غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری کے مضمون کا تحقیق جائزہ!
“شبِ براءت” کی شرعی حیثیت
غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری کے مضمون کا تحقیق جائزہ!
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی
غیر مقلدین کے محقق العصر امن پوری کی علمی حیثیت کا اندازہ تو اس بات سے خوب لگایا جا سکتا ہے
کہ موصوف نے ایری چوٹی کا زور لگا کر اپنا یہ باطل موقف ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے
کہ شب برات ایک بدعت ہے اور خیر القرون میں اس امر پر کسی نے تحسین نہیں کی
اس مسلے پر انکا تفصیلی پوسٹ مارٹم بعد میں کیا جائے گا باقی انہوں نے رجال رجال کھیل کر جو شب برات کی روایات میں کلام کیا ہے
اور البانی کا ناکام رد کرنے کی کوشش کی ہے ہم اس پر فقط دو احادیث پر انکی پکڑ کرینگے تو پڑھنے والے احباب اندادہ لگا لینگے کہ موصوف روایت کو رد کرنے میں کتنی بے باک ہیں اور سطحی تحقیق کرکے روایت کو رد کردینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے
پہلی روایت جو اس مضمون میں نقل کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے :
1 حدیث ِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ :
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یطّلع اللّٰہ الیٰ خلقہ لیل النّصف من شعبان ، فیغفر لجمیع خلقہ الّا مشرک أو مشاحن ۔
”اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں ، مشرک اور اپنے مسلمان بھائی سے بغض و عداوت اور دشمنی و کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرما دیتے ہیں ۔”
(کتاب السّنّۃ لابن ابی عاصم : ٥١٢، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٠/١٠٨، صحیح ابن حبان (الاحسان : ٥٦٣٦) ، المعجم الاوسط للطبرانی : ٧/٢٩٧، ح : ٦٧٧٢، شعب الایمان للبیہقی : ٢/٣٨٢، ح : ٣٨٣٣)
اسکے بعد موصوف(امن پوری) تبصر ہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
تبصرہ : اس روایت کی سند ”ضعیف” ہے ،
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مکحول لم یلق مالک بن یخامر ۔
”مکحول نے مالک بن یخامر سے ملاقات نہیں کی ۔”
(السلسلۃ الصحیحۃ : ١١٤٤)لہٰذا یہ سند ”منقطع” ہوئی اور ”منقطع” حدیث ”ضعیف” ہوتی ہے ،
الجواب (اسد الطحاوی)
سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ جس کلام پر اس روایت کو مطلق رد کر دیا گیا ہے اسکی نوعیت کیا ہے
امام ذھبی کا کلام جس طرح البانی صاحب نے لکھا ہے اور ویسا ہی موصوف نے نقل کیا ہے لیکن اگر امام ذھبی کے کلام کی طرف نظر جائے تو اصل حقیقت واضح ہوتی ہے
جیسا کہ امام ذھبی فرماتے ہیں :
وروى أيضا عن: طائفة من قدماء التابعين، ما أحسبه لقيهم؛ كأبي مسلم الخولاني، ومسروق، ومالك بن يخامر.
