مولا علیؓ کا نبی اکرم کی وفات کے بعد امت کا بہترین دور حضرت ابوبکر و عمر کی خلافت کا قرار دینا

تحریر: اسد الطحاوی

امام الآجری اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں :

أنبأنا أبو القاسم إبراهيم بن الهيثم الناقد قال: حدثنا أبو عبد الرحمن عبد الله بن عمر الكوفي قال: حدثنا عبد الله بن نمير , عن عبد الملك بن سلع الهمداني , عن عبد خير قال:

سمعت علي بن أبي طالب , رضي الله عنه يقول: قبض الله نبيه صلى الله عليه وسلم على خير ملة قبض عليها نبي من الأنبياء. قال: وأثنى عليه , ثم استخلف أبو بكر رضي الله عنه فعمل بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وبسنته ثم قبض أبو بكر على خير ما قبض الله عز وجل عليه أحدا , وكان خير هذه الأمة بعد نبيها صلى الله عليه وسلم , ثم استخلف عمر رضي الله عنه فعمل بعملهما وسنتهما ثم قبض عمر على خير ما قبض عليه أحد , وكان خير هذه الأمة بعد نبيها وبعد أبي بكر

حضرت عبداللہ خیر بیان کرتے ہیں :

میں نےحضرت علیؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کو اللہ نے وفات دی تو کسی بھی نبی کو اس کی امت کی اتنی اچھی صورت ھال میں وفات نہیں دی گئی تھی جو نبی اکرمﷺ کو دی گئی ۔ راوی کہتا ہے پھر نبی اکرمﷺ کی تعریف بیان کی حضرت علی نے

پھر بیان کیا کہ آپﷺ کے بعد حضرت ابو بکرؓ آپﷺ کے جانشین بنے، انہوں نے نبی اکرمﷺ کے طریقوں اور سنت کے مطابق عمل کیا پھر حضرت ابو بکر ؓ کا جب انتقال ہوا تو اس وقت حالت سب سے بہتر تھی جو کسی کی بھی ہو سکتی تھی اور نبی اکرمﷺ کے بعد اس امت کے سب سے بہترین فرد تھے پھر حضرت عمرؓ ان کے جانشین بنے ، انہوں نے ان دونوں حضرات کے طریقہ اور سنت پر عمل کیا ، پھر جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو سب سے اچھی حالت میں ہوا جو کسی بھی شخص کی سب سے اچھی حالت ہو سکتی ہے اور وہ نبی اکرمﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے بعد اس امت کے سب سے بہترین فرد تھے

(الشریعہ برقم : 1804)

اس روایت کے چند اہم نکات!

۱۔ اس روایت میں تصریح سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہ و حضرت ابو بکر صدیق میں باغ دفک کے معاملے پر مولا علی کا فیصلہ حضرت ابو بکر صدیق کے مواقف تھا تبھی انکو نبی اکرم کی سنت کے مطابق عمل کرنے والا بیان کیا اور اپنےدور خلافت میں بھی حضرت علی نے باغ فدک کو ویسا ہی رکھا

۲۔ مولا علی نے ابو بکر صدیق کو امت محمدی کے تقابل کرتے ہوئے سب سے افضل قرار دیا

۳۔ مولاعلی نے اپنے بعد حضرت عمر کو امت کا سب سے بہترین آدمی قرا دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سند کے رجال کا مختصر تعارف!

۱۔ پہلا راوی : أبو القاسم إبراهيم بن الهيثم الناقد

امام ذھبی انکی توثیق نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قال الخطيب: قد روى حديث الغار عن الهيثم جماعة. وإبراهيم عندنا ثقة ثبت.

وقال الدارقطني: ثقة.

