تین رکعات اور ایک ہی سلام سے چار رکعات تراویح کا حکم!!
تین رکعات اور ایک ہی سلام سے چار رکعات تراویح کا حکم!!
(فتاویٰ رضویہ شریف کی روشنی میں)
مسئلہ : دورکعت تراویح کی نیت کی قعدہ اولٰی بھول گیاتین پڑھ کربیٹھا اور سجدہ کیا تو نماز ہوئی یانہیں اور ان رکعتوں میں جو قرآن شریف پڑھا اس کااعادہ ہویانہیں اور چارپڑھ لیں تو یہ چاروں تراویح ہوئیں یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب: صورت اولٰی میں مذہب اصح پرنماز نہ ہوئی اور قرآن عظیم جس قدر اس میں پڑھاگیا اعادہ کیاجائے۔
فی ردالمحتار لوتطوع بثلاث بقعدۃ واحدہ کان ینبغی الجواز اعتبارا بصلٰوۃ المغرب، لکن الاصح عدمہ لانہ قدفسدما اتصلت بہ القعدۃ وھو الرکعۃ الاخیرۃ، لان التنفل بالرکعۃ الواحدۃ غیرمشروع فیفسد ماقبلھا۲؎۔
ردالمحتار میں ہے کہ اگر کسی نے تین نفل ایک قعدہ کے ساتھ پڑھے مغرب کی نماز پرقیاس کرتے ہوئے جائز ہونا چاہیے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ نفل جائزنہیں کیوں کہ اس کی آخری رکعت جس کے بعد قعدہ کیاہے وہ فاسد ہے کیوں کہ وہ دو پر زائد ایک رکعت نفل رہ گئی جبکہ ایک رکعت نفل جائزنہیں لہٰذا اس آخری رکعت کے فساد سے پہلی دورکعت بھی فاسد ہوجائیں گی۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب الوتروالنوافل مطبوعہ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۲/ ۳۲)
اور چار پڑھ لیں اور قعدہ اولٰی نہ کیا تو مذہب مفتی بہ پر یہ چاروں دوہی رکعت کے قائم مقام گنی جائیں گی باقی اور پڑھ لےکما صرح بہ فی ردالمحتار عن النھر الفائق الزاھدی (جیسا کہ ردالمحتارمیں نہرالفائق اس نے زاہدی سے وضاحت کردی گئی ہے۔ت) اور دونوں قعدے کیے توقطعاً چاروں رکعتیں ہوگئیں۔ولاکراھۃ ایضا کما یفیدہ التعلیل المذکور فی ردالمحتار نعم الافضل مثنی مثنی کما لایخفی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
چاررکعت نفل دو قعدوں اور ایک سلام سے جائز ہیں اور کوئی کراہت نہیں ہے جیسا کہ ردالمحتار کی بیان کردہ علت سے حاصل ہے تاہم نفل دودو پڑھنا افضل ہے جیسا کہ واضح ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
( فتاویٰ رضویہ قدیم، کتاب الصلاۃ، باب الوتروالنوافل، ج: ۳، ص: ۵۲۰، رضا اکیڈمی ممبئی)
پیش کش: محمد شفاء المصطفیٰ مصباحی۔