اور روایت کیا ہے (مکحول ) نے طائفہ کے قدیم تابعین سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا یہ گمان ہے ان سے ملاقات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ ابی مسلم الخولانی (سے ) ، مسروق (سے ) اور مالک بن یخامر (سے )
معلوم ہوا یہاں امام ذھبی نے اپنا اشکال پیش کیا ہے خود امام ذھبی نے بھی یہ بات یقینی طور پر نہیں کی ہے بلکہ انکو شک ہے کہ ان سے ملاقات انکے حساب سے ثابت نہیں
جب ایک مسلہ حتمی طور پر ثابت نہیں ہو سکتا ہے کہ ملاقات ہو بھی اور ہو سکتا ہے نہ بھی ہو یہ صورت حال ہے امام ذھبی کے نزدیک تو
اہل حدیث لوگوں اسکو امام ذھبی کا حتمی حکم بنا کر پیش کرنا یقینن حقیقت کے منافی بات ہے
جب اہل حدیث حضرات کا خود کا یہ حال ہے کہ امام ذھبی کے ثابت شدہ کلام کو اپنی مرضی کی روایات پر قبول بھی نہیں کرتے بلکہ اس سے دو قددم آگے بڑھ کر امام ذھبی کی عدالت پر حملہ آور ہوتے ہیں
بطور مثال ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں :
زبیر زئی لکھتا ہے :
حافظ ذھبی نے فاتحہ خلف الامام کی ایک صحیح حدیث (زبیر زئی کے نزدیک) پر حافظ ابن حبان کی کتاب الثقات سے جرح نقل کی ہے : ” وقال : حدیثة معلل ” اور ابن حبان نے کہا : اس (نافع بن محمود المقدسی) کی حدیث معلول ہے
(میزان الاعتدال برقم :۸۹۹۵)
اسکا رد کرتے ہوئے زبیر زئی لکھتا ہے :
حالانکہ یہ الفاظ حافظ ابن حبان سے ہرگز ثابت نہیں دیکھیے تحقیق الکلام مبارکفوری۔۔۔
(مقالات جلد ششم ص ۳۹۵، زبیر علی زئی )
یعنی بقول زبیر زئی امام ابن حبان سے ایسا کچھ مروی نہیں جو امام ذھبی نے امام ابن حبان کے حوالے سے نقل کیا ہے تو یہ تو امام ذھبی کی عدالت پر سوال ہو گیا
اب ہم بتاتے ہیں زبیر زئی میاں نے یہاں کیا خیانت کی ہے
انہوں نے سب سے پہلی خیانت یہ کی ہے کہ لکھا ہے
حافظ ذھبی نے فاتحہ خلف الامام کی ایک صحیح پر حافظ ابن حبان کی کتاب الثقات سے جرح نقل کی ہے
زبیر زئی میاں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ امام ذھبی نے ابن حبان کے الفاظ نقل کیے ہیں جبکہ ابن حبان سے وہ الفاظ ثابت نہیں انکی کتاب الثقات میں
یہ فحش خیانت ہے انکی
جبکہ امام ذھبی نے اصل میں امام ابن حبان کا موقف اپنے الفاظ میں بالمعنی بیان کیا ہے نہ کہ ابن حبان کے اپنے الفاظ نقل کیے بلکہ ابن حبان کی بات کو اپنے الفاظوں میں نقل کیا ہے
کیونکہ ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں نافع بن محمود کے ترجمہ میں جو بات کہی ہے وہ درجہ ذیل ہے :
” نافع بن محمود بن ربیعة یروی عن عبادة بن الصامت متن خبره فی القراءة خلف الامام یخالف متن خبر محمود بن الربیع عن عبادة”
نافع بن محمود بن ربیع یہ روایت کرتا ہے عبادہ بن صامت سے فاتحہ خلف امام کے باب کی روایت جسکا متن مخالف ہے (یعنی منکر ہے ) اس روایت کے جسکو محمود بن ربیع بیان کرتے ہیں عبادہ سے
(کتاب الثقات ابن حبان ، ج ۵، ص ۱۷۰)
اسی لیے امام ذھبی نے امام ابن حبان کا موقف اپنے الفاظ میں لکھ دیا کہ ابن حبان کہتے ہیں کہ نافع کی روایت معلول ہے
کیونکہ نافع نے روایت میں وہ الفاظ بیان کیے ہیں جو محمود بن ربیع بیان نہیں کرتا عبادہ سے
