میری تمنا رہی کہ اللہ میری عمر بھی سیدنا معاویہ ؓ کو لگا دے

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

امام أبو عروبة الجَزَري الحرَّاني (المتوفى: 318هـ) اپنی تصنیف ”المنتقى من كتاب الطبقات” میں ایک روایت بیان کرتے ہیں :

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، وَهِلَالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَثْمَةَ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا زَالَ بِي مَا رَأَيْتُ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ فِي الْفِتْنَةِ، حَتَّى إِنِّي لَأَتَمَنَّى أَنْ يَزِيدَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُعَاوِيَةَ مِنْ عُمْرِي فِي عُمْرِهِ»

سیدہ عائشہؓ نے فرمایا : میں نے فتنے کے دور میں لوگوں کا جو معاملہ دیکھا اس میں ہمیشہ سے میری تمنا رہ کہ اللہ عزوجل میری عمر بھی سیدمعاویہؓ کو لگا دے

(المنتقى من كتاب الطبقات ، ص ۴۱)

مصنف کا تعارف و توثیق:

امام ذھبی سیر اعلام میں انکا تعارف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أبو عروبة الحسين بن محمد بن مودود السلمي *

الإمام، الحافظ، المعمر، الصادق، أبو عروبة الحسين بن محمد بن أبي معشر مودود السلمي، الجزري، الحراني، صاحب التصانيف.

ولد: بعد العشرين ومائتين.

وله: كتاب (الطبقات) ، وكتاب (تاريخ الجزيرة) سمعناه.

یہ امام حافظ ، صادق صاحب تصانیف ہیں انکی کتب میں طبقات(المنتقی) اور تاریخ الجزیرہ ہے جو کہ ہم نے سماعت کی ہیں

پھر محدثین سے انکی توثیق نقل کرتے ہیں :

قال ابن عدي: كان عارفا بالرجال وبالحديث، وكان مع ذلك مفتي أهل حران، شفاني حين سألته عن قوم من المحدثين.

امام ابن عدی کہتے ہیں : کہ یہ رجال کے علم کی معرفت رکھنے والے تھے اور حدیث کے علم کی بھی ۔ یہ حران کے علاقے کے مفتی تھے

وقال أبو أحمد الحاكم في (الكنى) :أبو عروبة الحسين بن محمد بن مودود بن حماد السلمي، سمع: عبد الرحمن بن عمرو البجلي، وأبا وهب بن مسرح، وكان من أثبت من أدركناه، وأحسنهم حفظا، يرجع إلى حسن المعرفة بالحديث، والفقه، والكلام

امام حاکم الکبیر اپنی کتاب (الکنی) میں کہتے ہیں :

ابو عروبہ یہ ان سب لوگوں میں سب سے زیادہ ثقہ یعنی ثبت تھے جنکا میں نے ادراک کیا ہے ۔ یہ اچھے حافظہ والے تھے ۔ اور حدیث کی اچھی معرفت رکھنے والے تھے اسکے ساتھ ، فقہ اور علم کلام کی بھی

وقد ذكره أبو القاسم ابن عساكر في ترجمة معاوية، فقال:

كان أبو عروبة غاليا في التشيع، شديد الميل على بني أمية.

امام ابن عساکر حضرت معاویہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ یہ ابو عروبہ تشیع میں غالی تھا اور بنو امیہ سے شدید تعصب رکھتا تھا

اسکا رد کرتے ہوئے امام ذھبی کہتے ہیں :

قلت: كل من أحب الشيخين فليس بغال

میں کہتا ہوں کہ ہر شخص جو (حضرت ابو بکر و عمر) سے محبت رکھنے والا ہو غالی نہیں ہو سکتا۔

(سیر اعلام النبلاء ، رقم : 285)

سند کے رجال کا تعارف!

پہلا راوی : هلال بن بشر بن محبوب المزني، أبو الحسن البصري،

امام ابن حجر انکی توثیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

إمام مسجد يونس الأحدب: ثقة،

(تقریب التہذیب برقم : 7329)

دوسراراوی: محمد بن خالد بن عثمة، ويقال: إنها أمه، الحنفي البصري

امام احمد انکی توثیق کرتے ہیں :

قال عبد الله بن أحمد: قلت لأبي: محمد بن خالد بن عثمة، قال: ما أرى به بأسًا.

(العلل برقم : 5935)

نیز امام مزی متعدد محدثین سے بھی انکی توثیق نقل کی ہے

وَقَال أَبُو زُرْعَة: لا بأس به.

وَقَال أَبُو حاتم : صالح الحديث.

وذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب “الثقات” وَقَال: ربما أخطأ

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال: 5179)

تیسرا راوی : سليمان بن بلال القرشي التيمي مولاهم

امام ذھبی انکی توثیق نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وثقه: أحمد، وابن معين، والنسائي.

قال أحمد بن حنبل: لا بأس به، ثقة.

وقال يحيى بن معين: هو أحب إلي من الدراوردي.

وقال محمد بن سعد: كان بربريا، جميلا، حسن الهيئة، عاقلا، وكان يفتي بالمدينة، وولي خراجها ، وكان ثقة، كثير الحديث.

(سیر اعلام النبلاء برقم : 159)

چوتھا راوی : علقمة بن أبي علقمة بلال المدني

امام ذھبی انکی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

مولى عائشة

كان ثقة يعلم العربية. روى عن أمه مرجانة، وأنس بن مالك، والأعرج.

وعنه: مالك، وسليمان بن بلال، وعبد العزيز الدراوردي، وجماعة.

وثقه ابن معين

(تاریخ الاسلام رقم : 201)

پانچویں راویہ : انکی والدہ مرجانہ ہیں

امام ابن حجر نے انکو تقریب میں مقبولہ کہا ہے جو کہ لین ہوتا ہے انکے منہج کے مطابق لیکن بعد والے محدثین و محققین نے علامہ ابن حجر کی یہ بات رد کی ہے کیونکہ تحقیق کے مطابق یہ راویہ حسن الحدیث سے درجہ سے بالکل کم نہیں ہیں

اسکی بنیادی وجہ بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی ان پر توثیق صرف امام ابن حبان کے تعلق سے جانتے تھے

جیسا کہ وہ تہذیب میں انکے بارے لکھتے ہیں :

ي د ت س – مرجانة” والدة علقمة تكنى أم علقمة روت عن معاوية وعائشة وعنها ابنها علقمة ذكرها بن حبان في الثقات قلت روى عنها أيضا بكير بن الأشج وعلق لها البخاريوسيأتي ذلك في ترجمتها في الكنى.

(تہذیب التہذیب : 2891)

امام ابن حجر عسقلانی نے انکے دو تلامذہ کا ذکر کیا ہے اور بخاری کے حوالے سے بھی انکا روایت لینا بیان کیا ہے اور توثیق میں فقط ابن حجر عسقلانی کو ذکر کیا ہے

اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ امام ذھبی نے بھی میزان میں انکے بارے اپنی لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :

لا يعرف

(میزان الاعتدال )

جبکہ الکاشف میں امام ذھبی نے انکی توثیق کر رکھی ہے

مرجانة عن عائشة ومعاوية وعنها علقمة بن أبي علقمة س وثقت

(الکاشف ، برقم : 7076)

امام عینی انکے بارے فرماتے ہیں :

مرجانة: والدة علقمة بن أبى علقمة روت عن معاوية بن أبى سفيان وعائشة أم المؤمنين، روى ابنها علقمة بن أبى علقمة، ذكرها ابن حبان فى الثقات، روى لها البخارى فى كتاب رفع اليدين فى الصلاة، وأبو داود، والترمذى، والنسائى، وأبو جعفر الطحاوى.

(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار، برقم : 4295)

امام عجلی نے بھی انکی صریح توثیق کر رکھی ہے :

أم علقمة: “مدنية”، تابعية، ثقة.

(الثقات العجلی ، برقم : 2115)

امام عینی نے بھی ابن حزم سے انکی توثیق نقل کی ہے

وَقَالَ ابْن حزم: خولفت أم عَلْقَمَة بِمَا هُوَ أقوي من رِوَايَتهَا، وَاسم: أم عَلْقَمَة، مرْجَانَة

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، جلد ، ۳ ،ص۲۹۷)

اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں صیغۃ جزم سے ان سے روایت بیان کی ہے جو کہ انکے نزدیک ثابت ہوتی ہے اور امام مالک نے موطا میں بھی ان سے روایت لی ہے

یہی وجہ ہے علامہ شعیب الارنووط نے بھی یہی کہہ کر اختلاف کیا ہے امام ابن حجر سے

مرجانة، والدة علقمة، تكنى أم علقمة، علق لها البخاري في الحيض (1): وهي مقبولة، من الثالثة. ي د ت س.

• بل: صدوقة حسنة الحديث، فقد روى عنها ابنها علمة، وبكير بن الأشج، وعلق لها البخاري في “صحيحه” بصيغة الجزم في الصيام: باب الحجامة والقيء للصائم، ووصله في “تاريخه الكبير” 2/ 180، وقال العجلي: مدنية تابعية ثقة، وذكرها ابن حبان في “الثقات” وهي من رواة “الموطأ” ومولاة عائشة.

(تحریر تقریب التہذیب : 8680)

اس درج ذیل تحقیق سے یہ راویہ حسن الحدیث بنتی ہے ضرور اور یہ روایت حسن ہے

تحقیق دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی