اصل علوم تین ہیں
sulemansubhani نے Thursday، 15 April 2021 کو شائع کیا.
(۲) اصل علوم تین ہیں
۲۲۶۔ عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعا لی عنہما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم :ألْعِلْمُ ثَلٰثَۃٌ،آیَۃٌ مُحْکَمَۃٌ اَوْسُنَّۃٌ قَائِمَۃٌ اَوْ فَرِیْضَۃٌ عَادِ لَۃٌ، وَمَا کَانَ سِویٰ ذٰ لِکَ فَھُوَ فَضْلٌ۔
حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ تعا لی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : علم تین ہیں ، قرآن ،حد =یث،یا وہ چیز جو وجوب عمل میں انکی ہمسر ہے(گویا اجماع وقیا س کی طرف اشا رہ فرماتے ہیں ) اور ان کے سوا جو کچھ ہے سب فضول۔
]۲۸[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں
اس حدیث کا صریح مفاد ہر مسلمان مرد و عو رت پر طلب علم کی فرضیت، تو یہ صادق نہ آئیگا مگر اس علم پر جسکا تعلم فرض عین ہو اور فر ض عین نہیں مگر ان علوم کا سیکھنا جنکی طرف انسان بالفعل اپنے دین میںمحتاج ہو۔ انکا ا عم و اشمل وا علی واکمل و اہم واجل علم اصول عقائد ہے جنکے اعتقاد سے آدمی مسلمان سنی المذہب ہو تا ہے اور انکار و مخالفت سے کافریا بدعتی ۔والعیا ذ باللہ تعالی۔ سب سے پہلا فرض آدمی پر ا سی کاتعلم ہے اور اسکی طرف احتیا ج میں سب یکساں پھرعلم مسائل نماز ، یعنی اسکے فرائض وشرائط مفسدات جنکے جاننے سے نمازصحیح طورپر ادا کر سکے ۔پھر جب رمضان آئے تو مسائل صوم ،مالک نصاب نامی ہو تو مسائل زکوۃ صاحب استطاعت ہو تومسائل حج نکاح کیا چاہے تواسکے متعلق ضرور ی مسئلے۔تاجر ہو تومسائل بیع شراء،مزا رع پر مسائل زراعت ،موجر و مستاجرپر مسائل اجارہ،وعلٰی ھذالقیاس،ہر شخص پراس کی حا جت موجودہ کے مسئلے سیکھنا فر ض عین ہے۔ اور انہیں میں سے ہیں مسائل حلال و حرام کہ ہر فرد بشر انکا محتاج ہے اور مسائل قلب یعنی فرائض قلبیہ، مثل تواضع واخلاص وتو کل وغیرہا اور انکے طرق تحصیل ،اور محرمات باطنیہ تکبر و ریا اور عجب وحسد وغیرہا اور انکے معالجات کہ ان کا تعلم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ،جسطرح بے نماز فاسق وفاجر و مرتکب کبائر ہے یوں ہی بعینہ ریا سے نماز پڑھنے والا انھیں مصیبتو ں میں گرفتار ہے نسئل اللہ العفووالعافیۃ۔ تو صرف یہ ہی علوم حدیث میں مراد ہیں و بس۔ غرض اس حدیث میںاسی قدر علم کی نسبت ارشاد ہے۔
ہاں آیات و احادیث دیگر کہ فضیلت علماء و ترغیب علم میں وارد ،وہاں ان کے سوااور علوم کثیرہ بھی مراد ہیں،جنکا تعلم فر ض کفایہ یا واجب یا مسنون یا مستحب یا اس کے آگے کوئی درجۂ فضیلت وتر غیب ، اور جو ان سے خارج ہو ہر گز آیات واحادیث میں مراد نہیں ہو سکتا ،اور انکا ضابطہ یہ ہے کہ وہ علوم جو آدمی کو اس کے دین میں نافع ہوں خواہ اصا لتہ جیسے فقہ وحدیث وتصوف بے تخلیط و تفسیر قرآ ن بے افراط وتفریط ،خواہ وساطتہ مثلا نحووصرف ومعانی وبیان فی حدذاتہا امر دینی نہیں مگر فہم قرآن و حدیث کیلئے وسیلہ ہیں ۔ اور فقیر غفر اللہ تعالیٰ اس کے لئے عمدہ معیار عرض کرتا ہے مراد متکلم جیسی خود اسکے کلام سے ظاہر ہوتی ہے دوسرے کے بیان سے نہیں ہو سکتی ۔
مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنھوں نے علم اور علما ء کے فضائل عالیہ وجلائل غالیہ ارشاد فرمائے انھیں کی حدیث میںوارد ہے کہ علماء وارث انبیا کے ہیں ،انبیا نے درم دینار ترکہ میں نہ چھو ڑے علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے جس نے علم پایا اس نے بڑا حصہ پایا ، بس ہرعلم میں اسی قدر دیکھ لینا کافی ہے کہ آیا یہ وہی عظیم دولت نفیس مال ہے جو انبیا علیہم الصلوۃ والسلام نے اپنے ترکہ میں چھوڑا،جب تو بیشک محمود اور فضائل جلیلہ موعودہ کا مصداق اور اسکے جاننے والے کولقب عالم و مولوی کا استحقاق ورنہ مذموم وبد ہے ،جیسے فلسفہ ونجوم یا لغو و فضول جیسے قافیہ و عروض یا کوئی دنیا کا کام ،جیسے نقشہ ومسا حت ،بہر حال ان فضائل کا مورد نہیں،نہ اس کے صاحب کو عالم کہہ سکیں ،ائمہ دین فرما تے ہیں :
جو علم کلام میں مشغول رہا اس کا نام دفتر علماء سے محوہو جائے ،سبحان اللہ جب متاخرین علما کا علم کلام جسکے اصل اصول عقا ئد سنت واسلا م ہیں بوجہ اختلا ط فلسفہ وزیا دت مزخر فہ مذموم ٹھہرا اور اسکا مشتغل لقب عالم کا مستحق نہ ہوا تو خاص فلسفہ و منطق فلا سفہ ودیگر خرافات کا کیا ذکر ہے ،لہٰذ حکم شرعی ہے کہ اگر کوئی شخص علماء شہر کے لیئے کچھ وصیت کر جائے توان فنون کا جاننے والاہر گز اس میں داخل نہ ہو گا ۔
فقیر غفراللہ تعا لیٰ لہ قران و حدیث سے صدہا دلائل اس معنیٰ پر قائم کر سکتا ہے کہ مصداق فضائل صرف علوم دینیہ ہیںوبس ،انکے سوا کوئی علم شرع کے نزدیک علم نہ آیات واحادیث میں مراد ،اگر چہ عرف ناس میں یا با اعتبارلغت علم کہا کریں، ہاں آلات ووسائل کے لیئے حکم مقصود کا ہو تا ہے مگر اس وقت تک کہ وہ بقدر توسل وبقصد توسل سیکھے جائیں اس طور پر وہ بھی مو رد فضائل ہیں۔جیسے نماز کے لئے گھرسے جانے والوں کو حدیث میں فر مایا کہ وہ نماز میں ہیں جب تک نماز کا انتظار کریں نہ یہ کہ انھیں مقصودقرار دے لیںاور ان کے تو غل میںعمر گزاردیں،نحوی لغوی ادیب منطقی کہ انھیں علوم کا ہو رہے اور مقصو د اصلی سے کام نہ رکھے زنہار عالم نہیں کہ جس حیثیت کے صدقہ میںانھیں نام و مقام علم حاصل ہوتا جب وہی نہیں تو یہ اپنی حد ذات میں نہ ان خو بیوں کے مصداق تھے اور نہ قیا مت تک ہوں ہاں اسے یہ کہیںگے کہ ایک صنعت جانتا ہے جیسے آہنگر و نجار ، اور فلسفی کے لیے یہ مثال بھی ٹھیک نہیں کہ لو ہار بڑھیٔ کو ان کا فن دین میں ضرر نہیں پہونچاتااور فلسفہ تو حرام ومضر اسلا م ہے ا س میں منہمک رہنے والا لقب جاہل اجہل بلکہ اس سے زائد کا مستحق ہے ، ولا حول ولا قوۃ الا با للہ العلی العظیم۔ھیھات ،ھیھات ،اسے علم سے کیا مناسبت ،علم وہ ہے جو مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ترکہ ہے نہ وہ جو کفا ر یونان کا پس خوردہ ، اسی طرح وہ ہیئت جسمیں انکار وجود آسمان وتکذیب گر دش سیارات وغیرہ کفریات و امور مخالفہ شرع تعلیم کئے جایئں وہ بھی مثل نجو م حراموملوم اور ضرو رت سے زائد حساب یا جغرافیہ وغیر ھماداخل فضولیات ہیں ۔
امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
کل العلوم سو ی القرآن مشغلۃ = الا الحدیث و الفقہ فی الدین ،
قرآن وحدیث اور فقہ کے علا وہ تمام علوم ایک دنیوی مشغلہ ہیں، یہ مجمل کلام ہے باقی تفصیل مقام کے لئے دفتر طویل درکار جسے منظور ہو احیاء العلوم،طریقئہ محمدیہ ،حدیقئہ ندیہ ،در مختار اور ردالمحتاروغیرھا اسفار علماء کی طرف رجوع کرے ،وفیما ذکرنا کفایۃ لاھل الدرایہ واللہ سبحانہ وتعا لی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔فتاوی رضویہ ۱۱/۱۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۲۶۔ اتحاف السادۃ للزبیدی، ۱/ ۲۲۵ ٭ السنن الکبری للبیہقی ، ۲/۲۰۸
کنز العمال للمتقی ، ۲۸۶۵۹، ۱۰/ ۱۳۲ ٭ جامع بیان العلم لا بن عبد البر ،۲/۲۳
التفسیر لا بن کثیر، ۲/ ۱۹۵ ٭ امالی الشجری ، ۱/ ۵۳
السنن للدار قطنی، ۴/۶۸ ٭
ٹیگز:-