اِضطراب
سلسلہ: واصفیات
کتاب: “دل دریا سمندر”
مصنف: حضرت واصف علی واصف علیہ الرحمتہ
مضمون : اضطراب
اِضطراب
Ñاضطراب باعثِ ہستی ہے اور حاصلِ ہستی بھی۔ہر زندہ اِنسان مُضطرب ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ تڑپ رہا ہے۔موجوں کا اضطراب تلاطمِ قُلزم ہے اور یہی سمندر کی ہستی ہے۔اضطراب ہی زندگی کو متحرک رکھتا ہے اور یہی تحریک‘ ہستی کا ثبوت ہے۔ بے حرکت زندگی ‘نباتات کی زندگی ہے۔
زندگی کا بیشتر حِصہ وقفِ اضطراب رہتا ہے۔انسان کی آرزوئیں،اُس کے تقاضے،اُس کے منصوبے اور اُس کے عزائم اتنے زیادہ ہوتے ہیںکہ اُن سب کا بیک وقت حصول نا ممکن ہے۔جب خواہشات دم توڑتی ہیں تو اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ اضطراب اِس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کئی راستوں میںسے کسی ایک راہ کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ قوتِ فیصلہ کی کمی انسان کو تذبذب میں ڈال دیتی ہے اور انجامِ کار وہ مضطرب رہنے لگتا ہے اور پھر انسان کا اضطراب اُس سے سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لیتا ہے۔
انسان علم حاصل کرتا ہے عمل کے لئے‘لیکن جُوں جُوں علم پھیلتا ہے عمل کے مواقع سمٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔آج کے انسان کا سب سے بڑا عمل‘حصولِ علم ہے اور یہ عمل اُس کو فرائض کی بجا آوری کے عمل سے بہت دُور کر دیتا ہے۔نتیجہ اضطراب ہے۔ سڑک کے کنارے کمرے میں بیٹھ کر زندگی کا مفہوم سمجھنے والا اُس زندگی کو بھی نہیں سمجھ سکتا‘ جو سڑک پر سے گزر رہی ہے۔علم اور عمل کے فرق سے اضطراب پیدا ہوتا ہے۔
انسان کی کوشش جب متوقع نتیجہ حاصل نہیں کرتی تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے۔ پھولوں کے خواب دیکھنے والا اپنے دامن میں خار دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔خواب کی اُونچی اُڑانیں ہستی کو پستی سے نکال نہیں سکتیں۔انسان کی آرزو جب حسرت بن جائے اور اُس کا حاصل لا حاصل ہو کے رہ جائے تو اُس کا مضطرب ہونا بجا ہے۔اپنے جب اجنبی بن کر پاس سے گزر جائیں تو انسان کیا کرے؟وہ مضطرب ہو گا،بے قرار ہو گا،بے چین ہو گا۔
اگر اضطراب برداشت سے بڑھ جائے تو طرح طرح کی میڈیکل پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔اضطراب کو مایوسی نہ بننے دیا جائے تو انسان بدلے ہوئے حالات سے گھبراتا نہیں۔کچھ لوگ اضطراب میںچراغِ آرزو بجھادیتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے خود کو ایک کرب میں مبتلا کر لیتے ہیں۔کچھ لوگ اضطراب کو تحریک بناتے ہوئے نئی راہیں دریافت کر لیتے ہیں اور اِس طرح پُرانے ڈھانچوں پر نئی تعمیر استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔دراصل اضطراب کا مسکن’’ہونے اور نہ ہونے‘‘ کے درمیان ہے۔ جانے والے زمانے کی یاد میں آنے والے زمانے کا انتظار بھی تو شامل ہوتا ہے۔ اضطراب اِس اَمر کا اعلان ہے کہ ایک دَور ختم ہو گیا اور دوسرا دَور جنم لینے والا ہے۔ مضطرب انسان منتشر نہیں ہوتا۔مضطرب آدمی وجۂ اضطراب سے بہر حال باخبر ہے‘جبکہ منتشر انسان وجۂ انتشار سے بے خبر ہے۔