اس لیے اس روایت میں علت ہے اور امام ذھبی کی بات تو صحیح ثابت ہوئی لیکن زبیر زئی اور اہل حدیث لوگ یہاں یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ابن حبان کے وہ الفاظ ثابت نہیں جو امام ذھبی نے انکی طرف سے لکھے ہیں
تو عرض ہے امام ذھبی امام ابن حبان کے کلام کی معرفت زیادہ جاننے والے ہیں یا آج کے آپ لوگ ؟
اب کیا ناقدین یا مصنفین کسی امام کی بات کو بالمعنی اپنی طرف سے بیان نہیں کرتے ہیں ؟
اسکا ثبوت بھی البانی صاحب سے اسی مذکورہ شب برات کے باب کے تعلق سے ہی پیش کر دیتے ہیں
اب جیسا کہ البانی صاحب نے معاذ بن جبل والی روایت کی سند میں انقطاع جو لکھا ہے اور بطور دلیل امام ذھبی کا کلام نقل کیا ہے وہ درج ذیل ہے
قال الذهبي: مكحول لم يلق مالك بن يخامر
جبکہ امام ذھبی کا یہ کلام بل معنی نقل کیا ہے البانی صاحب نے جبکہ انکا اپنا کلام اس عبارت سے تفصیلی ہے اور کہنے کو تو یہاں بھی کہا جاسکتا ہے کہ البانی صاحب نے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ امام ذھبی سے ثابت نہیں ہیں تو کیا یہ بات ٹھیک ہوگی ؟
اسی لیے البانی صاحب بھی جانتے تھے کہ امام ذھبی کی بیان کردہ یہ علت حتمی نہیں ہے
اسی لیے امام ذھبی کا کلام سماع کی نفی کے احتمال کو نقل کرنے کے بعد البانی صاحب لکھتے ہیں:
قلت: ولولا ذلك لكان الإسناد حسنا، فإن رجاله موثوقون، وقال الهيثمي في
” مجمع الزوائد ” (8 / 65) : ” رواه الطبراني في ” الكبير ” و ” الأوسط “
ورجالهما ثقات “.
میں (البانی) کہتا ہوں اگر یہ (سماع )ثابت نہ ہو تو بھی اسکی اسناد حسن ہیں کیونکہ اسکے سارے رجال ثقہ ہیں جیسا کہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں امام طبرانی کی الکیر و الاوسط سے نقل کر کے لکھا ہے کہ اس کے سارے رجال ثقات میں سے ہیں
(سسلسلہ الصحیحیہ )
ہالبانی صاحب نے مختصر نقل کیا ہے اور تفصیلی اوپر ہم امام ذھبی کا کلام نقل کر چکے ہیں کہ انہوں نے سماع نہ کرنے کا احتمال پیش کیا ہے کیونکہ مکحول کثرت سے ارسال کرتے تھے صحابہ سے تو قدیم تابعین کے بارے بھی امام ذھبی نے اشکال پیش کیا ہے اور البانی صاحب خود بھی امام ذھبی کے فیصلے کو حتمی قرار نہیں دیا اس لیے اگر کی شرط لگا دی
اب آگے البانی صاحب اس روایت کو تقویت دینے کے لیے دوسری روایت نقل کرتے ہیں :
وأما حديث عبد الله بن عمرو فيرويه ابن لهيعة حدثنا حيي بن عبد الله عن
أبي عبد الرحمن الحبلي عنه. أخرجه أحمد (رقم 6642)
حدیث ِ عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ :
سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یطّلع اللّٰہ عزّ وجلّ خلقہ لیلۃ النّصف من شعبان ، فیغفر لعبادہ الّا اثنین مشاحن وقاتل نفس۔
”اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف خصوصی نگاہ فرماتے ہیں ،مسلمان بھائی سے عداوت رکھنے والے اور قاتل کے علاوہ اپنے تمام بندوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔”
(مسند الامام احمد : ٢/١٧٦)
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد البانی صاحب کہتے ہیں :
قلت: وهذا إسناد لا بأس به في المتابعات والشواهد، قال الهيثمي: ” وابن
لهيعة لين الحديث وبقية رجاله وثقوا “. وقال الحافظ المنذري: (3 / 283)
” وإسناده لين “.
قلت: لكن تابعه رشدين بن سعد بن حيي به. أخرجه ابن حيويه في ” حديثه “. (3
/ 10 / 1) فالحديث حسن.
