سوچو ! تم کہاں جا رہے ہو؟
سوچو ! تم کہاں جا رہے ہو؟
تحریر : نثار مصباحی
رکن: روشن مستقبل، دہلی۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک مستقل تہذیبی اور دینی تشخص عطا کرتا ہے۔ ایک ایسا تشخص جو انھیں دنیا کی تمام قوموں سے الگ اور ممتاز بناتا ہے۔ ذخیرۂ احادیث میں “خالفوا المشرکین”، “خالفوا الیہود”، اور “خالفوا المجوس” وغیرہ احکام اسی اسلامی تشخص و امتیاز کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ہی وارد ہیں۔
قرآن کریم نے مسلمانوں کے دین و ایمان کو اللہ کا رنگ(صبغۃ اللہ) قرار دیا اور کہا:
صِبۡغَةَ ٱللَّهِ وَمَنۡ أَحۡسَنُ مِنَ ٱللَّهِ صِبۡغَةࣰۖ وَنَحۡنُ لَهُۥ عَـٰبِدُون [سورة البقرة : 138]
ہم نے اللہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے؟ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں.
قرآن کریم بتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر اللہ کا رنگ چڑھ چکا ہے، اور اللہ کے رنگ سے اچھا کسی کا رنگ نہیں، مگر افسوس کہ آج درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ کچھ لوگ مشرکین کے تہواروں میں سر سے پیر تک مشرکین کے رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ !!!
((طُرفہ یہ کہ علماے اسلام و سنت جب ان کی خرافات سے انھیں روکتے ہیں تو علما کی اطاعت کی بجائے یہ لوگ علما کے ہی دشمن بن جاتے ہیں۔ آج بہت سی درگاہوں پر قابض ظاہری اور باطنی روافض و مجاورین، علماے اہلِ سنت کی ایک نہیں سنتے۔ یہ لوگ نہ “صوفی” ہیں، نہ “بریلوی”، مگر ان کی حرکتوں سے بدنامی تصوف اور بریلویوں(سُنّیوں) کی ہوتی ہے۔))
مشرکانہ رسوم اور مشرکین کے تہواروں میں ان لوگوں کی شرکت “تصوف”، “رواداری”، “بھائی چارہ” اور نہ جانے کیسے کیسے دل فریب ناموں پر ہوتی ہے۔ مگر ہر مسلمان جانتا ہے کہ “رواداری” اور “بھائی چارے” کے نام پر مسلمانوں میں شرکیہ رسوم اور مشرکین کے تہواروں کو رواج و قبولیت دینے کی کوئی کوشش اہلِ اسلام کے لیے کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
عقیدۂ توحید اسلام کی اساس ہے۔ اس کے منافی اعمال کسی صورت میں روا نہیں ہو سکتے۔ بالفرض کسی شرکیہ قول و فعل کا ارتکاب نہ بھی ہو تو مشرکین کی ان کے شعار اور مخصوص مذہبی تہوار میں عملی موافقت کیا کوئی معمولی بات ہے ؟
فارقِ حق و باطل، خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- عجمیوں اور مشرکوں کے پہناوے سے بھی پرہیز کا حکم دیتے تھے۔ !!! صحیح مسلم شریف میں ان کا یہ حکمنامہ موجود ہے :
“إياكم والتنعم وزي أهل الشرك ولبوس الحرير”
لذت اندوزی، مشرکین کے پہناوے اور ریشمی لباس سے پرہیز کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، حدیث نمبر 2069)
“إياكم وزي الأعاجم”
عجمیوں کے پہناوے سے پرہیز کرو۔
(كتاب الزهد، للإمام أحمد)
ایک طرف اس طرح کے واضح ارشادات ہیں جو مسلمانوں کو ایمانی رنگ میں رہنے کی تلقین کرتے ہیں، مگر دوسری طرف کچھ درگاہی مجاور ہیں جو مشرکین کے رنگ میں اس قدر رنگ جاتے ہیں کہ دیکھنے سے پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ کوئی مشرک ہیں یا توحید پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ !!!
فرعون اور فرعونیوں سے نجات کی خوشی میں یہودی عاشورا (دسویں محرم) کے دن تہوار مناتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ملاحظہ فرمایا تو “نحن أحق بموسی منکم” کہہ کر مسلمانوں کے لیے اس دن (عاشورا) کا ایک الگ تشخص قائم فرمایا۔ نہ یہودیوں کو ان کے تہوار کی مبارک باد دی اور نہ ہی ان کے تہوار میں شرکت روا رکھی، بلکہ مسلمانوں کے لیے روزہ مشروع فرمایا اور ایک دن(دسویں تاریخ) کا روزہ رکھنے میں بظاہر جو یہود کی موافقت تھی اسے بھی آخری سال میں تبدیل فرما دیا، اور یہود کی مخالفت کا صریح حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
“صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ, وَخَالِفُوا الْيَهُودَ، صُومُوا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ يَوْمًا بَعْدَهُ”.
