عورتوں کا بھنویں بنانا کیسا ہے
{عورتوں کا بھنویں بنانا کیساہے ؟}
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا۔اورجو کچھ تمہیں رسول دیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں روکیں باز رہو۔
تفسیر خازن ج۱ص۶۷۰ پر ہے کہ وھو عام فی کل ماأمربہ النبیﷺأونھی عنہ یعنی اس آیت کا حکم عام ہے ہر وہ چیز جس کا حضور ﷺحکم فرمائیں یا جس سے منع فرمائیں چونکہ بھنویں بنانا(تھریڈنگ) سے منع فرمایا لہٰذا (تھریڈنگ) بھنویں بنانے سے باز رہنا اورمونچھوں وغیرہ کے بال پست وصاف کرنا لازم وضروری ہے۔
حاشیہ محی الدین شیخ زادہ ج۷ص۶۴ ۱پر ہے أوجمیع مااٰتا کم بہ من الشرائع والأحکام فاقبلو افان الاٰیۃ والا نزلت فی أموال فنی فھی عامۃ فی جمیع ما أمر بہ النبی ﷺونھی عنہ یعنی وہ تمام جو تمہیں شرعی احکام رسول اللہ ﷺعطا فرمائیں تو وہ قبول کرلوپس یہ آیت اگر چہ اموال فئی (خراج وجزیہ) میں نازل ہوئی ہے مگر وہ عام ہے ہر اس چیز کے بارے میں جس کا حضور ﷺنے حکم فرمایا یااس سے روکا ہے ۔ اوراس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺنے عورتوں کو بھنویں بنانے سے روکا ہے اوران کو روکا ہے جو بھنویں بناکر دیں۔
بخاری شریف ج۲ص۸۷۹پر ہے کہ لعن عبداللّٰہ الواشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللّٰہ یعنی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے لعنت کی گود نے والیوں اوربال نوچنے والیوں اوردانتوں کو خوبصورتی کے لئے بنوانے والیوں پر جو تبدیل کرتی ہیں اللہ عزوجل کی خلقت کو ۔
پس حدیث مبارک سے بھی تھریڈنگ (بال نوچنا) ممنوع ثابت ہوا جس کی ایک وجہ توایذا جسمانی ہے اوردوسری وجہ مثلہ ہے یعنی انسانی خدوخال میں تبدیلی لانا جیسا کہ آگے آرہا ہے ۔
مُثلہ کیا ہے ؟}
مُثلہ یہ ہے کہ کسی عضو کو اتنا بگاڑ دینا یا کاٹ دینا کہ وہ عضو اپنی حالت اورہیئت پر برقرار نہ رہے یعنی تبدیل ہوجائے جیسا کہ آج کل عورتیں اپنی بھنوؤں کے بالوں کو جڑ سے اکھیڑ کر اپنے آپ کو خوبصورت بناتی ہیں۔
چنانچہ ہم اس سلسلے میں امام اہلسنّت مجدد اعظم الشاہ محمد احمد رضا خان محدث بریلوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ نقل کرتے ہیں جس سے مُثلہ مو کے عنوان پر خاطر خواہ روشنی پڑجاتی ہے اورمسئلہ مبرھن ومدلل ہو کرمنصہ شھود پر جلوہ گر ہوجاتاہے اوران لوگوں کا شک وشبہ بھی دور ہوجاتاہے جو خواہ مخواہ کسی پر الزام عائد کرتے ہیں یا بد گمان ہوتے ہیں۔
چنانچہ امام اہلسنّت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ طبرانی’’ معجم کبیر‘‘ میں بسند حسن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں مَنْ مَثَّلَ بِالشَّعْرِ فَلَیْسَ لَہٗ عِنْدَاللّٰہِ خَلَاقً جو بالوں کے ساتھ مُثلہ کرے اللہ عزوجل کے یہاں اس کا کچھ حصّہ نہیں والعیاذ باللہ رب العالمین یہ حدیث خاص مُثلہ مو میں ہے بالوں کا مُثلہ یہی ہے کہ جو کلمات آئمہ سے مذکور ہوا ہے کہ عورت سر کے بال منڈوالے یا مرد داڑھی خواہ عورت بھنوئیں منڈوائیں کما یفعلہ کفر ۃ الھند فی الحداد یا سیاہ خضاب کرے کما فی المنادی والعزیز ی ولخفی شروح الجامع الصغیر یہ سب صورتیں مُثلہ مو میں داخل