کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 17 رکوع 10 سورہ الحج آیت نمبر 23 تا 25
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًاؕ-وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ(۲۳)
بےشک اللہ داخل کرے گا اُنہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہیں اس میں پہنائے جائیں گے سونے کے کنگن اور موتی(ف۵۷)اور وہاں اُن کی پوشاک ریشم ہے (ف۵۸)
(ف57)
ایسے جن کی چمک مشرق سے مغرب تک روشن کر ڈالے ۔ (ترمذی)
(ف58)
جس کا پہننا دنیا میں مَردوں کو حرام ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے دنیا میں ریشم پہنا آخرت میں نہ پہنے گا ۔
وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِۚۖ-وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ(۲۴)
اور اُنہیں پاکیزہ بات کی ہدایت کی گئی (ف۵۹) اور سب خوبیوں سراہے کی راہ بتائی گئی (ف۶۰)
(ف59)
یعنی دنیا میں اور پاکیزہ بات سے کلمۂ توحید مراد ہے ۔ بعض مفسِّرین نے کہا قرآن مراد ہے ۔
(ف60)
یعنی اللہ کا دین اسلام ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ ﰳالْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِؕ-وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠(۲۵)
بےشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور روکتے ہیں اللہ کی راہ (ف۶۱)اور اس ادب والی مسجد سے (ف۶۲) جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے مقرر کیا کہ اس میں ایک سا حق ہے وہاں کے رہنے والے اور پردیسی کا اور جو اس میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے ہم اُسے دردناک عذاب چکھائیں گے(ف۶۳)
(ف61)
یعنی اس کے دین اور اس کی اطاعت سے ۔
(ف62)
یعنی اس میں داخل ہونے سے ۔
شانِ نُزول : یہ آیت سفیان بن حرب وغیرہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے سے روکا تھا ۔ مسجدِ حرام سے یا خاص کعبۂ معظّمہ مراد ہے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں ، اس تقدیر پر معنی یہ ہوں گے کہ وہ تمام لوگوں کا قبلہ ہے ، وہاں کے رہنے والے اور پردیسی سب برابر ہیں ، سب کے لئے اس کی تعظیم و حرمت اور اس میں ادائے مناسکِ حج یکساں ہے اور طواف و نماز کی فضیلت میں شہری اور پردیسی کے درمیان کوئی فرق نہیں اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک یہاں مسجدِ حرام سے مکّہ مکرّمہ یعنی جمیع حرم مراد ہے ، اس تقدیر پر معنٰی یہ ہوں گے کہ حرم شریف شہری اور پردیسی سب کے لئے یکساں ہے ، اس میں رہنے اور ٹھہرنے کا سب کسی کو حق ہے بَجُز اس کے کہ کوئی کسی کو نکالے نہیں اسی لئے امام صاحب مکّہ مکرّمہ کی اراضی کی بیع اور اس کے کرایہ کو منع فرماتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مکّہ مکرّمہ حرام ہے اس کی اراضی فروخت نہ کی جائیں ۔ (تفسیرِ احمدی)
(ف63)
” اِلْحَادٍ بِظُلْم ” ناحق زیادتی سے یا شرک و بُت پرستی مراد ہے ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ ہر ممنوع قول و فعل مراد ہے حتی کہ خادم کو گالی دینا بھی ۔ بعض نے کہا اس سے مراد ہے حرم میں بغیر احرام کے داخل ہونا یا ممنوعاتِ حرم کا ارتکاب کرنا مثل شکار مارنے اور درخت کاٹنے کے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا مراد یہ ہے کہ جو تجھے نہ قتل کرے تو اسے قتل کرے یا جو تجھ پر ظلم نہ کرے تو اس پر ظلم کرے ۔
شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن انیس کو دو آدمیوں کے ساتھ بھیجا تھا جن میں ایک مہاجر تھا دوسرا انصاری ، ان لوگوں نے اپنے اپنے مفاخرِ نسب بیان کئے تو عبداللہ بن انیس کو غصّہ آیا اور اس نے انصاری کو قتل کر دیا اور خود مرتد ہو کر مکّہ مکرّمہ کی طرف بھاگ گیا ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