سلسلہ مولا علیؓ کے فضائل میں مشہور موضوع ، واھی و منکر روایات کی نشاندہی
سلسلہ مولا علیؓ کے فضائل میں مشہور موضوع ، واھی و منکر روایات کی نشاندہی
امام ترمذی ایک روایت بیان کرتے ہیں :
حدثنا علي بن المنذر، قال: حدثنا محمد بن فضيل، عن سالم بن أبي حفصة، عن عطية، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: يا علي لا يحل لأحد يجنب في هذا المسجد غيري وغيرك قال علي بن المنذر: قلت لضرار بن صرد: ما معنى هذا الحديث؟ قال: لا يحل لأحد يستطرقه جنبا غيري وغيرك.
هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.
وقد سمع مني محمد بن إسماعيل هذا الحديث واستغربه.
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے
امام ترمذی کہتے ہیں میں نے بخاری سے اس روایت کے بارے سنا انہوں نے اسے بہت ہی غریب قرار دیا
(سنن ترمذی برقم : ۳۷۲۷)
اس روایت کے متن کی حیثیت!!
اس روایت کا متن من گھڑت ہے اور قرآن کے بھی خلاف ہے
جیسا کہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا … ٤٣﴾…النساء
” اے ایمان والو!جب تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ یا تک کہ جو بات تم منہ سے نکالتے تہو اس کو سمجھنے لگو۔ اسی طرح الت جناب میں مگر راہ چلتے ہوئے یہاں تک کہ تم غسل کر لو ”
اس وجہ سے امام ترمذی نے اس روایت کی یہ تاویل نقل کی ہے کہ اس روایت سے مراد مسجد سے گزرنا ہے
لیکن امام بخاری کا اس روایت کو بہت ہی غریب قرار دینا اور عجیب قرار دینا اس باتکی دلیل ہے کہ یہ روایت ناقابل تاویل ہے
کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے اور نبی اکرم خود اور مولا علی کو جنبی حالت میں رہنے کا بلکہ مسجد میں بھی آنے کا کیسے کہہ سکتے ہیں ؟
اور جو تاویل کی ہے اس میں بھی مسجد میں ٹھہرنا پھر بھی جائز نہیں بلکہ گزرنا ثابت ہو سکتا ہے فقط
اور حدیث میں صریح لفظ ہیں :
يا علي لا يحل لأحد يجنب في هذا المسجد
یہاں فی ھذا مسجد ہے جسکا صاف صاف یہی مطلب ہے :
حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔
تو اسکی تاویل ممکن نہیں یہ روایت دوسری احادیث صحیحہ کے علاوہ قرآن کی نص کے بھی خلاف ہے
جو اس روایت کے منگھڑت ہونے کے لیے کافی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آتے ہیں اسکی سند کی طرف!!!
۱۔ محمد بن فضیل یہ ثقہ راوی ہے لیکن شیعہ راوی ہے
اور شیعہ ثقہ و صدوق راوی کے بارے تشویش ہوتی ہے جسکی تفصیل اگلی روایت کی تحقیق میں آئے گی
۲۔ سالم بن ابی حفظہ
اس راوی کے بارے امام ابن حجر کہتے ہیں :
صدوق فى الحديث إلا أنه شيعى غالى
صدوق ہے حدیث میں سوائے یہ کہ یہ غالی شیعہ تھا
(تقریب التہذیب)
اب اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ غالی شیعہ جو کہ تبرائی ہوتا ہے اسکا صدوق ہونا کا یہ مطلب بالکل نہیں ہوتا کہ اسکو مطلق قبول کیا جائے گا
بلکہ یہ عمومی روایات میں صدوق ہوتا ہے لیکن فضائل اہل بیت اور مذہب شیعت کے باب میں ایسا راوی ناقابل اعتبار ہوتا ہے بغیر معتبر متابعت کے
اب اس راوی کو امام ابن حجر نے صدوق حدیث روایت کے اعتبار سے کہا ہے اگر اسکی تفصیل دیکھی جائے تو ہماری بات میں وزن اور بڑھ جائے گا
امام ذھبی میزان الاعتدال میں اس راوی پر تفصیل لکھتے ہین :
قال الفلاس: ضعيف مفرط في التشيع.
