*ارشادات صرف 3 لیکن حصول سکھ چین کا پورا دستور العمل
*ارشادات صرف 3 لیکن حصول سکھ چین کا پورا دستور العمل
⚜️{ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِينَ }
[ سورة الأعراف : 199 ]
✍️ قربان جائیں!
جامعیت ارشاد ربانی کے ۔
فرمایا۔
🌷 (1) ” عفو کو پکڑ لو “
✍️ کسی شی کو بھرپور مضبوطی اور کامل توجہ کے ساتھ لے لینا ” پکڑنا ” کہلاتا ہے ۔
“پکڑنا ” دو طرفہ عمل ہے سو فقیر کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ
(1)ہدایت یہ ہوئی کہ تم سے
کوئی اپنی فروگذاشت کی معافی چاہے ، معذرت کرے تو قبول کر لو
(2) ہدایت یہ کہ خود تم سے کسی کے حق میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو فورا غیر مشروط معذرت کرو ۔
(3) معافی چاہنا اور معاف کرنا دونوں کو پورے شعور کے ساتھ شعار بنائے رکھنے کی ہدایت ہے ۔ تبھی تو پکڑنے کا مفہوم مکمل ہوتا ہے ۔
عفو و درگزر کو اپنا شعار بنائے رکھنے والا لازما نرم دل ، نرم پہلو ، نرم معاملہ کرنے والا ہوتا ہے ، چنانچہ ہر ایک کا پیارا بھی ہوتا ہے ۔
🌷(2) عرف میں اچھی شی کی تلقین کیا کرو
معروف کا حکم دینے والا کسی حد تک زندہ ضمیر والا شخص ہوتا ہے اور اپنے اوامر معروف میں سے کچھ نہ کچھ پر عمل پیرا بھی ۔
جب گھر یا معاشرے کا ہر فرد معروف کا آمر اور حامل ہوگا تو معروف ہی کا دور دورہ ہوگا چنانچہ شرع کے منہیات و منکرات کا لازما خاتمہ بالخیر ہو جائے گا ۔۔ *
🌷(3) اور بات سمجھنے کی صلاحیت سے عاری لوگوں سے کنارہ کشی کی عادت اپنا لو* ۔
✍️ جہالت لا علمی یا کم عقلی کو ہرگز نہیں کہتے ۔
جسے اب ابوجہل کہا جاتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عداوت اور انکار حق سے پہلے وہ ابو الحکم ( ڈھیروں دانائیوں والا ) کہا جاتا تھا ۔
جیون ساتھی ، خاندان گلی محلے کا فرد ، کوئی بھی جاہل ہو سکتا ہے ، سفر میں ، دفتر میں ، لین دین میں مختصر یہ کہ زندگی کے کسی بھی وقت میں کسی بھی روپ میں سامنے آ سکتا ہے ۔
صاحب عقل و دانش ایسے موقعہ پر
جواب جَاہلاں بَاشَد خَموُشی پر عمل کرتے ہوئے کنارا کر لیتا ہے ۔ نتیجتا وہ شر وہیں دفن ہو جاتا ہے وگرنہ جہالت در جہالت کی تاریکیاں پورے معاشرے میں اندھیر کر دیتی ہیں ۔
جہالت اور کوئی بھی منفی رجحان پروان اسی صورت میں چڑھتا ہے جب کہ اس کی پروموشن ہو ۔
گھر یا معاشرے کا ہر فرد اگر جہالت سے اعراض کناں بن جائے گا تب جہالت کے وجود و بقاء کو متصور کرنا بھی کم نظری اور کج فہمی ہو گا ۔
💐 فاضل عربی میں پڑھا گیا درج ذیل شعر اپنی معنوی افادیت کی وجہ سے دل و دماغ میں ایسا نقش ہے کہ لازمہء طبیعت بنا ہوا ہے ۔
: وَ لَقَدْ اَمُرُّ عَلَي اللئيمِ يَسُبُّنِي فَمَضَيتُ ثَمَّةَ قُلْتُ لا يَعْنِيني ۔
یقین مانیئے بارہا ایسا ہوا کہ میں کسی لئیم کے پاس سے گذرتا ہوں اور وہ مجھے گالیاں دے رہا ہوتا ہے تو میں اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے کہ اس کا مقصود میں نہیں ، وہاں سے کان لپیٹ کر گزر جاتا ہوں .
☀️ اب تھوڑی دیر ایک ایسے گھر کا ماحول تصور کیجئے
جس کا ہر فرد عفو شعار ، آمر بالمعروف ، جہالت سے کنارہ کش ہے ۔ وہ گھر یقینا ایک دوسرے کے لیئے خلوص و محبت ، اخوت و مودت ، ایثار و قربانی ، باہمی تعظیم و توقیر وغیرہا اخلاق فاضلہ عالیہ کا کتنا مثالی گہوارہ امن و سکون ہوگا
۔ طلاق ، مار کٹائی، گالم گلوچ تو بہت دور کی بات ، بلند آوازی اور معمولی توتکار بھی نہ ہوگی ۔
تصور کو مزید آگے بڑھاتے گھروں کو جوڑ کر معاشرہ بنائیں تو اس پر سکون معاشرے کا تصور آئے گا جس کا ہر فرد ان صفات محمودہ سے متصف ہونے کی وجہ سے اس معاشرے کو مزید نمونہ ء جنت بنانے میں اپنا حصہ مسلسل ڈالے جا رہا ہو گا۔
فقیر خالد محمود اپنے کریم رب کے حضور دست بدعا ہے کہ امت محمدیہ کا ہر فرد ان اخلاق حسنہ سے متزین ہو جائے۔ آمین یارب العالمین