ہر مدعئ ایمان سے اللہ تعالیٰ رب العالمین کے مطالبات ۔۔
ہر مدعئ ایمان سے اللہ تعالیٰ رب العالمین کے مطالبات ۔۔
اللہ تبارک و تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاندار و جاندار اسلوب میں مخاطب فرما کر ، آپ کے تین اوصاف جلیلہ شاھد ، و مبشر، و نذیر بیان فرمائے ۔ اس کے بعد ہر مدعئ عشق رسول سے
یہ مطالبات کیئے ہیں
گویا پہلے جتلایا کہ ان ممتاز اوصاف والے نبی کو تمہاری طرف اس لئے بھیجا ہے
🌹 لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
🌷 تا کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ، اور اس رسول کی تعظیم بجا لاؤ اور ان کے وقار کو مد نظر رکھو اور اللہ کی تسبیح صبح و شام بیان کرو۔
👈 ذرا غور کیجئے سورت الفتح کی اس آیت نمبر 9 میں الله تعالیٰ نے کل چار حقوق بیان فرمائے ہیں ۔
پہلا حق ، ایمان لانے کا حق الله اور رسول کے درمیان مشترک ہے ۔
اس کے بعد دو حقوق ” التعزير والتوقير،” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختص ہیں ۔ چوتھے اور آخری نمبر پر اپنے ساتھ مختص حق ” ہمہ وقتی تسبيح و تقديس کو بیان کیا ہے ۔
✍️ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختص دونوں حق بیان کرنے کے لئے صاحب حق کے بلند مرتبہ کے مناسب الفاظ اور صیغے استعمال فرمائے ۔
دونوں صریح امر کے صیغے ہیں جو وجوب کو لازم بتاتے ہیں اور الفاظ بھی علو شوکت اور وسعت معنی والے ہیں ۔
مدد کرنے کے لیئے لغت عرب میں معونت ، نصرت وغیرہا الفاظ موجود ہیں
لیکن فرمایا
( وَتُعَزِّرُوهُ ) جو کہ التعزير سے بنا ہے جو اس نصرت کا معنی دیتا ہے جو کسی کی تعظيم و تفخيم کی بناء پر کی جائے ۔ جو اس کی عزت و ناموس کے دفاع کے لیئے کی جائے ، جو اس کی ذات کی حفاظت اور ناہنجاروں کو اس سے دور رکھنے ، روکنے کے لئے کی جائے ۔
( وَتُوَقِّرُوهُ ) توقیر سے بنا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے وقار ( شایان شان مقام و مرتبہ ) کو
گفتار وکردار دونوں کے ساتھ برقرار رکھا جائے ۔
آخر میں ہمہ وقت مشغول تسبیح رہنے کا حکم فرما کر بتا دیا کہ شان نبوت و ناموس رسالت اور تسبیح و تحمید و تقدیس کچھ الگ الگ نہیں ۔
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہی آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
Ñ📌 اللّٰہ تبارک وتعالی پر ایمان اور صبح و شام اس کی تسبیح و تقدیس میں یہ درس بھی شامل ہیں کہ اللّٰہ پر ایمان رکھنے والوں ، اس کی تسبیح کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے لیئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونے دیا جائے ، 📌 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ جس دین کی تبلیغ، تعلیم ، نشر واشاعت میں آپ نے
کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، بعینہ انہی رہنما اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تن من دھن کی ہر کوشش کی جائے ۔
🌴 عام طور پر جس جذبہ کو محبت کہا جاتا ہے ، اس کا گرفتار بھی چاہتا ہے کہ ساری خدائی اس کے محبوب کے گن گائے ، اسی کے رنگ ڈھنگ میں رچ بس جائے ، سورج نکلے تو اس کے ساتھ ، ڈھلے تو اس کے ساتھ ، کائنات کا ہر نظارہ بس اس کے ساتھ ساتھ چلے ۔
تو دوستو ِ وہ رب اور اس کا رسول جو محبت و عقیدت و چاہت کے ہر پیمانے کے ڈھالنے والے ہیں ان کی محبت کو چار دانگ عالم میں پھیلانا کیا فطری اور منطقی تقاضا نہیں؟
ہاں ہے ، ہے اور بس یہی ہے