کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 17 رکوع 8 سورہ الحج آیت نمبر 1 تا 10
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿﴾
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)
(ف1)
سورۂ حج بقول ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما و مجاہد مکّیہ ہے سوائے چھ آیتوں کے جو ” ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ” سے شروع ہوتی ہیں اس صورت میں دس رکوع اور اٹھتر آیتیں اور ایک ہزار دو سو اکانوے ۱۲۹۱ کلمات اور پانچ ہزار پچھتر ۵۰۷۵ حرف ہیں ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ-اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ(۱)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو (ف۲) بےشک قیامت کا زلزلہ (ف۳) بڑی سخت چیز ہے
(ف2)
اس کے عذاب کا خوف کرو اور اس کی طاعت میں مشغول ہو ۔
(ف3)
جو علاماتِ قیامت میں سے ہے اور قریبِ قیامت آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے کے نزدیک واقع ہو گا ۔
یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ(۲)
جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی (ف۴) اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی اور ہر گابھنی (ف۵) اپنا گابھ ڈال دے گی(ف۶)اور تو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشہ میں ہیں اور وہ نشہ میں نہ ہوں گے (ف۷)مگر ہے یہ کہ اللہ کی مار کڑی ہے
(ف4)
اس کی ہیبت سے ۔
(ف5)
یعنی حمل والی اس دن کے ہول سے ۔
(ف6)
حمل ساقط ہو جائیں گے ۔
(ف7)
بلکہ عذابِ الٰہی کے خوف سے لوگوں کے ہوش جاتے رہیں گے ۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ(۳)
اور کچھ لوگ وہ ہیں کہ اللہ کے معاملہ میں جھگڑتے ہیں بے جانے بوجھے اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں (ف۸)
(ف8)
شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو بڑا ہی جھگڑالو تھا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں اور قرآن کو پہلوں کے قصّے بتاتا تھا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا منکِر تھا ۔
كُتِبَ عَلَیْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ یُضِلُّهٗ وَ یَهْدِیْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ(۴)
جس پر لکھ دیا گیا ہے کہ جو اس کی دوستی کرے گا تو یہ ضرور اسے گمراہ کردے گا اور اُسے عذابِ دوزخ کی راہ بتائے گا (ف۹)
(ف9)
شیطان کے اِتّباع سے زجر فرمانے کے بعد منکِرینِ بعث پر حُجّت قائم فرمائی جاتی ہے ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْؕ-وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْۚ-وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــٴًـاؕ-وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ(۵)
اے لوگو! اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے (ف۱۰) پھر پانی کی بوند سے (ف۱۱) پھر خون کی پھٹک سے (ف۱۲) پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بے بنی(ف۱۳)تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں (ف۱۴) اور ہم ٹھہرائے رکھتے ہیں ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہیں ایک مقرر میعاد تک (ف۱۵) پھر تمہیں نکالتے ہیں بچہ پھر (ف۱۶) اس لیے کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو (ف ۱۷) اور تم میں کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب میں نکمی عمر تک ڈالا جاتا ہے (ف۱۸) کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے (ف۱۹) اور تو زمین کو دیکھے مرجھائی ہوئی (ف۲۰) پھر جب ہم نے اس پر پانی اُتارا تر و تازہ ہوئی اور ابھر آئی اور ہر رونق دار جوڑا(ف۲۱) اُگا لائی(ف۲۲)
(ف10)
تمہاری نسل کی اصل یعنی تمہارے جدِّ اعلٰی حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے پیدا کر کے ۔
(ف11)
یعنی قطرۂ مَنی سے ان کی تمام ذُرِّیَّت کو ۔
(ف12)
کہ نطفۂ خونِ غلیظ ہو جاتا ہے ۔
(ف13)
