یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)

اے پیغمبرو پاکیزہ چیزیں کھاؤ (ف۸۲) اور اچھا کام کرو میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں (ف۸۳)

(ف82)

یہاں پیغمبروں سے مراد یا تمام رسول ہیں اور ہر ایک رسول کو ان کے زمانہ میں یہ ندا فرمائی گئی یا رسولوں سے مراد خاص سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یا حضرت عیسٰی علیہ السلام ، کئی قول ہیں ۔

(ف83)

ان کی جزاء عطا فرماؤں گا ۔

وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ(۵۲)

اور بےشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے (ف۸۴) اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے ڈرو

(ف84)

یعنی اسلام ۔

فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ(۵۳)

تو اُن کی امتوں نے اپنا کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا (ف۸۵) ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے (ف۸۶)

(ف85)

اور فرقے فرقے ہو گئے یہودی ، نصرانی ، مجوسی وغیرہ ۔

(ف86)

اور اپنے ہی آپ کو حق پر جانتا ہے اور دوسروں کو باطل پر سمجھتا ہے اس طرح ان کے درمیان دینی اختلافات ہیں ، اب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب ہوتا ہے ۔

فَذَرْهُمْ فِیْ غَمْرَتِهِمْ حَتّٰى حِیْنٍ(۵۴)

تو تم اُن کو چھوڑ دو ان کے نشہ میں (ف۸۷) ایک وقت تک (ف۸۸)

(ف87)

یعنی ان کے کُفر و ضلال اور ان کی جہالت و غفلت میں ۔

(ف88)

یعنی ان کی موت کے وقت تک ۔

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَۙ(۵۵)

کیا یہ خیال کررہے ہیں کہ وہ جو ہم ان کی مدد کررہے ہیں مال اور بیٹوں سے(ف۸۹)

(ف89)

دنیا میں ۔

نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِؕ-بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۵۶)

یہ جلد جلد ان کو بھلائیاں دیتے ہیں (ف۹۰) بلکہ انہیں خبر نہیں (ف۹۱)

(ف90)

اور ہماری یہ نعمتیں ان کے اعمال کی جزاء ہیں یا ہمارے راضی ہونے کی دلیل ہیں ، ایسا خیال کرنا غلط ہے واقعہ یہ نہیں ہے ۔

(ف91)

کہ ہم انہیں ڈھیل دے رہے ہیں ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ(۵۷)

بےشک وہ جو اپنے رب کے ڈر سے سہمے ہوئے ہیں (ف۹۲)

(ف92)

انہیں اس کے عذاب کا خوف ہے ۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ مؤمن نیکی کرتا ہے اور خدا سے ڈرتا ہے اور کافِر بدی کرتا ہے اور نڈر رہتا ہے ۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَۙ(۵۸)

اور وہ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں (ف۹۳)

(ف93)

اور اس کی کتابوں کو مانتے ہیں ۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِكُوْنَۙ(۵۹)

اور وہ جو اپنے رب کا کوئی شریک نہیں کرتے

وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ(۶۰)

اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ دیں (ف۹۴) اور اُن کے دل ڈر رہے ہیں یوں کہ اُن کو اپنے رب کی طرف پھرنا ہے (ف۹۵)

(ف94)

زکوٰۃ و صدقات یا یہ معنٰی ہیں کہ اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں ۔

(ف95)

ترمذی کی حدیث میں ہے کہ حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا اس آیت میں ان لوگوں کا بیان ہے جو شرابیں پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ؟ فرمایا اے صدیق کی نور دیدہ ایسا نہیں یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو روزے رکھتے ہیں ، صدقے دیتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ اعمال نامقبول نہ ہو جائیں ۔

اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(۶۱)

یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی سب سے پہلے انہیں پہنچے (ف۹۶)

(ف96)

یعنی نیکیوں کو ، معنٰی یہ ہیں کہ وہ نیکیوں اور اُمّتوں پر سبقت کرتے ہیں ۔

وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۶۲)

