کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 17 رکوع 11 سورہ الحج آیت نمبر 26 تا 33
وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْــٴًـا وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْقَآىٕمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۲۶)
اور جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا (ف۶۴) اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر اور میرا گھر ستھرا رکھ (ف۶۵) طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے (ف۶۶)
(ف64)
تعمیرِکعبہ شریف کے وقت پہلے عمارتِ کعبہ حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بنائی تھی اور طوفانِ نوح کے وقت وہ آسمان پر اٹھا لی گئی ، اللہ تعالٰی نے ایک ہوا مقرر کی جس نے اس کی جگہ کو صاف کر دیا اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے ایک اَبر بھیجا جو خاص اس بُقعَہ کے مقابل تھا جہاں کعبہ معظّمہ کی عمارت تھی اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ شریف کی جگہ بتائی گئی اور آپ نے اس کی قدیم بنیاد پر عمارتِ کعبہ تعمیر کی اور اللہ تعالٰی نے آ پ کو وحی فرمائی ۔
(ف65)
شرک سے اور بُتوں سے اور ہر قسم کی نجاستوں سے ۔
(ف66)
یعنی نمازیوں کے ۔
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ(۲۷)
اور لوگوں میں حج کی عام ندا کردے (ف۶۷) وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے پیادہ اور ہر دُبلی اونٹنی پر کہ ہر دُور کی راہ سے آتی ہیں (ف۶۸)
(ف67)
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر جہان کے لوگوں کو ندا کر دی کہ بیت اللہ کا حج کرو ، جن کے مقدور میں حج ہے انہوں نے باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے پیٹوں سے جواب دیا لَبَّیْکَ اَللّہُمَّ لَبَّیْکَ ۔ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ اس آیت میں اَذِّنْ کا خِطاب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے چنانچہ حَجَّۃُ الوداع میں اعلان فرما دیا اور ارشاد کیا کہ اے لوگو اللہ نے تم پر حج فرض کیا تو حج کرو ۔
(ف68)
اور کثرتِ سیر و سفر سے دبلی ہو جاتی ہیں ۔
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ٘(۲۸)
تاکہ وہ اپنا فائدہ پائیں (ف۶۹) اور اللہ کا نام لیں (ف۷۰) جانے ہوئے دنوں میں (ف۷۱) اس پر کہ اُنہیں روزی دی بے زبان چوپائے (ف۷۲) تو ان میں سے خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ (ف۷۳)
(ف69)
دینی بھی دنیوی بھی جو اس عباد ت کے ساتھ خاص ہیں ، دوسری عبادت میں نہیں پائے جاتے ۔
(ف70)
وقتِ ذَبح ۔
(ف71)
جانے ہوئے دنوں سے ذِی الحِجّہ کا عشرہ مراد ہے جیسا کہ حضرت علی اور ابنِ عباس و حسن و قتادہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے اور یہی مذہب ہے ہمارے امامِ اعظم حضرت ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اور صاحبین کے نزدیک جانے ہوئے دنوں سے ایّامِ نحر مراد ہیں ، یہ قول ہے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اور ہر تقدیر پر یہاں ان دنوں سے خاص روزِ عید مراد ہے ۔ (تفسیرِ احمدی)
(ف72)
اونٹ ، گائے ، بکری ، بھیڑ ۔
(ف73)
تطّوُع اور متعہ و قِرانْ و ہر ایک ہدی سے جن کا اس آیت میں بیان ہے کھانا جائز ہے ، باقی ہدایا سے جائز نہیں ۔ (تفسیرِ احمد ی و مدارک)
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ(۲۹)
پھر اپنا میل کچیل اُتاریں (ف۷۴) اور اپنی منتیں پوری کریں (ف۷۵) اور اس آزاد گھر کا طواف کریں (ف۷۶)
(ف74)
مونچھیں کتروائیں ، ناخن تراشیں ، بغلوں اور زیرِ ناف کے بال دور کریں ۔
(ف75)
جو انہوں نے مانی ہوں ۔
(ف76)
اس سے طوافِ زیارت مراد ہے ، مسائلِ حج بالتفصیل سورۂ بقر پارہ دو میں ذکر ہو چکے ۔
ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)
بات یہ ہے اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے (ف۷۷) تو وہ اس کے لیے اُس کے رب کے یہاں بھلا ہے اور تمہارے لیے حلال کیے گئے بے زبان چوپائے (ف۷۸) سوا اُن کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے (ف۷۹) تو دور ہو بتوں کی گندگی سے (ف۸۰) اور بچو جھوٹی بات سے
(ف77)
یعنی اس کے احکام کی خواہ وہ مناسکِ حج ہوں یا ان کے سوا اور احکام ۔ بعض مفسِّرین نے اس سے مناسکِ حج مراد لئے ہیں اور بعض نے بیتِ حرام و مشعرِ حرام و شہرِ حرام و بلدِ حرام و مسجدِ حرام مراد لئے ہیں ۔
(ف78)
کہ انہیں ذبح کر کے کھاؤ ۔
(ف79)
قرآنِ پاک میں جیسے کہ سورۂ مائدہ کی آیت ”حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ” میں بیان فرمائی گئی ۔
(ف80)
جن کی پرستِش کرنا بدترین گندگی سے آلودہ ہونا ہے ۔
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ(۳۱)
ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو اور جو اللہ کا شریک کرے وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اُسے اُچک لے جاتے ہیں(ف۸۱) یا ہوا اُسے کسی دور جگہ پھینکتی ہے (ف۸۲)
(ف81)
اور بوٹی بوٹی کر کے کھا جاتے ہیں ۔
(ف82)
مراد یہ ہے کہ شرک کرنے والا اپنی جان کو بدترین ہلاکت میں ڈالتا ہے ۔ ایمان کو بلندی میں آسمان سے تشبیہ دی گئی اور ایمان ترک کرنے والے کو آسمان سے گرنے والے کے ساتھ اور اس کی خواہشاتِ نفسانیہ کو جو اس کی فکروں کو منتشر کرتی ہیں بوٹی بوٹی لے جانے والے پرندے کے ساتھ اور شیاطین کو جو اس کو وادیٔ ضلالت میں پھینکتے ہیں ہَوا کے ساتھ تشبیہ دی گئی اور اس نفیس تشبیہ سے شرک کا انجامِ بد سمجھایا گیا ۔
ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ(۳۲)
بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے(ف۸۳)
(ف83)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ شعائر اللہ سے مراد بُدنے اور ہدایا ہیں اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ فربہ ، خوبصورت ، قیمتی لئے جائیں ۔
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠(۳۳)
تمہارے لیے چوپایوں میں فائدے ہیں(ف۸۴) ایک مقرر میعاد تک (ف۸۵) پھر اُن کا پہنچنا ہے اس آزاد گھر تک(ف۸۶)
(ف84)
وقتِ ضرور ت ان پر سوار ہونے اور وقتِ حاجت ان کے دودھ پینے کے ۔
(ف85)
یعنی ان کے ذبح کے وقت تک ۔
(ف86)
یعنی حرم شریف تک جہاں وہ ذبح کئے جائیں ۔