اضطراب ایک قوت ہے ،تشخص کا ایک مقام ہے،پہچان کا ایک زاویہ ہے، شخصیت کا ایک پہلو ہے۔مضطرب قومیں اپنے لئے نئے سُورج تراش لینے میں اکثر کامیاب ہوتی ہیں۔اضطراب ہی مجاز سے حقیقت کا راستہ دکھاتا ہے۔اِنقباض سے نکل کر اِنبساط میں داخل ہونے کا اولیں سِگنل اضطراب ہے۔عہدِ رفتہ کے مرثیے اور عہدِفردا کے قصیدے کے درمیان اضطراب گنگناتا ہے۔
اضطراب میں رہنے والے بڑے تخلیق کار ہوتے ہیں۔اضطراب شب بیداری کا پیغام ہے اور کامیابی کا زینہ ہے۔اضطراب سوز ہے اور یہی سوز جوہرِ تخلیق ہے۔
آج کی زندگی میں ایک گُھٹن ہے‘ایک حبس ہے۔آج کی زندگی خود غرضی کی زندگی ہے۔کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں۔کسی کو کسی سے ہمدردی تو خیر دُور کی بات ہے‘دلچسپی ہی نہیں۔ظاہر کی رونقیں باطن کی وحشتوں سے خوفزدہ ہیں۔ہر طرف انسانوں کی بھیڑ ہے اور اِس بے پناہ ہجوم میں کوئی انسان نظر نہیں آتا۔بد اعتمادی کے اِس عہد میں ہر شخص مضطرب ہے،سرگرداں ہے،پریشان ہے،بے قرار ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک وبا پھیل چکی ہے‘بے چینی کی وبا،بے بسی کی وبا،بے حِسی کی وبا،بے کسی کی وبا،بے یقینی کی وبا،بے مروّتی کی وبا، بے حیائی اور بے وفائی کی وبا،ہر حساّس آدمی کو معاشرتی انحطاط مضطرب کر رہا ہے۔
یہ دور بڑے کرب سے گُزر رہا ہے۔اذیّت اور تنہائی انسان کی رُوح تک جا پہنچی ہے۔انسان کو اندر سے گُھن لگ چکا ہے۔چہروں کی نقلی مسکراہٹ ضبطِ غم کے سِوا کچھ نہیں۔آج کا اضطراب اس لئے ہے کہ زندگی کو تقویت دینے والے ادارے ختم ہوتے جا رہے ہیں‘لیکن یہ اضطراب ایک نئے جہاں کے پیدا ہونے کی بشارت بھی رکھتا ہے۔آج کا اضطراب کسی وقت کروٹ لے سکتا ہے اور ایک بار پھر وہی جذبے کار فرما ہو سکتے ہیںجو آج سے چالیس سال پہلے ظاہر ہوئے تھے۔
اضطراب بے سبب نہیں ہوتا۔اضطراب بھُولا ہوا سبق،چھوڑی ہوئی منزل اور نظر انداز کئے ہوئے فرائض یاد دلاتا ہے اور اس طرح پیدا ہونے والا احساسِ غفلت بیداری کی اولیں کرن ہے۔
جو لوگ دُنیاوی اشیاء اور ضروریات کے حُصول کے لئے مضطرب کہلاتے ہیں وہ دراصل مضطرب نہیں‘وہ تکلیف میں ہوتے ہیں۔اور تکلیف اور شے ہے اور اضطراب اور چیز۔تکلیف کمی سے ہوتی ہے،اضطراب کوتاہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اضطراب رُوح کی بے تابی ہے اور تکلیف ذہن اور جسم کی پریشانی۔
جب انسان کا حق اُس کی دسترس میںنہ ہو تو اضطراب پیدا ہو گا۔جس زمانے میں انسان کو اپنی ضروریات کے حُصول کے لئے دُعا کے علاوہ کوئی چارہ میّسرنہ ہو‘وہ زمانہ اضطراب کا زمانہ ہے۔آج کا عصری کرب انسان سے ذوقِ حیات بھی چھین رہا ہے۔آج کے انسان کی ضروریات کے پائوں اُس کے وسائل کی چادر سے باہر ہیں۔ غریب کو امیر ہو جانے کی اُمید نے سہارا دیا ہوا ہے ‘لیکن امیر کو غریب ہونے کے ڈر نے مضطرب رکھا ہوا ہے۔دولت مند انسان کو دولت نے اضطراب سے نہیں بچایا۔ دولت اضطراب سے نہیں بچا سکتی۔دولت کا پرستار ہمیشہ بے قرار رہے گا۔
بعض اوقات آنے والی ناگہانی آفات و بلّیات بھی قبل از وقت اضطراب پیدا کرتی ہیں۔زلزلے سے پہلے جانور اور پرندے مضطرب ہو جاتے ہیں۔اندیشہ اضطراب کا ہم سفر ہے۔ہمارے ہاں سرحدوں کے حالات اتنے خوش کُن نہیںکہ اضطراب پیدا نہ ہو۔لیکن یہ وہ اضطراب ہے جس کا حل ہمارے پاس نہیں۔دشمنانِ اسلام مُتحد ہیںاور مسلمان مُتحد نہیں۔دوستوں کی لاپرواہی دشمن کی اصل طاقت ہے۔ہم لوگ وحدت ِ فکر اور وحدتِ کردار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
آج ہمیں بیک وقت اقبالؒ اور جناحؒ کی ضرورت ہے۔آج کوئی جگانے والا چاہیے۔ کوئی چلّانے والا چاہیے تا کہ شمعِٔ حُریّت ہر طوفان سے محفوظ رہے۔آندھیاں اور آگہی کے چراغ برسرِ پیکار ہیں۔ آج قوم کو عہدِ کُہن تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔
صرف بزرگوں کی یاد منانے سے بزرگوں کا فیض نہیں ملتا۔بزرگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے بات بنتی ہے۔ذکرِ بہار تو فصلِ بہار نہیں۔آج کا اضطراب تو عمل سے دُور ہو گا‘مسلسل عمل۔
دریا کا مقصد اگر وصالِ بَحر ہے تو یہ منزل صرف سمندر کے نام کا وظیفہ پڑھنے سے نہیں حاصل ہوتی۔دریا کا اضطراب اُس کی قوت ہے،اُس کی روانی ہے۔وہ اضطراب میں پہاڑوں کو کاٹتا ہے‘میدانوں سے راستہ لیتا ہے اورایک طویل جدوجہد کے بعد آغوشِ قُلزم میں راحت و سکون حاصل کرتاہے۔اضطراب کو روانی بنانے والا دریا آسودۂ منزل ہوتا ہے۔ قوموں کا سفر دریا کے سفر کی طرح ہے۔موجوں اور قطروں کی ایک عظیم وحدت اپنی منزل کی طرف رواں دواں انجامِ کار بَحرِ بے کنار سے ہم کنار ہوتی ہے۔
قوم کے افراد اگر وحدت کے تصوّرسے محروم ہو جائیں تو اُن کا اضطراب اُنہیں مایوس کر کے ہلاک کر دیتا ہے۔اگر وحدت قائم ہو جائے تو یہی اضطراب یم بہ یم منزلِ مقصود ہے۔انفرادی اضطراب کو اجتماعی فِکر میں ڈھالنے والا ہی قوم کا رہنما ہوتا ہے۔ میرِ کارواں وہی ہے جو افرادِ کارواںمیں یکجہتی،یک سمتی،یک نظری پیدا کرے۔
قوم میں وحدتِ فکر پیدا ہو جائے تو وحدتِ عمل منطقی نتیجہ ہے۔یعنی اقبالؒ مل جائے تو جناحؒ کا ملنا لازمی ہے۔آج کے اضطراب کو چینل درکار ہے۔اضطراب تلاشِ عمل کا نام ہے اور عمل ‘علم کی وضاحتوں سے نجات کا نام ہے ۔لیکن یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اضطراب زیادہ دیر تک مُنتظر نہیں رہ سکتا۔اُسے بہر حال کچھ کرنا ہے‘اچھا یا بُرا۔اضطراب کو اُمید میّسر نہ ہو ئی تو مایوسی اُس کا نصیب۔ٹمٹماتے ہوئے مضطرب چراغ اکٹھے کر دیئے جائیں تو ایک عظیم چراغاں پیدا ہو سکتا ہے‘ورنہ چراغوں کے بُجھ جانے کا اندیشہ ہے۔
اضطراب کی وجہ کچھ بھی ہو‘اِس سے نجات کی صُورت وحدتِ افکار و کردار ہے اور اِس وحدت کا حصُول ہی فضلِ الہٰی ہے اور اِس کا طریقہ کار ذکرِ الہٰی ہے۔ذکرِ الہٰی ہر اُس عمل کو کہیں گے جس کا مدعا رضائے حق ہو۔اپنی منشا کو منشائے ایزدی کے حوالے کر دینے سے ہی اضطراب دُور ہو سکتا ہے۔یہ بے عملی نہیں‘یہ عظیم عمل ہے۔انسانوں کا اتحاد ‘رضائے الہٰی کے حصُول کے لئے‘ تا کہ یہ زندگی بھی با مُراد ہو اور آنے والی زندگی بھی با نصیب ۔