یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۱)

اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بُری ہی بات بتائے گا (ف۳۱) اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں کوئی بھی کبھی ستھرا نہ ہوسکتا (ف۳۲) ہاں اللہ ستھرا کردیتا ہے جسے چاہے (ف۳۳) اور اللہ سُنتا جانتا ہے

(ف31)

اس کے وسوسوں میں نہ پڑو اور بہتان اٹھانے والوں کی باتوں پر کان نہ لگاؤ ۔

(ف32)

اور اللہ تعالٰی اس کو توبہ و حُسنِ عمل کی توفیق نہ دیتا اور عفو و مغفرت نہ فرماتا ۔

(ف33)

توبہ قبول فرما کر ۔

وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﳚ-وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)

اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے (ف۳۴) اور گنجائش والے ہیں (ف۳۵) قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزریں کیا تم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (ف۳۶)

(ف34)

اور منزلت والے ہیں دین میں ۔

(ف35)

ثروت و مال میں ۔

شانِ نُزول : یہ آیت حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں نازِل ہوئی ، آپ نے قسم کھائی تھی کہ مِسۡطح کے ساتھ سلوک نہ کریں گے اور وہ آپ کی خالہ کے بیٹے تھے نادار تھے ، مہاجر تھے ، بدری تھے ، آپ ہی ان کا خرچ اٹھاتے تھے مگر چونکہ اُم المؤمنین پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ انہوں نے موافقت کی تھی اس لئے آپ نے یہ قسم کھائی ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی ۔

(ف36)

جب یہ آیت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا بے شک میری آرزو ہے کہ اللہ میری مغفرت کرے اور میں مِسطَح کے ساتھ جو سلوک کرتا تھا اس کو کبھی موقوف نہ کروں گا چنانچہ آپ نے اس کو جاری فرما دیا ۔

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی کام پر قَسم کھائے پھر معلوم ہو کہ اس کا کرنا ہی بہتر ہے تو چاہیئے کہ اس کام کو کرے اور قسم کا کَفّارہ دے ، حدیثِ صحیح میں یہی وارد ہے ۔

مسئلہ : اس آیت سے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی اس سے آپ کی علوئے شان و مرتبت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو اُولوالفضل فرمایا اور ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ(۲۳)

بےشک وہ جو عیب لگاتے ہیں انجان (ف۳۷) پارسا ایمان والیوں کو (ف۳۸) ان پر لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے (ف۳۹)

(ف37)

عورتوں کو جو بدکاری اور فجور کو جانتی بھی نہیں اوربرا خیال ان کے دل میں بھی نہیں گزرتا اور ۔

(ف38)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کے اوصاف ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ا س سے تمام ایماندار پارسا عورتیں مراد ہیں ، ان کے عیب لگانے والوں پر اللہ تعالٰی لعنت فرماتا ہے ۔

(ف39)

یہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق کے حق میں ہے ۔ (خازن)

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)

جس دن (ف۴۰) ان پر گواہی دیں گی اُن کی زبانیں (ف۴۱) اور اُن کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے

(ف40)

یعنی روزِ قیامت ۔

(ف41)

زبانوں کا گواہی دینا تو ان کے مونہوں پر مُہریں لگائے جانے سے قبل ہوگا اور اس کے بعد مونہوں پرمُہریں لگا دی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہو جائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گی اور دنیا میں جو عمل کئے تھے ان کی خبر دیں گے جیسے کہ آگے ارشاد ہے ۔

یَوْمَىٕذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ(۲۵)

اس دن اللہ انہیں ان کی سچی سزا پوری دے گا (ف۴۲) اور جان لیں گے کہ اللہ ہی صَرِیح حق ہے (ف۴۳)

(ف42)

جس کے وہ مستحق ہیں ۔

(ف43)

یعنی موجود ظاہر ہے اسی کی قدرت سے ہر چیز کا وجود ہے ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ معنٰی یہ ہیں کہ کُفّار دنیا میں اللہ تعالٰی کے وعدوں میں شک کرتے تھے ، اللہ تعالٰی آخرت میں انہیں ان کے اعمال کی جزا دے کر ان وعدوں کا حق ہونا ظاہر فرما دے گا ۔

فائدہ : قرآنِ کریم میں کسی گناہ پر ایسی تغلیظ و تشدید اور تکرار و تاکید نہیں فرمائی گئی جیسی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے اوپر بہتان باندھنے پر فرمائی گئی ، اس سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِفعتِ منزلت ظاہر ہوتی ہے ۔

اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ-وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِۚ-اُولٰٓىٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠(۲۶)

گندیاں گندوں کے لیے اور گندے گندیوں کے لیے (ف۴۴) اور ستھریاں ستھروں کے لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے وہ (ف۴۵) پاک ہیں اُن باتوں سے جو یہ (ف۴۶) کہہ رہے ہیں اُن کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے (ف۴۷)

(ف44)

یعنی خبیث کے لئے خبیث لائق ہے ، خبیثہ عورت خبیث مرد کے لئے اور خبیث مرد خبیثہ عورت کے لئے اور خبیث آدمی خبیث باتوں کے درپے ہوتا ہے اور خبیث باتیں خبیث آدمی کا وطیرہ ہوتی ہیں ۔

(ف45)

یعنی پاک مرد اور عورتیں جن میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور صفوان ہیں ۔

(ف46)

تہمت لگانے والے خبیث ۔

(ف47)

یعنی ستھروں اور ستھریوں کے لئے جنّت میں ۔ اس آیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا کمال فضل و شرف ثابت ہوا کہ وہ طیِّبہ اور پاک پیدا کی گئیں اور قرآنِ کریم میں ان کی پاکی کا بیان فرمایا گیا اور انہیں مغفرت اور رزقِ کریم کا وعدہ دیا گیا ۔ حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اللہ تعالٰی نے بہت خصائص عطا فرمائے جو آپ کے لئے قابلِ فخر ہیں ، ان میں سے بعض یہ ہیں کہ جبریلِ امین سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں ایک حریرپر آپ کی تصویر لائے اور عرض کیا کہ یہ آپ کی زوجہ ہیں اور یہ کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے سوا کسی کنواری (باکرہ) سے نکاح نہ فرمایا اور یہ کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات آپ کی گود میں اور آپ کی نوبت کے دن ہوئی اور آپ ہی کا حجرہ شریفہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آرام گاہ اور آپ کا روضۂ طاہرہ ہوا اور یہ کہ بعض اوقات ایسی حالت میں حضور پر وحی نازِل ہوئی کہ حضرت صدیقہ آپ کے ساتھ آپ کے لحاف میں ہوتیں اور یہ کہ آپ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر ہیں اور یہ کہ آپ پاک پیدا کی گئیں اور آپ سے مغفرت و رزقِ کریم کا وعدہ فرمایا گیا ۔