از قلم۔ محمود عمر ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کا نمبرون بہروپیا ۔۔۔۔۔۔۔

ان سے ملئیے۔۔۔۔

یہ ہیں جناب عامر لیاقت صاحب۔جو جس شعبہ میں جاتے ہیں کمال کی اداکاری کرتے ہیں۔ جناب نے علم کے شعبہ میں قدم رکھا تو اسلامک ہسٹری میں ماسٹر کرنے کے بعد صرف بیس دنوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی۔ میڈیا میں کافی شور شرابا کے بعد آخر اپنی زبان کھول ہی دی اور اعتراف کیا کہ میرے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہیں ہے۔

میڈیا میں انعام گھر کے نام سے پروگرام کرنے پر ایسی شہرت ملی کہ میڈیا نے اسے اپنے لئیے سونے کی چڑیا سمجھ لیا۔

موصوف نے اہل تشیع کے حلقوں میں لب کشائی کیا کر دی۔ شیعہ علماء نے اپنا عظیم ذاکر اور مسیحا سمجھ لیا۔

عالم اور عالم آن لائن پروگرام میں سنی علماء کو بلا کر خوب عزت افزائی کی اور ان کے عقائد کی کھل کر حمایت کی۔ اور کچھ ناموس رسالت پر قابل تعریف بیان بھی کئیے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے کچھ سنیوں نے بھی اپنے سر کا تاج سمجھ لیا۔

ملک میں عاصیہ ملعونہ کا کیس زیر بحث آیا۔ جج نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا تو جناب کی توجہ فوراً عیسائیت اور ملحدین کی طرف چلی گئی اور اس کیس میں خوب ملعونہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ باہر کے فنڈ پہ پلنے والی این جی اوز نے اپنا خاص کارکن سمجھ لیا۔

لبرل آنٹیوں کی چیمپئین مروالی سرمد کی دھلائی کرنے پر جناب نے مروالی کو اپنی لاڈلی باجی ثابت کرنے کے لئیے خلیل الرحمٰن قمر کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ تو تمام لبرل باجیوں نے اس کو اپنا حقیقی ابو جان سمجھ لیا۔

جناب نے ٹی وی چینل پر رو رو کر اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب میں سیاست میں نہیں آؤں گا۔ لیکن جیسے ہی الیکشن قریب آئے تو منہ میں پانی آگیا اور پھینکے ہوئے تھوک کو دوبارہ چاٹتے ہوئے کہا کہ میں نے تو کہا تھا کہ میں سیاہ ست میں نہیں آوں گا۔

خیر جناب نے الیکشن جیتا اور نیشنل اسمبلی میں قدم رکھا تو تحریک نے اپنے لئیے ارسطو سمجھ لیا۔

لیکن اب تحریک کو اس کی اداکاری سمجھ آگئی اس لئیے کوئی بھی بیچارے کو تحریک میں گھاس ڈالنے کے لئیے تیار نہیں ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں شائد ہی کوئی اس کی اداکاری اور بہروپیا پن کا مقابلہ کر سکے۔ ایسے انمول بچے کبھی کبار ہی پیدا ہوتے ہیں۔