(تاریخ الاسلام ، برقم: 94)

۲۔ دوسر اراوی: حدثنا أبو عبد الرحمن عبد الله بن عمر الكوفي

امام ذھبی انکی توثیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :

المحدث، الإمام، الثقة، أبو عبد الرحمن عبد الله بن عمر بن محمد بن أبان بن صالح بن عمير القرشي،

(سیر اعلام النبلاء، برقم : 60)

۳۔ تیسرا راوی : عبد الله بن نمير أبو هشام الهمداني

امام ذھبی انکی توثیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :

الحافظ، الثقة، الإمام، أبو هشام الهمداني، الخارفي

(سیر اعلام النبلاء ، برقم : 70)

۴۔ چوتھا راوی : عبد الملك بن سلع الهمداني

امام ابن حجر انکی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

صدوق،(تقریب التہذیب برقم : 4183)

نیز امام دارقطنی بھی انکی توثیق مروی ہے(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله، برقم: 2227)

۵۔پانچواں راوی : عبد خير بن يزيد

ابن حجر عسقلانی الاصابہ میں انکو درج کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں انہوں نے دور جہالت میں نبی اکرمﷺ کا ادارک کیا تھا اور خلفائے راشدین سمیت متعدد صھابہ سے انکا سماع ہے انکو امام ابن معین ، امام احمد وغیرہم نے ثقہ قرار دیا ہے

أدرك الجاهلية قال الخطيب: يقال اسمه عبد الرحمن.

قلت: ولعله غيّر في الإسلام.

وقال أبو عمر: أدرك زمن النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم، ولم يسمع منه.

روى عبد خير عن أبي بكر الصديق، وعن ابن مسعود، وعلي، وكان من كبار أصحابه، وعن عائشة وغيرهم.

روى عنه ابنه المسيب، والشّعبي، وأبو إسحاق السبيعي، وعبد الملك بن سلع، وعلقمة بن مرثد، والحكم، وعطاء بن السائب، وآخرون.

وذكره أحمد بن حنبل في الأثبات عن عليّ ووثّقه ابن معين، والنسائي، والعجليّ، وذكره مسلّم في الطبقة الأولى من التابعين.

(الإصابة في تمييز الصحابة، برقم: 6380)

اس تحقیق سے معلوم ہوا اس روایت کی سند صحیح ہے

اللہ ہم کوکل صحابہ باشمول مولا علی کے عقیدے پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور مولاعلی کے غلو اور انکے بغض سے ہمارے سینوں کو پاک رکھے

اور عقیدہ اہلسنت جس میں اجماع صحابہ و تابعین اور ائمہ اربعہ و مجتہدین اور متقدمین سے متاخرین تک محدثین ، مفسرین ، شارحین و فقھاء کرام داخل ہیں ہمکو بھی انکے ساتھ اسی عقیدے پر موت دے

کہ نبی اکرمﷺ کے بعد افضل بعد از انبیاء حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں اور پھر حضرت عمر ؓ ہیں

اور ان گمراہ تفضیلیوں جنکی عقل کی مت ماری گئی ہے انکو بھی ہدایت عطاء فرما کہ جہاں پوری امت ، صحابہ ، تابعین ، مجتہدین شامل ہیں کہ یہ لوگ ان ائمہ دین کے فہم ، اور فیصلہ اور اہلسنت کے اجماع کے مقابل اپنی چھوٹی سی عقل کو عقل کل نہ سمجھیں اور یہ دعویٰ کرنے سے توبہ کر لیں کہ اہلسنت مولا علیؓ کا اصل مقام نہ سمجھ سکی لیکن یہ نادان لوگ سمجھ گئے

دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلوینبی اکرمﷺ کو مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟

تحریر : اسد الطحاوی

شیخین نے صحیحین میں متفقہ علیہ روایت کیا ہے :

عن أبي عثمان قال : حدّثني عمرو بن العاص رضي الله عنه : أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم بعثه علٰي جيش ذات السّلاسل، فأتيته فقلت : ’’أيّ النّاس أحبّ إليک؟‘‘ قال : ’’عائشة‘‘. فقلت : ’’من الرّجال؟‘‘ فقال : ’’أبوها‘‘ قلت : ثمّ من؟ قال : ’’عمر بن الخطّاب‘‘ فعدّ رجالا.