میں (البانی ) کہتا ہوں اس سند میں کوئی حرج نہیں ہے شواہد اور متابعت میں پیش کرنے میں
امام ہیثمی کہتے ہیں :
ابن الھیہ لین الحدیث یعنی کمزور روایت والے ہیں اور اسکے بقیہ رجال کو ثقہ قرارا دیا گیا ہے
اور امام منذری کہتے ہیں اسکی سند کمزور ہے
لیکن میں (البانی ) کہتا ہوں :
کہ (ابن الھیہ) کی متابعت رشدین بن سعد نے کر رکھی ہے جسکو ابن حیویہ نے تخریج کیا ہے
تو یہ حدیث حسن بنتی ہے
اب البانی صاحب کی یہ بات بلکل صحیح ہے واقعی اس متابعت کے بعد یہ روایت حسن بن جاتی ہے
لیکن امن پوری میاں نے البانی صاحب کا رد کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں :
امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رشدین بن سعد نے ابنِ لہیعہ کی متابعت کی ہے
اس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ موسیٰ بن حسن نے یہ حدیث ابنِ لہیعہ سے اختلاط سے پہلے سنی ہے
رشدین بن سعد ”ضعیف” ہے (تقریب التہذیب : ١٩٤٣)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعّفہ الجمہور ۔
”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(مجمع الزوائد : ١/١٦٠، ٥/٦٦)لہٰذا یہ متابعت بے فائدہ ہے ، اس سے ضعف ختم نہیں ہو سکتا ۔
الجواب (اسد الطحاوی )
میں حیران ہوں امن پوری جنکو غیر مقلدین کی جماعت اپنا محدث و محقق سمجھتے ہیں کیا اس قسم کی سطحی قسم کی تحقیق یہ لوگ کرتے ہیں ؟
یعنی کہ بقول انکے البانی صاحب نے ابن الھیہ کا متابع ضعیف بیان کیا ہے
اور
ابن الھیہ سے سماع کرنے والے شاگرد کا معلوم نہیں کہ انہوں نے اختلاط سے پہلے سنا یا بعد میں تو پس اس وجہ سے یہ متابعت بھی فضلو ہے
ایسی تحقیق پر فقط ” انا للہ وانا اليه راجعون”
ہی پڑھا جا سکتا ہے کہ ایک جماعت کا باقائدہ عالم و محدث کہلانے والا اصول حدیث کی معرفت سے اتنا پیدل بھی ہو سکتا ہے ؟
ا ب ہم بیان کرتے ہیں کہ البانی صاحب نے کس طرح اس روایت کو تقویت دی ہے اور یہ اصول جمہور محدثین کے مطابق بالکل صحیح ہے روایت کو تقویت دینے کا
امن پوری میاں نے امام ابن حجر سے اور امام ہیثمی سے رشدین کو ضعیف اور جمہور سے ضعیف کے الفاظ نقل کر کے متابعت سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے جبکہ اس میں تفصیل ہے
وقال الميموني: قال لي أبو عبد الله: رشدين ليس به بأس في الأحاديث االرقاق. «سؤالاته» (481) .
میمونی کہتے ہیں مجھ سے ابو عبداللہ (امام احمد) نے کہا رشدین کی احادیث جو الرقاق (کے باب سے ہیں ) ان میں کوئی حرج نہیں ہے
• وقال حرب بن إسماعيل الكرماني الحنظلي: سألت أحمد بن حنبل، عن رشدين بن سعد فضعفه، وقدم ابن لهيعة عليه. «الجرح والتعديل» 3/ (2320) .
