کیا ضعیف حدیث اور عدم حدیث ایک ہی چیز ہے؟
sulemansubhani نے Monday، 5 April 2021 کو شائع کیا.
کیا ضعیف حدیث اور عدم حدیث ایک ہی چیز ہے؟
میں نے ایک لوگوں جن میں اکثریت غیر مقلدین کی ہے انکو دیکھا کہ انکے نزدیک ضعیف حدیث اور عدم حدیث کا ایک ہی معنی ہے
اور کچھ نمونے تو موضوع اور ضعیف روایات کو ایک ہی باب میں لا کھڑا کرتے ہیں
اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ اصول حدیث کی بنیاد سے جاہل ہوتے ہیں یعنی انہوں نے کچھ باتوں کا رٹہ مارا ہوتا ہے اور عقل سے اصول حدیث کا تدبر نہیں کیا ہوتا
یاد رہے کہ علم رجال اور اصول حدیث متقدمین سے عقل کی بنیاد پر مدون کیا گیا ہے
جب جھوٹ کی کثرت ہوئی تو علم رجال مدون ہوا
اور
جب راویان نے حدیث کو مختلف انداز سے بیان کرنا شروع کیا تو احادیث کی اقسام وجود میں آئیں۔۔۔۔
حدیث ضعیف کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟
یہ ایک بنیادی سوال ہے لیکن اکثر لوگ اس بنیادی سوال کو سمجھنے سے بھی یتیم ہوتے ہیں
عمومی لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ضعیف حدیث کا ہونا اور عدم حدیث یعنی حدیث کا نہ ہونا ایک چیز ہے
یہ بہت فحش خطاء پر مبنی موقف ہے
ضعیف حدیث کا شمار ہوتا حدیث کی قسم میں ہے
لیکن اسکی نسبت رسول اکرم کی طرف مشکوک ہوتی ہے
کیونکہ ایک حدیث کا ایک راوی صعیف ہو تو برابر احتمال ہوتا ہے کہ اس ضعیف راوی نے مذکورہ روایت صحیح بیان کی ہے یا حسب معمول اپنے حفظ کی کمزوری کی وجہ سے غلط بیان کی ہے؟
کیونکہ یہ بات ضروری نہیں کہ ہر ضعیف راوی ہمیشہ غلط حدیث بیان کرے
اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کذاب جھوٹی روایت بیان کرے
جب کذاب راوی کا ایک بار حدیث میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہوتا ہے تو اسکی عدالت ساکت ہونے کی وجہ سے اسکی روایت قابل تدبر نہیں ہوتی ہے
لیکن ضعیف راوی جو کہ صالح ہوتا ہے لیکن روایت مین غلطیاں کرنے والا ہوتا ہے
لیکن اسکی بیان کردہ روایت سے شک کی بنیاد پر توقف کیا جاتا ہے کہ ایا اس نے حدیث صحیح بیان کی یا غلط
معاملہ 50 50 ہوتا ہے تو توقف کر لیا جاتا ہے اسکی بیان کردہ روایت سے
لیکن جب اسکے جیسا ضعیف راوی یا اس سے تھوڑا بہتر
راوی اسکے جیسی روایت بیان کرتا ہے
تو اب جو احتمال تھا کہ برابر کہ روایت کی اصل ہے یا نہیں
وہ اعتبار راوی کے صحیح بیان کرنے کی طرف غالب اجاتا ہے
کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ دو ضعیف راوی ایک ایسی غلطی کریں کہ دونوں کی غلطی ایک جیسی ہو جائے اور وہ تکے سے ایک دوسرے کے متابع ہو جائیں
یہ ہونا محال تو نہیں لیکن اصول حدیث میں ظن عموم پر ہوتا ہے
جیسا کہ ربما وھم راوی کی ہر روایت رد نہیں ہوتی کیونکہ کبھی کبھار غلطی کرنے والا ہر روایت میں غلطی نہیں کرتا اس وجہ سے اسکی عمومی روایت قبول ہوتی ہے
اور کثیر الخطاء راوی پر کیونکہ کثرت سے غلطیوں کا احتمال ہوتا ہے اس لیے اسکی روایت عمومی طور پر ضعیف بنتی ہے لیکن ایسا راوی ہر روایت میں غلطی تو نہیں کرتق لیکن ظن عموم پر ہوتا ہے تو عموم کے اعتبار سے اسکی روایت بھی ضعیف یعنی مشکوک بن جاتی ہے
جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس صورت حال میں اس بات کا ثبوت مل جاتا ہے کہ دو ضعیف راوی جب ایک جیسی بیان کردہ روایت میں متابع بن جائیں ایک دوسرے کو تو وہ ایک دوسرے کو تقویت پینچاتے ہیں نہ کہ دونوں کو انفرادی طور پر ضعیف کہہ کر روایت کو مطلق رد کر دیا جائے
رد کرنے کا موقف عقل کے بھی خلاف ہے اور اصول کے بھی
یا ایسا صدوق راوی جسکی بیان کردہ سند میں ارسال ہو یا تدلیس
اور اسکی بیان کردہ روایت ایک دوسری سند متصل لیکن ضعیف سے آجائے
تو اس مجہول جسکی پہچان نہین ہو سکتی جو سند میں ساقط ہے اسکا متابع ایک دوسرا ضعیف راوی مل جائے
تو بھی روایت توقف سے نکل کر مقبولیت کے مقام تک پہنط جائے گی
جسکو متاخرین نے اصطلاحی طور پر حسن لغیرہ کا نام دیا
جو جمہور محدثین کا اصول ہے
اس لیے کثرت تعداد غالب ظن کا فائدہ دیتی ہے
کہ متعدد کمزور حفظ لوگ اگر ایک واقعہ کو ایک جیسا بیان کرین تو یہ عقل کے موافق ہے کہ اس واقعہ کو بیان کرنے میں ان تمام کمزور ھافظے والے لوگوں سے غلطی نہیں ہوئی
ورنہ سب لوگ ایک طرح کی غلطی کیسے کر سکتے ہین ؟
تو پہلی صورت عمومی ہے کہ ضعیف راویان سے مذکورہ روایت میں غلطی نہیں ہوئی
اور
دوسری صورت بہت مشکل تو ہے لیکن محال نہیں
کہ تمام ضعیف راویان سے اتفاق سے ایسی غلطی ہوئی کہ ان سب ضعیف راویان کی ایک جیسی روایت بن گئی
یہ ہونا محال تو نہیں لیکن عمومی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے
تو یہ اعتبار عموم پر ہوگا اور عقل کے موافق بھی یہہ ہے کہ روایت حسن لغیرہ بنے گی
دعاگو اسد طحاوی