ہیں اورسب حرام ہیں(فتاویٰ رضویہ شریف ج۱۰ ص۱۳۳) اورجب مُثلہ یہ ہے کہ بال بھنوؤں کے مونڈنا تواس مُثلہ سے بچنا لازم ہے کہ حدیث شریف میںمُثلہ کی مذمت وارد ہوئی مزید اس کی ممانعت اورمذمت حدیث پاک سے ذکر کی جاتی ہے چنانچہ احمد وبخاری حضرت عبداللہ بن زید اوراحمد وابوبکر بن شیبہ حضرت زید بن خالد اورطبرانی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے راوی نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺعَنِ النَّھْبَۃِ وَالْمُثْلَۃِ رسول اللہ ﷺنے لوٹ اور مُثلہ سے منع فرمایا ۔
اب ان آلات کو ملاحظہ فرمائیں جن سے تھریڈنگ (بھنوؤں کے ) بال نوچے جاتے ہیں اورایذا سے آنسو بہ پڑتے ہیں اورابرو کے اوپر نیچے سوجن واضح نمودار ہوجاتی ہے جس کے ازالے کے لئے کریم کا استعمال وغیرہ بھی کیا جاتاہے اورتو اوربعض ضعیف العمر خواتین بھی اس مخنثانہ فعل کاارتکاب کرتی ہیں جو شرعا بالکل ناجائز طریقہ زینت ہے ۔
طریقہ تھریڈنگ: (۱) دھاگہ (۲) چمٹی (۳) تھریڈرآلہ ۔
(۱) دھاگہ} دھاگے کے ذریعہ جیساکہ آج کل عام طو ر پر کیا جاتاہے کہ خاص دھاگے سے بھنوؤں کے بالوں کو ایک رگڑ سے نوچا جاتاہے یہاں تک کہ وہ بال رگڑ کی وجہ سے بھنوؤں سے غائب ہوجاتے ہیں ۔اسی طرح بھنوؤں کے بالوں کو باریک کردیا جاتاہے اورحسبِ ضرورت خواتین اسے اپنی خوبصورتی کے لئے موٹا یا باریک کرتی رہتی ہیں ۔اس عمل سے جو کہ بالوں کو جڑ سے اکھیڑنا ہے بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے ۔
(۲) چمٹی} چمٹی کے ذریعے سے بھی بھنوؤں کے بالوں کو نوچا جاتاہے ۔اوراس سے بھی حسبِ ضرورت خوبصورتی کے لئے باریک یا موٹی بھنویں بنائی جاتی ہیں اس طرح چمٹی کے ذریعے بالوں اکھیڑکراپنے لئے ایذا کاسامان کیاجاتاہے ۔
(۳) تھریڈر آلہ } اسی طرح ایک آلہ (تھریڈر) بھی دستیاب ہے جس کے ذریعے سے بالوں کو جلایا نوچا جاتاہے ۔
اس دور میں قابل افسوس بات یہ ہے کہ جگہ جگہ بیوٹی پالرز کھل چکے ہیں اورخواتین کی اکثریت ان بیوٹی پالرز میںجاکر تھریڈنگ (بھنویں بناتی ) کرواتی ہیں جو کہ شرعا ناجائز ہے البتہ اگر بھنوؤں کے بال کچھ بڑھ گئے اوربھدے وبرے معلوم ہوتے ہوں تواز خود یا پھر شوہر کے کہنے پر بھی ترشوا سکتی ہے ۔ یعنی پھر بھی بالوں کو جڑ سے نہیں اکھیڑ سکتی جیسا کہ دھاگہ وچمٹی سے اکھیڑ اجاتاہے ۔ جیسے کہ فتاویٰ شامی ج ۵ص۴۶۴ پر ہے کہ :
الخ ذکرہ فی الاختیار ایضاوفی المغرب النمص نتف الشعرومنہ المنما ص المتفاش اھو لعلہ محمول علی مااذا فعلتہ لتتزین للاجانب والا فلو کان فی وجھھا شعر ینفر زوجھا عنھا بسبہ ففی تحریم از التہ بعد لان الزینۃ للنساء مطلوبۃ للتحسین الا ان یحمل علی مالا ضرورۃ الیہ لما فی نتفۃ بالمنماص من الایذاء وفی تبیین المحارم ازالۃ الشعر من الوجہ حرام الا اذانبت للمراۃ لحیۃ او شوارب فلا تحرم ازالتہ بل تستحب اہ وفی التاتار خانیہ عن المضمرات ولا باس باخذا لحاجبین وشعر وجھہ مالم یشبہ المخنث اھو ومثلہ فی المجتبی تامل ۔