حرب بن اسماعیل کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سوال کیا رشدین سے روایت کرنے کے بارے
تو انہوں نے ابن الھیہ کو اس پر مقدم کیا ہے
(نوٹ )
ایک تو رشدین مطلق روایات میں ضعیف نہیں بلکہ امام احمد اسکو کتاب الرقاق کے باب کی روایات میں لا باس بہ سمجھتے تھے
اور یہ بھی کہا ہے امام احمد نے کہ رشدین سے زیادہ مقدم ابن الھیہ ہے
اور جس روایت میں ابن الھیہ اور رشدین ایک دوسرے کے متابع ہوجائیں تو کیا وہ روایت حسن بننے کے لائق نہ ہوگی ؟؟؟
آگے چلتے ہیں :
• وقال عبد الله بن محمد بن عبد العزيز: سئل أحمد بن حنبل عن رشدين سعد. فقال: أرجو أنه صالح الحديث. «الكامل» (669)
ابن عبدالعزیز کہتے ہیں :
میں نے سوال کیا احمد بن حنبل سے رشدین بن سعد کے بارے تو انہوں نے کہا یہ صالح الحدیث ہے اور اسکو لیا جائے گا
یعنی یہ صالح الحدیث ہے اسکا مطلب اسکو متابعت و شواہد میں لیا جائے گا اسکی روایت ترک نہیں ہوگی بلکہ تدبر کیا جائے گا اسکی بیان کردہ روایت پر
• وقال ابن هانىء: سئل (يعني أبا عبد الله) ، عن رشدين بن سعد. فقال: كان سهل الأخذ، وابن وهب أحسن حديثًا منه. «سؤالاته» (2268) .
ابن ھانی کہتے ہیں ابن حنبل سے سوال کیا رشدین کے بارے تو انہوں نے کہا سھل ان سے اخذ کرتے تھے اور ابن وھب اور میرے نزدیک اسکی روایت حسن ہے
اور امام ابو حاتم کہتے ہیں :
وقال أبو حاتم: هو أضعف من ابن لهيعة.
کہ یہ ابن الھیہ کے مقابل کمزور ہے
(نوٹ)
جبکہ مذکورہ روایت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے متابع بن رہے ہیں تو یہ روایت کیسے حسن نہ بنے گی ؟
اسی طرح امام ابن عدی رشدین پر بہت تفصیلی کلام کیا ہے اسکی روایات میں ضعف بھی نقل کیا ہے اور اسکی خطائیں بھی ثابت کی ہیں
لیکن آخر میں وہ اپنا فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
وعامة أحاديثه عَمَّن يرويه عنه ما أقل فيها ممن يتابعه أحد عليه، وَهو مع ضعفه يكتب حديثه
اور عمومی طور پر اسکی بیان کردہ روایات میں اسکا کوئی متابع نہیں ہوتا ہے لیکن یہ باوجود کمزوری کے اسکی (بیان کردہ )احادیث لکھی جائیں گی (ترک نہیں ہونگی )
(الکامل ابن عدی ، برقم : ۶۶۹)
یعنی اسکی بیان کردہ روایات میں جن میں یہ منفرد نہ ہو اور اسکا کوئی متابع مل جائے یا اسکی روایت کا شاہد مل جائے تو اسکی روایت تقویت حاصل کرنے اور تقویت دینے کے لیے کافی ہوگی
اب موصوف کا آخری اعتراض بچا تھا کہ ابن الھیہ سے اسکے شاگرد نے اختلاط سے پہلے سنی یا بعد میں یہ بات مبھم ہے
لیکن جب ابن الھیہ سے ایسا راوی جو صالح الحدیث یعنی جسکو متابع و شواہد میں قبول کیا جاتا ہے وہ ابن الھیہ کا متابع بن رہا ہے اور ابن الھیہ اسکا متابع بن رہاہے تو
اس سے یہ اشکال ختم ہو گیا کہ ابن الھیہ کے اختلاط کے سبب اس نے غلطی کی یا نہیں جب ابن الھیہ اپنی روایت میں منفرد نہ رہا تو اب اس جیسا دوسرا راوی اسکے تفرد کو ختم کردیگا اور اسکی روایت تقویت حاصل کر چکی
اور اس طرف اعتبار ہو جائے گا کہ ابن الھیہ نے یہ روایت اختلاط میں بیان نہیں کی جسکی وجہ سے اسکا متابع بھی موجود ہے
تو اس مذکورہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ یہ روایت حسن ہے اور البانی صاحب کا موقف صحیح ہے
ہم نے اس تحریر کو مختصرکرنے کے سبب سے اور روایات کو ابھی ہاتھ نہیں لگایا اب فقط ان دو رروایات سے یہ روایت حسن بن جاتی ہے اور باقی روایات کا حال بھی بعد میں دیکھا جائے گا
دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی