کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 18 رکوع 8 سورہ النور آیت نمبر 11 تا 20
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْؕ-لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْؕ-بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْؕ-لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِۚ-وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۱)
تو تمہارا پردہ کھول دیتا بےشک وہ کہ یہ بڑا بہتان لائے ہیں تمہیں میں کی ایک جماعت ہے (ف۱۵) اسے اپنے لیے بُرا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے (ف۱۶) ان میں ہر شخص کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا (ف۱۷) اور اُن میں وہ جس نے سب سے بڑا حصّہ لیا (ف۱۸) اس کے لیے بڑا عذاب ہے(ف۱۹)
(ف15)
بڑے بہتان سے مراد حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر تہمت لگانا ہے ۔ ۵ ہجری میں غزوۂ بنی المصطلق سے واپسی کے وقت قافلہ قریبِ مدینہ ایک پڑاؤ پر ٹھہرا تو اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ضرورت کے لئے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں وہاں ہار آپ کا ٹوٹ گیا اس کی تلاش میں مصروف ہو گئیں ، اُدھر قافلہ نے کوچ کیا اور آپ کا محمل شریف اُونٹ پر کَس دیا اور انہیں یہی خیال رہا کہ اُم المؤمنین اس میں ہیں ، قافلہ چل دیا آپ آ ۤکر قافلہ کی جگہ بیٹھ گئیں اور آپ نے خیال کیا کہ میری تلاش میں قافلہ ضرور واپس ہو گا، قافلہ کے پیچھے پڑی گر ی چیز اٹھانے کے لئے ایک صاحب رہا کرتے تھے اس موقع پر حضرت صفوان اس کام پر تھے جب وہ آئے اور انہوں نے آپ کو دیکھا تو بلند آواز سے ” اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ” پکارا آپ نے کپڑے سے پردہ کر لیا ، انہوں نے اپنی اُونٹنی بٹھائی آپ اس پر سوار ہو کر لشکر میں پہنچیں ۔ منافقینِ سیاہ باطن نے اوہامِ فاسدہ پھیلائے اور آپ کی شان میں بدگوئی شروع کی بعض مسلمان بھی ان کے فریب میں آ گئے اور ان کی زبان سے بھی کوئی کلمۂ بیجا سرزد ہوا ، اُم المومنین بیمار ہو گئیں اور ایک ماہ تک بیمار رہیں اس زمانہ میں انہیں اطلاع نہ ہوئی کہ ان کی نسبت منافقین کیا بَک رہے ہیں ایک روز اُمِ مسطح سے انہیں یہ خبر معلوم ہوئی اور اس سے آپ کا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمہ میں اس طرح روئیں کہ آپ کا آنسو نہ تھمتا تھا اور نہ ایک لمحہ کے لئے نیند آتی تھی اس حال میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازِل ہوئی اور حضرت اُم المؤمنین کی طہارت میں یہ آیتیں اتریں اور آپ کا شرف و مرتبہ اللہ تعالٰی نے اتنا بڑھایا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں آپ کی طہارت و فضیلت بیان فرمائی گئی اس دوران میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برسرِ منبر بقسم فرما دیا تھا مجھے اپنے اہل کی پاکی و خوبی بالیقین معلوم ہے تو جس شخص نے ان کے حق میں بدگوئی کی ہے اس کی طرف سے میرے پاس کون معذرت پیش کر سکتا ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ منافقین بالیقین جھوٹے ہیں اُم المؤمنین بالیقین پاک ہیں ، اللہ تعالٰی نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ پاک کو مکھی کے بیٹھنے سے محفوظ رکھا کہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو بدعورت کی صحبت سے محفوظ نہ رکھے ۔ حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی اس طرح آپ کی طہارت بیان کی اور فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑنے دیا تاکہ اس سایہ پر کسی کا قدم نہ پڑے تو جو پروردگار آپ کے سایہ کو محفوظ رکھتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ آپ کے اہل کو محفوظ نہ فرمائے ۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ایک جوں کا خون لگنے سے پروردگارِ عالم نے آپ کو نعلین اتار دینے کا حکم دیا جو پروردگار آپ کی نعلین شریف کی اتنی سی آلودگی کوگوارا نہ فرمائے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے اہل کی آلودگی گوارا کرے ۔ اس طرح بہت سے صحابہ اور بہت سے صحابیات نے قسمیں کھائیں ، آیت نازِل ہونے سے قبل ہی حضرت اُم المومنین کی طرف سے قلوب مطمئن تھے آیت کے نُزول نے ان کا عز و شرف اور زیادہ کر دیا تو بدگویوں کی بدگوئی اللہ اور اس کے رسول اور صحابۂ کِبار کے نزدیک باطل ہے اور بدگوئی کرنے والوں کے لئے سخت ترین مصیبت ہے ۔
(ف16)
کہ اللہ تبارک و تعالٰی تمہیں اس پر جزا دے گا اور حضرت اُم المؤمنین کی شان اور ان کی براءت ظاہر فرمائے گا چنانچہ اس براءت میں اس نے اٹھارہ آیتیں نازِل فرمائیں ۔
(ف17)
یعنی بقدر اس کے عمل کے کہ کسی نے طوفان اٹھایا ، کسی نے بہتان اٹھانے والے کی زبانی موافقت کی ، کوئی ہنس دیا ، کسی نے خاموشی کے ساتھ سن ہی لیا جس نے جو کیا اس کا بدلہ پائے گا ۔
(ف18)
کہ اپنے دل سے یہ طوفان گڑھا اور اس کو مشہور کرتا پھرا اور وہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق ہے ۔
(ف19)
آخرت میں ۔ مروی ہے کہ ان بہتان لگانے والوں پر بحکمِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حد قائم کی گئی اور اسی۸۰ اسی۸۰ کوڑے لگائے گئے ۔
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًاۙ-وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ(۱۲)
کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سُنا تھا کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا (ف۲۰) اور کہتے یہ کھلا بہتان ہے (ف۲۱)
(ف20)
کیونکہ مسلمان کو یہی حکم ہے کہ مسلمان کے ساتھ نیک گمان کرے اور بدگمانی ممنوع ہے ۔ بعضے گمراہ بے باک یہ کہہ کر گزرتے ہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاذ اللہ اس معاملہ میں بدگمانی ہو گئی تھی ، وہ مفتری کذّاب ہیں اور شانِ رسالت میں ایسا کلمہ کہتے ہیں جو مؤمنین کے حق میں بھی لائق نہیں ہے ۔ اللہ تعالٰی مؤمنین سے فرماتا ہے کہ تم نے نیک گمان کیوں نہ کیا تو کیسے ممکن تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدگمانی کرتے اور حضور کی نسبت بدگمانی کا لفظ کہنا بڑی سیاہ باطنی ہے خاص کر ایسی حالت میں جب کہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقسم فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میرے اہل پاک ہیں جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان پر بدگمانی کرنا ناجائز ہے اور جب کسی نیک شخص پر تہمت لگائی جائے تو بغیر ثبوت مسلمان کو اس کی موافقت اور تصدیق کرنا روا نہیں ۔
(ف21)
بالکل جھوٹ ہے بے حقیقت ہے ۔
لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَۚ-فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓىٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۳)
اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۚۖ(۱۴)
اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہو تی (ف۲۲) تو جس چرچے میں تم پڑے اُس پر تمہیں بڑا عذاب پہونچتا
(ف22)
اور تم پر فضل و کرم منظور نہ ہوتا جس میں سے توبہ کے لئے مہلت دینا بھی ہے اور آخرت میں عفو و مغفرت فرمانا بھی ۔
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا ﳓ وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ(۱۵)
جب تم ایسی بات اپنی زبانوں پر ایک دوسرے سے سن کر لاتے تھے اور اپنے منہ سے وہ نکالتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں اور اسے سہل سمجھتے تھے (ف۲۳) اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے (ف۲۴)
(ف23)
اور خیال کرتے تھے کہ اس میں بڑا گناہ نہیں ۔
(ف24)
جرمِ عظیم ہے ۔
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا ﳓ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ(۱۶)
اور کیوں نہ ہوا جب تم نے سُنا تھا کہا ہوتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں (ف۲۵) الٰہی پاکی ہے تجھے (ف۲۶) یہ بڑا بہتان ہے
(ف25)
یہ ہمارے لئے روا نہیں کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔
(ف26)
اس سے کہ تیرے نبی کی حرم کو فُجور کی آلودگی پہنچے ۔
مسئلہ : یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی نبی کی بی بی بدکار ہو سکے اگرچہ اس کا مبتلائے کُفر ہونا ممکن ہے کیونکہ انبیاء کُفّار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ جو چیز کُفّار کے نزدیک بھی قابلِ نفرت ہو اس سے وہ پاک ہوں اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری ان کے نزدیک قابلِ نفرت ہے ۔ (کبیر وغیرہ)
یَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۱۷)
اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ اب کبھی ایسا نہ کہنا اگر ایمان رکھتے ہو
وَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۱۸)
اور اللہ تمہارے لیے آیتیں صاف بیان فرماتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹)
وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا (ف۲۷) اور آخرت میں (ف۲۸) اور اللہ جانتا ہے (ف۲۹) اور تم نہیں جانتے
(ف27)
یعنی اس جہان میں اور وہ حد قائم کرنا ہے چنانچہ ابنِ اُبی اور حَسّان اور مِسْطَحْ کے حد لگائی گئی ۔ (مدارک)
(ف28)
دوزخ اگر بے توبہ مر جائیں ۔
(ف29)
دلوں کے راز اور باطن کے احوال ۔
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰)
اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تم پر نہایت مہربان مہروالا ہے تو تم اس کا مزہ چکھتے (ف۳۰)
(ف30)
اور عذابِ الٰہی تمہیں مہلت نہ دیتا ۔