یعنی مُصوَّر اور غیرِ مُصوَّر ۔ بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تم لوگوں کا مادۂ پیدائش ماں کے شکم میں چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنی ہی مدّت خونِ بستہ ہو جاتا ہے پھر اتنی ہی مدّت گوشت کی بوٹی کی طرح رہتا ہے پھر اللہ تعالٌٰی فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق ، اس کی عمر ، اس کے عمل ، اس کا شقی یا سعید ہونا لکھتا ہے پھر اس میں روح پھونکتا ہے ۔ (الحدیث) اللہ تعالٰی انسان کی پیدائش اس طرح فرماتا ہے اور اس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل کرتا ہے یہ اس لئے بیان فرمایا گیا ۔
(ف14)
اور تم اللہ تعالٰی کے کمالِ قدرت و حکمت کو جانو اور اپنی ابتدائے پیدائش کے حالات پر نظر کر کے سمجھ لو کہ جو قادرِ برحق بے جان مٹی میں اتنے انقلاب کر کے جاندار آدمی بنا دیتا ہے وہ مرے ہوئے انسان کو زندہ کرے تو اس کی قدرت سے کیا بعید ۔
(ف15)
یعنی وقتِ ولادت تک ۔
(ف16)
تمہیں عمر دیتے ہیں ۔
(ف17)
اور تمہاری عقل و قوّت کامل ہو ۔
(ف18)
اور اس کو اتنا بڑھاپا آ جاتا ہے کہ عقل و حوّاس بجا نہیں رہتے اور ایسا ہو جاتا ہے ۔
(ف19)
اور جو جانتا ہو وہ بھول جائے ۔ عِکرمہ نے کہا جو قرآن کی مداومت رکھے گا اس حالت کو نہ پہنچے گا ، اس کے بعد اللہ تعالٰی بَعث یعنی مرنے کے بعد اٹھنے پر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے ۔
(ف20)
خشک بے گیاہ ۔
(ف21)
یعنی ہر قِسم کا خوش نما سبزہ ۔
(ف22)
یہ دلیلیں بیان فرمانے کے بعد نتیجہ مرتّب فرمایا جاتا ہے ۔
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ یُحْیِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۙ(۶)
یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے (ف۲۳) اور یہ کہ وہ مُردے جِلائے(زندہ کرے) گا اور یہ کہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے
(ف23)
اور یہ جو کچھ ذکر کیا گیا آدمی کی پیدائش اور خشک بے گیاہ زمین کو سرسبز و شاداب کر دینا اس کے وجود و حکمت کی دلیلیں ہیں ان سے اس کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے ۔
وَّ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَاۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ(۷)
اور اس لیے کہ قیامت آنے والی اس میں کچھ شک نہیں اور یہ کہ اللہ اُٹھائے گا اُنہیں جو قبروں میں ہیں
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍۙ(۸)
اور کوئی آدمی وہ ہے کہ اللہ کے بارے میں یوں جھگڑتا ہے کہ نہ تو علم نہ کوئی دلیل اور نہ کوئی روشن نوشتہ(تحریر)(ف۲۴)
(ف24)
شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل وغیرہ ایک جماعتِ کُفّار کے حق میں نازل ہوئی جو اللہ تعالٰی کی صفات میں جھگڑا کرتے تھے اور اس کی طرف ایسے اوصاف کی نسبت کرتے تھے جو اس کی شان کے لائق نہیں ۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ آدمی کو کوئی بات بغیر علم اور بے سند و دلیل کے کہنی نہ چاہیئے ، خاص کر شانِ الٰہی میں اور جو بات علم والے کے خلاف بے علمی سے کہی جائے گی وہ باطل ہو گی پھر اس پر یہ انداز کہ اصرار کرے اور براہِ تکبُّر ۔
ثَانِیَ عِطْفِهٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-لَهٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ نُذِیْقُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ(۹)
حق سے اپنی گردن موڑے ہوئے تاکہ اللہ کی راہ سے بہکادے (ف۲۵) اس کے لیے دنیا میں رسوائی ہے (ف۲۶) اور قیامت کے دن ہم اُسے آ گ کا عذاب چکھائیں گے(ف۲۷)
(ف25)
اور اس کے دین سے منحرف کر دے ۔
(ف26)
چنانچہ بدر میں وہ ذلّت و خواری کے ساتھ قتل ہوا ۔
(ف27)
اور اس سے کہا جائے گا ۔
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۠(۱۰)
یہ اس کا بدلہ ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا(ف۲۸) اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا (ف۲۹)
(ف28)
یعنی جو تو نے دنیا میں کیا کُفر و تکذیب ۔
(ف29)
اور کسی کو بے جُرم نہیں پکڑتا ۔