{سلام کے مسائل}

حدیث شریف: فرمایا سرکارِ اعظم ﷺنے کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی سے ملے تو اُسے سلام کرے پھر ان دونوں کے درمیان درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہوجائے اورپھر ملاقات ہوتو پھر سلام کرے۔(ابوداؤد)

کون کے جواب میں ’’میں ‘‘ نہ کہے }

مسئلہ : کسی کے دروازہ پر جاکر آواز دی اس نے کہا کون ہے تواس کے جواب میں یہ نہ کہے کہ ’’میں‘‘ جیسا کہ بہت سے لوگ میں کہہ کر جواب دیتے ہیں اس جواب کو سرکارِ اعظم ﷺنے ناپسند فرمایا بلکہ جواب میں اپنا نام ذکر کرے کیونکہ میں کا لفظ توہر شخص اپنے کو کہہ سکتا ہے یہ جواب ہی کب ہوا۔

مسئلہ : اگر تم نے اجازت مانگی اورصاحب خانہ نے اجازت نہ دی تو اس سے ناراض نہ ہو اپنے دل میں کدورت نہ لاؤ۔ خوشی خوشی وہاں سے واپس آؤ ہوسکتاہے اس وقت اس کو تم میں سے ملنے کی فرصت نہ ہو کسی ضروری کام میں مشغول ہو۔

مسئلہ : اگرایسے مکان میں جانا ہو کہ اس میں کوئی نہ ہو تو یہ کہو السلام علینا عباد اللّٰہ الصالحین ۔

فرشتے اس سوال کا جواب دیں گے ۔(ردالمختار) یااسی طرح کہے السلام علیک ایھا النبی ﷺ

کیونکہ سرکارِ اعظم ﷺکی روح مبارک مسلمانوں کے گھروں میں تشریف فرماہے ۔

مسئلہ : سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے بلا عُذر تاخیر کی تو گنہگار ہوگا اوریہ گناہ جواب دینے سے دفع نہ ہوگا بلکہ تو بہ کرنی ہوگی ۔(درمختار)

مسئلہ : سائل (سوال کرنے والے ) نے دروازہ پر سلام کیااس کا جواب دینا واجب نہیں۔ کچہری میں قاضی جب اجلاس کررہا ہو اس کو سلام کیا گیا قاضی پر جواب دینا واجب نہیں ۔

مسئلہ : جب اپنے گھر میں جائے تو گھر والوں کوسلام کرے بچوں کے سامنے سے گزرے توان بچوں کوسلام کرے ۔(عالمگیری)

غیر مُسلم کو سلام کرنا کیسا ہے }

مسئلہ : کفّار (یاکسی بدمذہب) کو سلام نہ کرے اوروہ سلام کریں تو جواب دے سکتاہے اگر جواب میں صرف السلام علیکم کہے اور مسلمانوں پر سلام کا ارادہ کرے اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الہُدیٰ کہے ۔(عالمگیری)

مسئلہ : تلاوتِ قرآن ، ذکر ودرود پڑھنے والوں کو، درس وتدریس کرنے والوں، علمی گفتگو کرنے والوں کو ، کھانا کھارہے ہوں، وعظ وتقریر ہورہی ہو ان تمام صورتوں میںسلام نہ کیا جائے اس کے علاوہ جو لوگ کوئی شطرنج اوردیگر اسی طرح کھیل کھیل رہے ہوں اُن کو بھی سلام نہ کیا جائے ۔

دوسرے کا سلام کب پہنچانا واجب ہے }

مسئلہ : کسی سے کہہ دیا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا اس پر سلام پہنچا نا واجب ہے اورجب اس نے سلام پہنچایا توجواب یوں دے کہ پہلے اس پہنچانے والے کو اس کے بعداس کو جس نے سلام بھیجا یعنی یہ کہے وعلیک وعلیہ السلام۔(عالمگیری)

یہ سلام پہنچانا اس وقت واجب ہے جب اس نے اس کا التزام کرلیا ہو یعنی کہہ دیا ہو کہ ہاں تمہارا سلام کہہ دوں گا کہ اس وقت یہ سلام اس کے پاس امانت ہے جواس کا حق دار ہے اس کو دنیا ہی ہوگا ورنہ بمنزلہ ودیعت ہے کہ اس پر یہ لازم نہیں کہ سلام پہنچانے وہاں جائے اِسی طرح حاجیوں سے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ﷺکے دربار میںمیرا سلام عرض کردینا یہ سلام بھی پہنچانا واجب ہے ۔(ردالمختار)

مسئلہ : خط میں سلام لکھا ہوتاہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اوریہاں جواب دو طرح ہوتاہے ایک یہ کہ زبان سے جواب دے دوسری صورت یہ ہے کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیجے ۔(درمختار وردالمختار)

مسئلہ : صرف سلام کہنا، آداب کہنا، یا صرف انگلی کے اشارے سے سلام کرنا یہ سلام نہیں سلام کے الفاظ’’السلام علیکم‘‘ ہی ہیں۔

مسئلہ : سلام کی میم کو ساکن کہا یعنی سلام وعلیکم جیسا کہ اکثرجاہل اسی طرح کہتے ہیں یا سلام علیکم میم کی پیش کیساتھ کہا ان دونوں صورتوں میں جواب دینا واجب نہیں کہ مسنون سلام نہیںہے ۔(درمختار وردالمختار)

مسئلہ : اکثر جگہ سلام کیا جائے توجواب میں یہ کہا جاتاہے کہ جیتے رہو بیٹا ،یہ کفّار کا طریقہ ہے اس سے بچا جائے بلکہ وعلیکم السلام کہا جائے ۔

علیہ السلام نبی اورفرشتہ کے لئے خاص ہے }

مسئلہ : کسی کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہنا یہ انبیاء وملائکہ علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے مثلاً موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام ، جبریل علیہ السلام،نبی اورفرشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے ۔(بہار شریعت وغیرہ)