کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 18 رکوع 3 سورہ المومنون آیت نمبر 33 تا 50
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۙ-مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۙ-یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَﭪ (۳۳)
اور بولے اس قوم کے سردار جنہوں نے کفر کیا اور آخرت کی حاضری (ف۵۲) کو جھٹلایا اور ہم نے اُنہیں دنیا کی زندگی میں چین دیا (ف۵۳) کہ یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی جو تم کھاتے ہو اُسی میں سے کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں سے پیتا ہے (ف۵۴)
(ف52)
اور وہاں کے ثواب و عذاب وغیرہ ۔
(ف53)
یعنی بعض کُفّار جنہیں اللہ تعالٰی نے فراخیٔ عیش اور نعمتِ دنیا عطا فرمائی تھی اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے نسبت اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگے ۔
(ف54)
یعنی یہ اگر نبی ہوتے تو ملائکہ کی طرح کھانے پینے سے پاک ہوتے ۔ ان باطن کے اندھوں نے کمالاتِ نبوّت کو نہ دیکھا اور کھانے پینے کے اوصاف دیکھ کر نبی کو اپنی طرح بشر کہنے لگے ، یہ بنیاد ان کی گمراہی کی ہوئی چنانچہ اسی سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپس میں کہنے لگے ۔
وَ لَىٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَۙ(۳۴)
اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو جب تو تم ضرور گھاٹے میں ہو
اَیَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَ كُنْتُمْ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْرَجُوْنَﭪ(۳۵)
کیا تمہیں یہ وعدہ دیتا ہے کہ تم جب مرجاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے اس کے بعد پھر (ف۵۵) نکالے جاؤ گے
(ف55)
قبروں سے زندہ ۔
هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَﭪ(۳۶)
کتنی دُور ہے کتنی دُور ہےجو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے (ف۵۶)
(ف56)
یعنی انہوں نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بہت بعید جانا اور سمجھا کہ ایسا کبھی ہونے والا ہی نہیں اور اسی خیالِ باطل کی بنا پر کہنے لگے ۔
اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَﭪ(۳۷)
وہ تو نہیں مگر ہماری دنیا کی زندگی (ف۵۷) کہ ہم مرتے جیتے ہیں (ف۵۸) اور ہمیں اٹھنا نہیں (ف۵۹)
(ف57)
اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دنیوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں صرف اتنا ہی ہے ۔
(ف58)
کہ ہم میں کوئی مرتا ہے ، کوئی پیدا ہوتا ہے ۔
(ف59)
مرنے کے بعد اور اپنے رسولِ کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نسبت انہوں نے یہ کہا ۔
اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلُ-ﰳافْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا وَّ مَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِیْنَ(۳۸)
وہ تو نہیں مگر ایک مرد جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا (ف۶۰) اور ہم اُسے ماننے کے نہیں (ف۶۱)
(ف60)
کہ اپنے آپ کو اس کا نبی بتایا اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی خبر دی ۔
(ف61)
پیغمبر علیہ السلام جب ان کے ایمان سے مایوس ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ قوم انتہائی سرکشی پر ہے تو ان کے حق میں بددعا کی اور بارگاہِ الٰہی میں ۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ(۳۹)
عرض کی کہ اے میرے رب میری مدد فرما اس پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا
قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نٰدِمِیْنَۚ(۴۰)
اللہ نے فرمایا کچھ دیر جاتی ہے کہ یہ صبح کریں گے پچتاتے ہوئے (ف۶۲)
(ف62)
اپنے کُفر و تکذیب پر جب کہ عذابِ الٰہی دیکھیں گے ۔