اورنامصہ ، اس کا اختیار میں بھی ذکر کیا گیا ہے اورمغرب میں ’’نمص‘‘ بال اکھیڑنا ہے اوراسی سے منماص ومنقاش (چمٹی ، نقش ونگار کے آلات) ہے اورہوسکتاہے وہ اس پر محمول ہوکہ جب عورت اجنبیوں کے لئے زینت کرے ورنہ تواگر اس کے چہرے پر بال ہوں جن سے اس کا شوہر نفرت کرے توا سکے ازالے کی تحریم میں بُعد (دوری) ہے اس لئے کہ زینت عورتوں کی خوبصورتی کے لئے مطلوب ہے مگر جب کہ وہ محمول ہواس پر کہ جس کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ بال اکھیڑنے والی چیز سے بال اکھاڑنے میں تکلیف حد سے زیادہ ہے اور’’تبیین المحارم ‘‘میں ہے کہ چہرے سے بال دور کرنا حرام ہے مگر جب کہ اگ آئے عورت کی داڑھی یا مونچھیں توان کا زائل کرنا حرام نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور’’مضمرات‘‘ سے ’’تاتارخانیہ ‘‘میںنقل کیا گیا ہے کہ اورکچھ برائی نہیں ہے دو نوں بھنوؤں کو لینے میں اور اس کے چہرے کے بال لینے میں جب تک کہ مخنث(ہیجڑا) کے مشابہ نہ ہوجائے اورا س کی مانند مجتبی میں ہے توغور وفکر کر۔
ترشوانا} بعض لوگ فتاویٰ شامی کی عبارت سے تسامح کا شکار ہوئے ہیں اورتھریڈنگ کو جائز جانا جو سراسر مفاہیم فقہ اورتصریحات فقہاء کے منافی ہے اورتسامح کا شکار لفظ اخذ سے ہوئے ہیں کہ چونکہ عبارت میں اخذ ہے یعنی بال نوچنے کی اجازت ہے اورتھریڈنگ کی اجازت ہے حالانکہ اخذ کے معنی نوچنا کسی لغت کی کتاب سے ثابت نہیں بلکہ اس کے معنی لینا ہے چنانچہ المنجد ص۴۹ پر ہے اخذ، اخذاً،وانما تبتنی الاحکام الفھیۃ علی الغالب فلا بنظر الی النادر ولا یحکم الابالمنع کما افادہ المحقق فی الفنح فی مسئلۃ محاورۃ الحرم وفی الدر فی مسئلہ الحمام
لینا اورفیروز اللغات ص۱۰ پر ہے اخذ، اخذاً ، پکڑنا اورمصباح اللغات ص ۲۹ پر ہے اخذ، اخذاً، لینا پس ثابت ہوا کہ تما م کتب لغات سے اخذکے معنی لینا اورپکڑنا ہی ثابت ہیں بال نوچنا اوراکھیڑنا ثابت نہیںہیں پھر لینا کیا ہے توا س کا معنی جامع اردو فیروز اللغات ص ۱۱۷۶ پر ہے (۱) پکڑنا (۲) گرفت کرنا(۳) حاصل کرنا(۴) اخذ کرنا۔
بال نوچنا اوراکھیڑنا یہاں بھی ثابت نہیںہیں پس اخذ کے معنی بال نوچنا یا اکھیڑ نا سمجھنا بہت دور کی بات ہے اور خلاف قیاس ہے پھر فتاویٰ شامی کی اس عبارت کا ترجمہ جو صدر الشریعت معتمد اعلی حضرت امام الفقہ سیدی وسندی مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے اس سے بھی ہماری تائید ہوجاتی ہے کہ اخذ کے معنی لینا اورتراشنا ہیں نہ کہ نوچنا اوراکھیڑنا ۔ چنانچہ بہار شریعت سولہویں حصّے میں ہے ۔
بھنوؤں کے بال اگر بڑے ہوگئے توان کو ترشواسکتے ہیں چہر ہ کے بال مونڈ لینا بھی جائز ہے جس کو خط بنوانا بھی کہتے ہیں ۔ سینہ اورپیٹھ کے بال مونڈنا یا کتروانا اچھا نہیں ہاتھ پاؤں پیٹ پر سے بال دور کرسکتے ہیں۔ (ردالمختار)
توجن عورتوں نے بھنویں نوچیں یا نچوائیں یا نچوانے کو کہا اسی طرح شوہر نے اپنی بیوی سے کہا ایسے لوگ سراسر حکم الہٰیہ وحکم مصطفویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی صریح اورکھلم کھلا مخالفت کے سزا وار ہو چکے ہیں اب ان پر ازروئے قرآن پاک وحدیث رسول توبہ اور استغفار لازمی ہے کہ وہ اپنے اس کردہ گناہ کی معافی مانگیں اوررسول اللہ ﷺکاوسیلہ طلب کریں تاکہ اللہ عزوجل کی بارگاہ سے معافی کے حقدار ہوں بے شک اللہ کریم معاف فرمانے والا اور توبہ قبول فرمانے والاہے ۔