جب دین کی خاطر صحابہ کرام علیھم الرضوان پر دشمنوں کی طرف سے سخت آزمائشیں آئیں تو بارگاہِ اقدس میں عرض کرنے لگے :

حضور ! آپ ہمارے لیے مدد طلب کیوں نہیں کرتے ، ہمارے لیے اللہ ﷻ سے دعا کیوں نہیں مانگتے ؟
رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور ( دین پر چلنے کی پاداش میں ) اُسے اُس میں ڈال دیا جاتا ، پھر اُس کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے ، لیکن یہ عمل بھی اسے اپنے دین سے نہیں پھیرتا تھا ۔
پھر لوہے کی کنگھی اس کے گوشت میں دھنسا کر ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیری جاتی‌ لیکن یہ اذیت بھی اسے دین سے نہ ہٹا سکتی‌ ۔
( صحیح البخاری ، ر 3612 )
اللہ اکبر ! رسول اللہﷺ نے ہماری کس طرح تربیت فرمائی ہے ۔
حضور چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں آنے والی تکلیفوں سے گھبرا نہ جایا کریں ، بلکہ صبر اور برداشت سے کام لیا کریں ۔
ہم دین کے معاملے میں مضبوط اور بہادر بنیں ، سہل پسند نہ بنیں ۔
جب دین کا معاملہ آجائے تو حق پر ڈٹ جائیں پھر چاہے جیسی بھی تکلیف سے گزرنا پڑے ، ثابت قدم رہیں ؎
جے کر مِلے سجن دے ناں دا مِہنا جھولی پالَیِّے تے تَھلے سَٹیے ناں
جے کر مِلے سجن دے ناں دی سُولی تے جُھوٹا لَے لَیِّے پِچھاں ہٹیے ناں

✍️

لقمان شاہد