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءًۚ-فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۴۱)
تو انہیں آلیا سچی چنگھاڑ نے (ف۶۳) تو ہم نے انہیں گھاس کوڑا کردیا (ف۶۴) تو دُور ہوں (ف۶۵) ظالم لوگ
(ف63)
یعنی وہ عذاب و ہلاک میں گرفتار کئے گئے ۔
(ف64)
یعنی وہ ہلاک ہو کر گھاس کوڑے کی طرح ہوگئے ۔
(ف65)
یعنی خدا کی رحمت سے دور ہوں انبیاء کی تکذیب کرنے والے ۔
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِیْنَؕ(۴۲)
پھر ان کے بعد ہم نے اور سنگتیں (قومیں)پیدا کیں (ف۶۶)
(ف66)
مثل قومِ صالح اور قومِ لوط اور قومِ شعیب وغیرہ کے ۔
مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَؕ(۴۳)
کوئی اُمت اپنی میعاد سے نہ پہلے جائے نہ پیچھے رہے (ف۶۷)
(ف67)
جس کے لئے ہلاک کا جو وقت مقرر ہے وہ ٹھیک اسی وقت ہلاک ہوگی اس میں کچھ بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی ۔
ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَاؕ-كُلَّمَا جَآءَ اُمَّةً رَّسُوْلُهَا كَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَّ جَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَۚ-فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ(۴۴)
پھر ہم نے اپنے رسول بھیجے ایک پیچھے دوسرا جب کسی اُمت کے پاس اس کا رسول آیا انہوں نے اسے جھٹلایا (ف۶۸) تو ہم نے اگلوں سے پچھلے ملادئیے (ف۶۹) اور انہیں کہانیاں کر ڈالا (ف۷۰) تو دور ہوں وہ لوگ کہ ایمان نہیں لاتے
(ف68)
اور اس کی ہدایت کو نہ مانا اور اس پر ایمان نہ لائے ۔
(ف69)
اور بعد والوں کو پہلوں کی طرح ہلاک کر دیا ۔
(ف70)
کہ بعد والے افسانہ کی طرح انکا حال بیان کیا کریں اور ان کے عذاب و ہلاک کا بیان سببِ عبرت ہو ۔
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ ﳔ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ(۴۵)
پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی آیتوں اور روشن سند (ف۷۱) کے ساتھ بھیجا
(ف71)
مثل عصا ویدِ بیضا وغیرہ معجزات ۔
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَۚ(۴۶)
فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف تو انہوں نے غرور کیا (ف۷۲) اور وہ لوگ غلبہ پائے ہوئے تھے (ف۷۳)
(ف72)
اور اپنے تکبُّر کے باعث ایمان نہ لائے ۔
(ف73)
بنی اسرائیل پر اپنے ظلم و ستم سے جب حضرت موسٰی و ہارون علیہما السلام نے انہیں ایمان کی دعوت دی ۔
فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ(۴۷)
تو بولے کیا ہم ایمان لے آئیں اپنے جیسے دو آدمیوں پر(ف۷۴)اور ان کی قوم ہماری بندگی کررہی ہے (ف۷۵)
(ف74)
یعنی حضرت موسٰی اور حضرت ہارون پر ۔
(ف75)
یعنی بنی اسرائیل ہمارے زیرِ فرمان ہیں تو یہ کیسے گوارا ہوکہ اسی قوم کے دو۲ آدمیوں پر ایمان لا کر ان کے مطیع بن جائیں ۔
فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِیْنَ(۴۸)
تو اُنہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہلاک کیے ہوؤں میں ہوگئے (ف۷۶)
(ف76)
اور غرق کر ڈالے گئے ۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ(۴۹)
اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی (ف۷۷) کہ ان کو (ف۷۸) ہدایت ہو
(ف77)
یعنی توریت شریف فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد ۔
(ف78)
یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو ۔
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠(۵۰)
اور ہم نے مریم اور اس کے بیٹے کو (ف۷۹) نشانی کیا اور انہیں ٹھکانا دیا ایک بلند زمین (ف۸۰) جہاں بسنے کا مقام (ف۸۱) اور نگاہ کے سامنے بہتا پانی
(ف79)
یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرما کر اپنی قدرت کی ۔
(ف80)
اس سے مراد یا بیت المقدس ہے یا دمشق یا فلسطین ، کئی قول ہیں ۔
(ف81)
یعنی زمین ہموار ، فراخ ، پھلوں والی جس میں رہنے والے بآسائش بسر کرتے ہیں ۔