“عاشورا کے دن روزہ رکھو، اور یہود کی مخالفت کرو۔ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد (بھی) روزہ رکھو۔”
(مسند امام احمد، حدیث نمبر 2155، صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 2095)
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ مگر افسوس! آج رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والوں کا یہ حال ہو چکا ہے کہ “تصوف”، “رواداری”، “بھائی چارہ” اور نہ جانے کیسے کیسے دل فریب نعروں کے ساتھ نہ صرف مبارک بادیں دی جا رہی ہیں، بلکہ اُن درگاہوں اور مزاروں میں ہولی، دیوالی، بسنت وغیرہ مشرکین کے تہوار منائے جا رہے ہیں جن درگاہوں اور مزاروں میں آرام فرما بزرگوں نے مشرکستانِ ہند میں توحیدِ الہی کا چراغ روشن فرمایا تھا۔ !!
ہماری قوم میں پائے جانے والے کچھ لوگوں کے اس تنزل اور نظریاتی و تہذیبی شکت و ریخت کی وجہ چاہے جو ہو مگر یہ اسلامی غیرت اور دینی وجود کے بالکل منافی ہے۔ اگر یہ سلسلہ باقی رہا یا آگے بڑھا تو یہ کافی نقصان دہ ہوگا۔ اس بھنور سے لوگوں کو نکالنا اور اکثریتی طبقے کے سامنے نظریاتی و فکری شکست بلکہ غلامی سے قوم کو بچانا بےحد ضروری ہے۔
علما تو ایک عرصے سے اصلاح کے لیے کوشاں ہیں مگر یہ چیزیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ کیوں کہ ایسی خرافات کرنے والوں کے نزدیک نہ علما کی اہمیت ہے اور نہ ان کی باتوں کی کوئی قدر۔ اور نہ ہی یہ جگہیں طبقۂ علما کے کنٹرول اور تصرف میں ہیں۔ ایسے میں مسلمان، اس ملک کی بڑی اور معروف خانقاہوں/درگاہوں مثلا مارہرہ مطہرہ، بریلی شریف، کچھوچھہ مقدسہ، اور خاص طور سے چشتی سلسلے کی تمام بڑی خانقاہوں سے امید لگائے ہوئے ہے کہ وہ چشتی سلسلے کی چند درگاہوں کے احاطے میں ہونے والے ان اعمال کے خلاف کھل کر سامنے آئیں، اور “تغییرِ منکَر” کے ساتھ اسلامی تشخص کی حفاظت کا اپنا شرعی فرض ادا کریں۔ تاکہ ہمارے لوگ جو ایسے کاموں میں ملوث ہو کر ذلتِ دنیا اور ہلاکتِ عقبیٰ خرید رہے ہیں وہ بچ بھی جائیں اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں مزاروں اور سنیوں کی ہونے والی بدنامی بھی رک جائے۔
علما کی بات تو یہ کہہ کر ٹال دی جاتی ہے کہ علما اور صوفیہ میں بنتی نہیں ہے۔ لیکن خانقاہیں اور درگاہیں تو “صوفیہ” کی ہیں؟ اگر درگاہوں میں اس طرح کے تہوار منائے جا رہے ہیں تو اس سے پوری صوفی برادری بدنام ہو رہی ہے۔ بعض اہل حدیث، وہابی، دیوبندی لوگوں کو دیکھا گیا کہ انہی سب چیزوں کو بنیاد بناکر عام لوگوں کو سنیوں کے خلاف ورغلا رہے ہیں، اور اہلِ سنت کے مذہبِ مہذب کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ حال آں کہ یہ مٹھی بھر لوگ خلیجی ممالک میں شرک کے اڈے اور مندر قائم کیے جانے پر بالکل چپی سادھے ہوئے ہیں اور ارضِ توحید جزیرۃ العرب میں شرک اور مشرکین کی بڑھتی تعداد دیکھ کر بھی ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کا یہ دوہرا رویّہ عجیب و غریب ہے۔
خیر، بعض درگاہوں میں درآئی اس خرابی کے ازالے کے لیے بنیادی ذمے داری خانقاہوں کی ہی ہے کہ وہ اس عمل کے خلاف کھل کر سامنے آئیں، اور اصلاحِ احوال کریں۔ جب اسلام کی صورت ہی مسخ کی جارہی ہو تو خانقاہوں کی خاموشی کسی طور پر درست نہیں ہے۔
ہم درگاہوں کے احاطوں میں مشرکین کے تہوار منانے والے مجاوروں سے بھی کہیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صحابہ کے جو ارشادات اور طریقے ہم نے ذکر کیے ہیں کیا وہ تمھارے لیے کافی نہیں؟ غضبِ الہی کو دعوت مت دو۔ توحید کے مدعی ہو تو شاہراہِ اہلِ توحید پر چلو۔ اہلِ شرک کے ساتھ ان کے شرکیہ امور اور مذہبی تہواروں میں شرکت و موافقت تمھیں دنیا میں بھی رسوا کرے گی اور آخرت میں تو تباہی ہی تباہی ہے۔
کیا “لا اِلہ اِلا اللہ” کا ذرہ برابر بھی تمھیں پاس و لحاظ نہیں؟
سوچو ! تم کہاں جا رہے ہو۔ !!!!
نثارمصباحی
3 اپریل 2021