حضرت ابو عثمان رضي اللہ عنہ سے مروی ہے : کہ مجھے حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے غزوہ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا : جب واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوا۔

’’لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس کے ساتھ ہے؟‘‘

تو ارشاد فرمایا۔ ’’عائشہ رضی اﷲ عنھا کے ساتھ۔‘‘ میں نے پھر عرض کی ’’مردوں میں سے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اُن کے والد ( ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ۔‘‘

میں نے عرض کی، پھر اُن کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے ساتھ‘‘۔ اور پھر اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لئے

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم کو مطلق سب سے زیادہ محبت مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق سے تھی

اور پھر حضرت عمر فاروقؓ سے تھی

اسکے بعد بھی وہی ترتیب ہے جو ترتیب خلافت بنی یہی نبی اکرمﷺ کا معجزہ تھا

اسکے مقابل شیعہ راویان بھی ایک بظاہر منکر روایت بیان کرتے ہیں جسکو امام نسائی نے اپنی سنن الکبریٰ میں روایت کیا ہے :

(أخبرنا) احمد بن شعيب ، قال : اخبرني زكريا بن يحيى ، قال : اخبرنا ابراهيم بن سعد قال : حدثنا شاذان ، عن جعفر الاحمر ، عن عبد الله ابن عطاء عن ابن بريدة ، قال : جاء رجل إلى ابي فسأله اي الناس كان احب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال : من النساء فاطمة ، ومن الرجال علي رضي الله عنه

(خصائص علی للنسائی ص 110)

عبداللہ بن عطاء ابن بریدہ سے بیان کرتا ہے کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور پوچھا آپ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا عورتوں میں فاطمہؓ سے

اور

مردوں میں علیؓ سے

اسکی سند میں ضعف ہیں :

اس میں شیعہ راوی جعفر بن زیاد الاحمر ہے صدوق درجے کا

یہ بخاری ک ی روایت کے مقابل

اس لیے امام ابن حبان کہتے ہیں کہ جب یہ ثقات سے روایت میں منفرد ہوتا ہے تو اسکے متعلق میرے دل میں شک ہے

روى عَن الثِّقَات تفرد عَنْهُم بأَشْيَاء فِي الْقلب مِنْهَا

(الثقات ابن حبان)

اور امام ابن عدی اس پر جرح خاص کرتے ہوئے کہتے ہیں :

وجعفر الأحمر له أحاديث يرويه عَنْهُ غير أهل الكوفة غير ما ذكرته، وَهو يروي شيئا من الفضائل، وَهو فِي جملة متشيعة الكوفة، وَهو صَالِح فِي رواية الكوفيين

کہ جعفر جو احادیث غیر اہل کوفہ ے بیان کرتا ہے جسکا میں نے ذکر کیا ہے جو کہ فضائل میں کچھ مروی ہیں یہ کوفہ کے شیعوں میں سے ایک تھا

اور یہ (صرف) کوفین سے روایت کرنے میں صالح ہے

(الکامل فی ضعفاء الرجال )

اس روایت کا ایک اور شاہد بھی ہے لیکن اس میں بھی شیعہ راوی ابو اسحاق السبیعی ہے اور مدلس ہے چوتھے درجہ کا

تو اس سے مل کر یہ روایت حسن لغیرہ بن جاتی ہے لیکن اسکے طریق میں شیعہ راوی ضرور ہیں

اگر ان روایات میں تطبیق دی جائے تو یہ روایت حسن لغیرہ بنتی ہے اور اگر بظاہر اختلاف دیکھا جائے تو یہ روایت منکر بنتی ہے صحیحین کی روایت کے

ان دو روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ

نبی اکرمﷺ اپنے خاندان میں عورتوں میں سب سے زیادہ محبت بی بی فاطمہؓ اور مردوں میں مولا علی سے کرتے تھے

اور

اور مطلق امت میں اہلبیت سمیت سب سے زیادہ محبت عورتوں میں حضرت اماں عائشہ سے کرتے تھے

اور مردوں مین مطلب محبت اہلبیت سمیت سب سے زیادہ حضرت ابو بکر صدیق سے کرتے تھے

اور یہی اہلسنت کا موقف ہے

اسکی وجہ سے صدیق اکبر کو افضل بعد از انبیاء کہاجاتا ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے منظور نظر سب سے زیادہ تھے اور تبھی نبی اکرم کے پہلے خلیفہ بر حق بنے

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی