اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙﰳ (۳۹)

پروانگی(اجازت) عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں (ف۱۰۳) اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا (ف۱۰۴) اور بےشک اللہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادرہے

(ف103)

جہاد کی ۔

(ف104)

شانِ نُزول : کُفّارِ مکّہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روزمرہ ہاتھ اور زبان سے شدید ایذائیں دیتے اور آزار پہنچاتے رہتے تھے اور صحابہ حضور کے پاس اس حال میں پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے کسی کا پاؤں بندھا ہوا ہے روزمرہ اس قسم کی شکایتیں بارگاہِ اقدس میں پہنچتی تھیں اور اصحابِ کرام کفُاّر کے مظالم کی حضور کے دربار میں فریادیں کرتے حضور یہ فرما دیا کرتے کہ صبر کرو مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے جب حضور نے مدینہ طیّبہ کو ہجرت فرمائی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں کُفّار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔

الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًاؕ-وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(۴۰)

وہ جواپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے (ف۱۰۵)صرف اتنی بات پر کہ اُنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے (ف۱۰۶) اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا (ف۱۰۷) تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں (ف۱۰۸) اور گرجا (ف۱۰۹) اور کلیسا (ف۱۱۰) اور مسجدیں (ف۱۱۱) جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے اور بےشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بےشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے

(ف105)

اور بے وطن کئے گئے ۔

(ف106)

اور یہ کلام حق ہے اور حق پر گھروں سے نکالنا اور بے وطن کرنا قطعاً ناحق ۔

(ف107)

جہاد کی اجازت دے کر اور حدود قائم فرما کر تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرکین کا استیلا ہو جاتا اور کوئی دین و ملّت والا ان کے دستِ تعدّی سے نہ بچتا ۔

(ف108)

راہبوں کی ۔

(ف109)

نصرانیوں کے ۔

(ف110)

یہودیوں کے ۔

(ف111)

مسلمانوں کی ۔

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(۴۱)

وہ لوگ کہ اگر ہم اُنہیں زمین میں قابو دیں (ف۱۱۲) تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰۃ دیںاور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں (ف۱۱۳) اور اللہ ہی کے لیے سب کاموں کا انجام

(ف112)

اور ان کے دشمنوں کے مقابل ان کی مدد فرمائیں ۔

(ف113)

اس میں خبر دی گئی ہے کہ آئندہ مہاجرین کو زمین میں تصرف عطا فرمانے کے بعد ان کی سیرتیں ایسی پاکیزہ رہیں گی اور وہ دین کے کاموں میں اخلاص کے ساتھ مشغول رہیں گے اس میں خلفاءِ راشدین مہدیّین کے عدل اور ان کے تقوٰی و پرہیزگاری کی دلیل ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے تمکین و حکومت عطا فرمائی اور سیرتِ عادلہ عطا کی ۔

وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُۙ(۴۲)

اور اگر یہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں (ف۱۱۴) تو بےشک ان سے پہلے جھٹلا چکی ہے نوح کی قوم اور عاد (ف۱۱۵) اور ثمود(ف۱۱۶)

(ف114)

اے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

(ف115)

حضرت ہود کی قوم ۔

(ف116)

حضرت صالح کی قوم ۔

وَ قَوْمُ اِبْرٰهِیْمَ وَ قَوْمُ لُوْطٍۙ(۴۳)

اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم

وَّ اَصْحٰبُ مَدْیَنَۚ-وَ كُذِّبَ مُوْسٰى فَاَمْلَیْتُ لِلْكٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْۚ-فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ(۴۴)

اور مدین والے (ف۱۱۷) اور موسیٰ کی تکذیب ہوئی (ف۱۱۸) تو میں نے کافرو ں کو ڈھیل دی (ف۱۱۹) پھر اُنہیں پکڑا (ف۱۲۰) تو کیسا ہوا میرا عذاب (ف۱۲۱)

(ف117)

یعنی حضرت شعیب کی قوم ۔

(ف118)

یہاں موسٰی کی قوم نہ فرمایا کیونکہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی تکذیب نہ کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبطیوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی تکذیب کی تھی ، ان قوموں کا تذکرہ اور ہر ایک کے اپنے رسول کی تکذیب کرنے کا بیان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تسکینِ خاطر کے لئے ہے کہ کُفّار کا یہ قدیمی طریقہ ہے پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے ۔

(ف119)

اور ان کے عذاب میں تاخیر کی اور انہیں مہلت دی ۔

(ف120)

اور ان کے کفر و سرکشی کی سزا دی ۔

(ف121)

آپ کی تکذیب کرنے والوں کو چاہیئے کہ اپنے انجام کو سوچیں اور عبرت حاصل کریں ۔

فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ(۴۵)

اور کتنی ہی بستیاں ہم نے کھپادیں (ف۱۲۲) کہ وہ ستم گار تھیں (ف۱۲۳) تو اب وہ اپنی چھتوں پر ڈھئ(گری) پڑی ہیں اور کتنے کنویں بیکار پڑے (ف۱۲۴) اور کتنے محل گچ کیے ہوئے (ف۱۲۵)

(ف122)

اور وہاں کے رہنے والوں کو ہلاک کر دیا ۔

(ف123)

یعنی وہاں کے رہنے والے کافِر تھے ۔

(ف124)

کہ ان سے کوئی پانی بھرنے والا نہیں ۔

(ف125)

ویران پڑے ہیں ۔

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَاۚ-فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ(۴۶)

تو کیا زمین میں نہ چلے (ف۱۲۶) کہ اُن کے دل ہوں جن سے سمجھیں (ف۱۲۷) یا کان ہوں جن سے سُنیں (ف۱۲۸) تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں(ف۱۲۹) بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں (ف۱۳۰)

(ف126)

کُفّار کہ ان حالات کا مشاہدہ کریں ۔

(ف127)

کہ انبیاء کی تکذیب کا کیا انجام ہوا اور عبرت حاصل کریں ۔

(ف128)

پچھلی اُمّتوں کے حالات اور ان کا ہلاک ہونا اور ان کی بستیوں کی ویرانی کہ اس سے عبرت حاصل ہو ۔

(ف129)

یعنی کُفّار کی ظاہری حِس باطل نہیں ہوئی ہے وہ ان آنکھوں سے دیکھنے کی چیزیں دیکھتے ہیں ۔

(ف130)

اور دلوں ہی کا اندھا ہونا غضب ہے اسی لئے آدمی دین کی راہ پانے سے محروم رہتا ہے ۔

وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗؕ-وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(۴۷)

اور یہ تم سے عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں (ف۱۳۱) اور اللہ ہرگز اپنا وعدہ جھوٹا نہ کرے گا (ف۱۳۲) اور بےشک تمہارے رب کے یہاں (ف۱۳۳) ایک دن ایسا ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس (ف۱۳۴)

(ف131)

یعنی کُفّارِ مکّہ مثل نضر بن حارث وغیرہ کے اور یہ جلدی کرنا ان کا استہزاء کے طریقہ پر تھا ۔

(ف132)

اور ضرور حسبِ وعدہ عذاب نازل فرمائے گا چنانچہ یہ وعدہ بدر میں پورا ہوا ۔

(ف133)

آخرت میں عذاب کا ۔

(ف134)

تو یہ کُفّار کیا سمجھ کر عذاب کی جلدی کرتے ہیں ۔

وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَاۚ-وَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۠(۴۸)

اور کتنی بستیاں کہ ہم نے ان کو ڈھیل دی اس حال پر کہ وہ ستم گار تھیں پھر میں نے انہیں پکڑا (ف۱۳۵) اور میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے(ف۱۳۶)

(ف135)

اور دنیا میں ان پر عذاب نازل کیا ۔

(ف136)

آخرت میں ۔