وأما ابن معين فوثقه.
وقال النسائي:
ليس بثقة.
وقال ابن عدي: عيب عليه الغلو، وأرجو أنه لا بأس به.
افلاس کہتا ہے یہ ضعیف ہے اور شیعت میں غالی تھا بہت
ابن معین نے ثقہ قرار دیا
اور
نسائی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں ہے (متروک درجہ کی جرح ہے )
ابن عدی کہتے ہیں اس پر عیب اسکے غالی ہونے کی وجہ سے ہے میرا خیال ہے اسکی روایت میں کوئی حرج نہیں
اسکے بعد امام ذھبی کے غالی شیعت کے بارے نقل کرتے ہیں :
وقال محمد ابن بشر العبدي: رأيت سالم بن أبي حفصة ذا لحية طويلة أحمق بها من لحية، وهو يقول: وددت أنى كنت شريك علي عليه السلام في كل ما كان فيه.
الحميدي، حدثنا جرير بن عبد الحميد، قال: رأيت سالم بن أبي حفصة وهو يطوف بالبيت، وهو يقول: لبيك مهلك بنى أمية.
محمد بن بشر کہتے ہیں میں نے سالم بن ابو حفصہ کو دیکھا اسکی داڑھی لمبی تھی اور وہ ایک احمق شخص تھا
وہ یہ کہتا تھا میری خواہش ہے میں اور حضرت علی میں موجود ہر خوبی میں انکا حصہ دار بن جاوں
جریر بن عبدالحمید کہتا ہے میں نے سالم کو دیکھا وہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتا تھا : اے بنو امیہ ( حضرت عثمان ) کو ہلاک کرنے والے میں حاضر ہوں
اور یہ راوی حضرت عثمان کو یہودی کہتا تھا
وقال حسين بن علي الجعفي: رأيت سالم بن أبي حفصة طويل اللحية أحمق، وهو يقول: لبيك قاتل نعثل
حسین بن علی جعفی کہتا ہے میں سالم کو دیکھا یہ بڑے قد والا اور لمبی داڑھی ولا احمق تھا اور کہتا تھا یں نعثل (یہودی عثمان) کو قتل کروانے والی ذات کی بارگاہ میں حاضر ہوں
(استغفار)
(میزان الاعتدال )
اب ایسے خبیث راوی جو غالی ہو اور حضرت عثمان کا دشمن تک ہو انکو یہودی کہتا ہو تو کیا ایسے صدوق غالی بدعتی حرامی راوی کی روایت ردی کی ٹوکری میں پھینکی جائے یا اسکو لیا جائے ؟
اسکا فیصلہ سنی حضرات کو کرنا ہے
لیکن امام ذھبی نے ایسے راوی سے احتجاج نہ کرنے کا حکم دیا ہے
سالم بن أبي حفصة أبو يونس الكندي عن الشعبي وإبراهيم بن يزيد التيمي وعنه السفيانان وابن فضيل
شيعي لا يحتج بحديثه توفي
(الکاشف برقم : ۱۷۶۸)
۳۔ اگلا راوی عطیہ العوفی شیعہ مشہور ضعیف اور مدلس راوی ہے
عطية بن سعد بن جنادة العوفى الجدلى القيسى الكوفى ، أبو الحسن
ابن حجر کہتے ہیں کہ عدالت کے اعتبار سے صدوق ہے لیکن کثیر غلطیاں کرنے والا شیعہ مدلس راوی ہے
صدوق يخطىء كثيرا ، و كان شيعيا مدلسا
(تقریب )
اور امام ذھبی کہتے ہیں کہ اسکو ضعیف قرار دیا گیا ہے
ضعفوه
(الکاشف)
تو مذکوہ روایت متن کے اعتبار سے بھی منکر و باطل ہے اور سند بھی اسکی ضعیف جدا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور روایت سنن ترمزی سے پیش کی جاتی ہے کہ اللہ نبی اکرم کے زریعہ مولا علی سے کلام کرتا
حدثنا علي بن المنذر الكوفي، قال: حدثنا محمد بن فضيل، عن الأجلح، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا يوم الطائف ف انتجاه، فقال الناس: لقد طال نجواه مع ابن عمه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما انتجيته ولكن الله انتجاه.
هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث الأجلح.
وقد رواه غير ابن فضيل، أيضا عن الأجلح.
ومعنى قوله: ولكن الله انتجاه. يقول: إن الله أمرني أن أنتجي معه.
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
’’اس قول کا معنی کہ ’’بلکہ اﷲ نے ان سے سرگوشی کی‘‘ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے کان میں کچھ کہوں۔‘
روایت کی متن کی حیثیت!!!
سب سے پہلے تو اس روایت کے متن میں گڑ بڑ ہے کہ نبی اکرمﷺ صحابہ کرام کی کی موجودگی میں مولا علی کے کان میں سرگوشی کرتے رہیں
یہ امر نبی اکرمﷺ کے نزدیک بھی پنسدیدہ نہیں ہے جیسا کہ انکا اپنا فرمان مبارک ہے:
وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا كنتم ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون الآخر حتى تختلطوا بالناس من اجل ان ذلك يحزنه [متفق عليه واللفظ لمسلم]
اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم تین ہو تو دو آدمی تیسرے کے بغیر آپس میں سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جاؤ کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی
(متفقہ علیہ )
تو یہ روایت متن کے اعتبار سے بھی گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت کی اسنادی حیثیت!!!
۱۔ الاعرج أبو حجية الكندي الاجلح الكوفي الشيعي.
یہ ویسے تو صدوق ہے لیکن شیعہ راوی تھا
اور شیعوں سے فقط انکے مذہب کے علاوہ دوسرے باب میں روایت قبول ہوگی بس
کیونکہ شیعہ راوی کا تقیہ کرنے میں کوئی اعتبار نہیں ہوتا کہ کبھی بھی مولا علی کی شان میں روایت میں ایسے الفاظ ملا کر تدلیس کر دے کیونکہ اسکے نزدیک یہ تقیہ قابل ثواب ہے اور گناہ نہین جسکی وجہ سے عمومی طور پر شیعہ مطق راویان کی توثیق اسکو فائدہ نہیں دیگی بلکہ فضائل اہل بیت کی رویات میں شیعہ راویان کی روایات میں جب تک انکا کوئی معتبر متابع نہ ملے تو انکا تفرد خود ضعف کی نشانی ہے
اس پر تفصیل مثال کے ساتھ اوپر ایک شیعہ راوی کے ترجمہ میں پیش کی جا چکی ہے
۲۔ اسکا شیخ ابو زبیر
جسکا مکمل نام: محمد بن مسلم بن تدرس المكي أبو الزبير ہے
یہ راوی مشہور تھا تدلیس میں
جیسا کہ ابن حجر طقات المدلسین میں اسکو تیسرے درجہ کا مدلس قرار دیا ہے
المرتبة الثالثة
محمد بن مسلم بن تدرس المكي أبو الزبير من التابعين مشهور بالتدليس ووهم الحاكم في كتاب علوم الحديث فقال في سنده وفيه رجال غير معروفين بالتدليس وقد وصغه النسائي وغيره بالتدليس
(طبقات المدلسین)
اور مذکورہ روایت اس سے معنعنہ بیان کی ہے جسکی وجہ سے سندا یہ روایت غیر ثابت ہے
اور متن کے اعتبار سے یہ گھرڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے اسکا متن احادیث صحیحیہ کے خلاف ہے اور نبی اکرمﷺ کی طرف ایسا فعل منسوب کیا گیا ہے جس سے خود نبی اکرمﷺ نے روکا ہے
تو روایت گھڑنے والے نے مولا علی کے غلو میں نبی اکرمﷺ کی عزت کا خیال نہ رکھا
تحقیق: اسد الطحاوی