اور ہم کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتے مگر اس کی طاقت بھر اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے کہ حق بولتی ہے (ف۹۷) اور ان پر ظلم نہ ہوگا (ف۹۸)

(ف97)

اس میں ہر شخص کا عمل مکتوب ہے اور وہ لوحِ محفوظ ہے ۔

(ف98)

نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی نہ بدی بڑھائی جائے گی ، اس کے بعد کُفّار کا ذکر فرمایا جاتا ہے ۔

بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ(۶۳)

بلکہ اُن کے دل اس سے (ف۹۹) غفلت میں ہیں اور اُن کے کام اُن کاموں سے جدا ہیں (ف۱۰۰) جنہیں وہ کررہے ہیں

(ف99)

یعنی قرآن شریف سے ۔

(ف100)

جو ایمانداروں کے ذکر کئے گئے ۔

حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْــٴَـرُوْنَؕ(۶۴)

یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے امیروں کو عذاب میں پکڑا (ف۱۰۱) تو جبھی وہ فریاد کرنے لگے (ف۱۰۲)

(ف101)

اور وہ روز بروز تہ تیغ کئے گئے اور ایک قول یہ ہے کہ اس عذاب سے مراد فاقوں اور بھوک کی وہ مصیبت ہے جو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے ان پر مسلّط کی گئی تھی اور اس قحط سے ان کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ کتّے اور مردار تک کھا گئے تھے ۔

(ف102)

اب ان کا جواب یہ ہے کہ ۔

لَا تَجْــٴَـرُوا الْیَوْمَ۫-اِنَّكُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ(۶۵)

آج فریاد نہ کرو ہماری طرف سے تمہاری مدد نہ ہوگی

قَدْ كَانَتْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَۙ(۶۶)

بےشک میری آیتیں (ف۱۰۳) تم پر پڑھی جاتی تھیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل اُلٹے پلٹتے تھے (ف۱۰۴)

(ف103)

یعنی آیاتِ قرآنِ مجید ۔

(ف104)

اور ان آیات کو نہ مانتے تھے اور ان پر ایمان نہ لاتے تھے ۔

مُسْتَكْبِرِیْنَ ﳓ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ(۶۷)

خدمتِ حرم پر بڑائی مارتے ہو (ف۱۰۵) رات کو وہاں بیہودہ کہانیاں بکتے (ف۱۰۶) حق کو چھوڑے ہوئے (ف۱۰۷)

(ف105)

اوریہ کہتے ہوئے کہ ہم اہلِ حرم ہیں اور بیت اللہ کے ہمسایہ ہیں ، ہم پر کوئی غالب نہ ہوگا ہمیں کسی کا خوف نہیں ۔

(ف106)

کعبۂ معظّمہ کے گرد جمع ہو کر اور ان کہانیوں میں اکثر قرآن پاک پر طعن اور اس کو سحر اور شعر کہنا اور سید عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے جا باتیں کہنا ہوتا تھا ۔

(ف107)

یعنی نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آپ پر ایمان لانے کو اور قرآنِ کریم کو ۔

اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘(۶۸)

کیا انہوں نے بات کو سوچا نہیں (ف۱۰۸) یا اُن کے پاس وہ آیا جو ان کے باپ دادا کے پاس نہ آیا تھا(ف۱۰۹)

(ف108)

یعنی قرآنِ پاک میں غور نہیں کیا اور اس کے اعجاز پر نظر نہیں ڈالی جس سے انہیں معلوم ہوتا کہ یہ کلام حق ہے اس کی تصدیق لازم ہے اور جو کچھ اس میں ارشاد فرمایا گیا وہ سب حق اور واجب التسلیم ہے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدق و حقانیت پر اس میں دلالاتِ واضحہ موجود ہیں ۔

(ف109)

یعنی رسول کا تشریف لانا ایسی نرالی بات نہیں ہے جو کبھی پہلے عہد میں ہوئی ہی نہ ہو اور وہ یہ کہہ سکیں کہ ہمیں خبر ہی نہ تھی کہ خدا کی طرف سے رسول آیا بھی کرتے ہیں ، کبھی پہلے کوئی رسول آیا ہوتا اور ہم نے اس کا تذکرہ سنا ہوتا تو ہم کیوں اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ مانتے ، یہ عذر کرنے کا موقع بھی نہیں ہے کیونکہ پہلی اُمّتوں میں رسول آچکے ہیں اور خدا کی کتابیں نازِل ہو چکی ہیں ۔

اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ٘(۶۹)

یا اُنہوں نے اپنے رسول کو نہ پہچانا (ف۱۱۰) تو وہ اسے بیگانہ سمجھ رہے ہیں (ف۱۱۱)

(ف110)

اور حضور کی عمر شریف کے جملہ احوال کو نہ دیکھا اور آپ کے نسبِ عالی اور صدق و امانت اور وفورِ عقل و حسنِ اخلاق اور کمالِ حلم اور وفا و کرم و مُروّت وغیرہ پاکیزہ اخلاق و محاسنِ صفات اور بغیر کسی سے سیکھے آپ کے علم میں کامل اور تمام جہان سے اعلم اور فائق ہونے کو نہ جانا کیا ایسا ہے ؟

(ف111)

حقیقت میں یہ بات تو نہیں بلکہ وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آپ کے اوصاف و کمالات کو خوب جانتے ہیں اور آپ کے برگزیدہ صفات شہرۂ آفاق ہیں ۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌؕ-بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ(۷۰)

یا کہتے ہیں اُسے سودا (دیوانہ پن)ہے (ف۱۱۲) بلکہ وہ تو اُن کے پاس حق لائے (ف۱۱۳) اور اُن میں اکثر کو حق بُرا لگتا ہے (ف۱۱۴)

(ف112)

یہ بھی سرا سر غلط اور باطل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ جیسا دانا اور کامل العقل شخص ان کے دیکھنے میں نہیں آیا ۔

(ف113)

یعنی قرآنِ کریم جو توحیدِ الٰہی و احکامِ دین پر مشتمل ہے ۔

(ف114)

کیونکہ اس میں ان کے خواہشاتِ نفسانیہ کی مخالفت ہے اس لئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صفات و کمالات کو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اکثر کی قید سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حال ان میں بیشتر لوگوں کا ہے چنانچہ بعض ان میں ایسے بھی تھے جو آپ کو حق پر جانتے تھے اور حق انہیں بُرا بھی نہیں لگتا تھا لیکن وہ اپنی قوم کی موافقت یا اُن کے طعن و تشنیع کے خوف سے ایمان نہ لائے جیسے کہ ابو طالب ۔

وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّؕ-بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ(۷۱)

اور اگر حق (ف۱۱۵) اُن کی خواہشوں کی پیروی کرتا (ف۱۱۶) تو ضرور آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں سب تباہ ہوجاتے (ف۱۱۷) بلکہ ہم تو اُن کے پاس وہ چیز لائے (ف۱۱۸) جس میں ان کی ناموری تھی تو وہ اپنی عزت سے ہی منہ پھیرے ہوئے ہیں

(ف115)

یعنی قرآن شریف ۔

(ف116)

اس طرح کہ اس میں وہ مضامین مذکور ہوتے جن کی کُفّار خواہش کرتے ہیں جیسے کہ چند خدا ہونا اور خدا کے بیٹا اور بیٹیاں ہونا وغیرہ کُفریات ۔

(ف117)

اور تمام عالم کا نظام درہم برہم ہو جاتا ۔

(ف118)

یعنی قرآنِ پاک ۔

اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ ﳓ وَّ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۷۲)

کیا تم اُن سے کچھ اجرت مانگتے ہو (ف۱۱۹) تو تمہارے رب کا اجر سب سے بھلا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا (ف۱۲۰)

(ف119)

انہیں ہدایت کرنے اور راہِ حق بتانے پر ۔ ایسا تو نہیں اور وہ کیا ہیں اور آپ کو کیا دے سکتے ہیں تم اگر اجر چاہو ۔

(ف120)

اور اس کا فضل آپ پر عظیم اور جو جو نعمتیں اس نے آپ کو عطا فرمائی وہ بہت کثیر اور اعلٰی تو آپ کو ان کی کیا پرواہ پھر جب وہ آپ کے اوصاف و کمالات سے واقف بھی ہیں ، قرآنِ پاک کا اعجاز بھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہے اور آپ ان سے ہدایت و ارشاد کا کوئی اجر و عوض بھی طلب نہیں فرماتے تو اب انہیں ایمان لانے میں کیا عذر رہا ۔

وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۷۳)

اور بےشک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہو (ف۱۲۱)

(ف121)

تو ان پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت قبول کریں اور اسلام میں داخل ہوں ۔

وَ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ(۷۴)

اور بےشک جو آخرت پر ایما ن نہیں لاتے ضرور سیدھی راہ سے (ف۱۲۲) کترائے ہوئے ہیں

(ف122)

یعنی دینِ حق سے ۔

وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۷۵)

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو مصیبت(ف۱۲۳)ان پر پڑی ہے ٹال دیں تو ضرور بھٹ پنا(احسان فراموشی)کریں گے اپنی سرکشی میں بہکتے ہوئے (ف۱۲۴)

(ف123)

ہفت سالہ قحط سالی کی ۔

(ف124)

یعنی اپنے کُفر و عناد اور سرکشی کی طرف لوٹ جائیں گے اور یہ تملُّق و چاپلوسی جاتی رہے گی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مؤمنین کی عداوت اور تکبُّر جو ان کا پہلا طریقہ تھا وہی اختیار کریں گے ۔

شانِ نُزول : جب قریش سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے اور حالت بہت ابتر ہوگئی تو ابوسفیان ان کی طرف سے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اپنے خیال میں رحمۃ للعالمین بنا کر نہیں بھیجے گئے ؟ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک ، ابوسفیان نے کہا کہ بڑو ں کو تو آپ نے بدر میں تہِ تیغ کر دیا اولاد جو رہی وہ آپ کی بددعا سے اس حالت کو پہنچی کہ مصیبت قحط میں مبتلا ہوئی ، فاقوں سے تنگ آگئی ، لوگ بھوک کی بے تابی سے ہڈیاں چاپ گئے ، مُردار تک کھا گئے میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور قرابت کی ، آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم سے اس قحط کو دور فرمائے ۔ حضور نے دعا کی اور انہوں نے اس بلا سے رہائی پائی ۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیتیں نازِل ہوئیں ۔

وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ(۷۶)

اور بےشک ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا (ف۱۲۵) تو نہ وہ اپنے رب کے حضور میں جھکے اور نہ گِڑگِڑاتے ہیں (ف۱۲۶)

(ف125)

قحط سالی کے یا قتل کے ۔

(ف126)

بلکہ اپنے تمرُّد و سرکشی پر ہیں ۔

حَتّٰۤى اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ۠(۷۷)

یہاں تک کہ جب ہم نے اُن پر کھولا کسی سخت عذاب کا دروازہ (ف۱۲۷) تو وہ اب اس میں نااُمید پڑے ہیں

(ف127)

اس عذاب سے یا قحط سالی مراد ہے جیسا کہ روایتِ مذکور ہ شانِ نُزول کا مقتضٰی ہے یا روزِ بدر کا قتل ، یہ اس قول کی بنا پر ہے کہ واقعۂ قحط واقعۂ بدر سے پہلے ہوا اور بعض مفسِّرین نے کہا کہ اس سخت عذاب سے موت مراد ہے ، بعض نے کہا کہ قیامت ۔