کے امیدوار ہیں پس انہیں عذاب پہنچتا ہے! کتنے ہی بندے خوشخبری کی اُمید رکھتے ہیں پس وہ خسارہ پاتے ہیں! کتنے ہی بندوں کو جنت کی امید ہوتی ہے پھر ان کو دوزخ میں جانا پڑتا ہے! کتنے ہی بندے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار ہوتے ہیں لیکن وہ جدائی کا شکار ہوتے ہیں! کتنے ہی لوگوں کو عطائے خداوندی کی امید ہوتی ہے لیکن وہ مصائب کا منہ دیکھتے ہیں، اور کتنے ہی لوگوں کو بادشاہی کی اُمید ہوتی ہے لیکن وہ ہلاک ہوتے ہیں! (غنیۃ الطالبین)