امام بخاری کا صحابہ کرامؓ کے بارے رفع الیدین کا ایک باطل دعویٰ اور اسکی حقیقت!
sulemansubhani نے Saturday، 24 April 2021 کو شائع کیا.
امام بخاری کا صحابہ کرامؓ کے بارے رفع الیدین کا ایک باطل دعویٰ اور اسکی حقیقت!
از قلم: اسد الطحاوی الحنفی
امام بخاری اپنی جز میں دو روایات پر ایک باطل دعویٰ قائم کرتے ہیں اور ہم امام بخاری کے دعویٰ اور انکی دلیل کی حقیقت بیان کرینگے !
چناچہ امام بخاری اصحاب رسولﷺ سے رفع الیدین کے بارے دو تابعین کے اقوال نقل کرتے ہیں :
حَدَّثَنِي مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا أَيْدِيهِمُ الْمَرَاوِحُ يَرْفُعُونَهَا إِذَا رَكَعُوا , وَإِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ»
(جز رفع الیدین ، برقم:۲۸)
اسکی سند کا حال دیکھا جائے تو اس میں قتادہ بیٹھے ہیں سند میں جو مشہور مدلس ہیں جسکا انکار وہابیہ کو بھی نہیں ہے ایسی روایت سے کل صحابہ پر استدلال کرنا سوائے حماقت کے کیا ہے ؟
دوسری روایت جو امام بخاری نے نقل کی وہ درج ذیل ہے :
حدثنا موسى بن إسماعيل , حدثنا أبو هلال , عن حميد بن هلال قال: «كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلوا كأن أيديهم حيال آذانهم المراوح»
دوسری سند جو امام بخاری نے نقل کی ہے ایک تابعی کا قول حمید بن ھلال سے اسکی سند میں موجو ابو ھلال محمد بن سلیم الراسبی راوی موجود ہے
اور امام بخاری نے خود اسکو الضعفاء میں درج کیا ہوا ہے
مُحَمَّد بن سليم أَبُو هِلَال الرَّاسِبِي
(کتاب الضعفاء للبخاری ، برقم۳۲۴)
نیز اس پر کافی جروحات بھی موجود ہیں اور ہلکی پھلکی توثیق بھی جسکی وجہ سے امام ابن عدی کہتے ہیں کہ اسکی روایات لکھی جائیں گی۔
نیز امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں اس راوی کے بارے لکھتے ہیں :
محمد ابن سليم أبو هلال الراسبي بمهملة ثم موحدة البصري قيل كان مكفوفا وهو صدوق فيه لين
ابو ھلال یہ سچا ہے لیکن یہ کمزور ہے (روایت میں )
(تقریب التہذیب برقم:۵۹۲۳)
اور لین کے بارے امام ابن حجر عسقلانی نے موقف لکھا ہے کہ جب تک اسکا متابع نہ ہو تو اسکی روایت مقبول نہ ہوگی
نیز محدثین نے اس راوی کے بارے یہ بھی تصریح کی ہے کہ جب اسکی روایات ثقات کے موافق ہو تو شواہد میں قبول ہونگی وگرنہ اسکی روایات میں ثقات کے خلاف مناکیر تھیں
ان دو غیر ثابت روایات کے سہارے امام بخاری اپنی طرف سے اتنا بڑا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قال البخاري: «فلم يستثن الحسن , وحميد بن هلال أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم دون أحد
امام بخاری کہتے ہیں : حسن بصری اور حمید بن ھلال تابعین نے کسی بھی ایک صحابی کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا ہے کہ وہ رفع الیدین نہ کرتے تھے
(جز رفع الیدین )
اب کوئی بھی صاحب علم پرکھ سکتا ہے کہ ان دو کمزور روایات کی بنیاد پر امام بخاری نے صحابہ سے باطل اجماع ثابت کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگایا جس میں وہ نا کام رہے
حسن بصری کا قول تو غیر ثابت ہے
اور
حمید بن ھلال بھی کبیر تابعین میں سے نہیں ہے اور چند ایک صحابہ اور تابعین کے فقط شاگرد ہیں
جیسا کہ امام ذھبی سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں :
لإمام، الحافظ، الفقيه، أبو نصر العدوي؛ عدي تميم، البصري.
روى عن: عبد الله بن معقل المزني، وعبد الرحمن بن سمرة، وأنس بن مالك، وأبي قتادة العدوي، وهصان بن كاهل، وبشر بن عاصم الليثي، ومطرف بن الشخير، وأبي الدهماء قرفة بن بهيس، وأبي رافع الصائغ، وأبي صالح السمان، وربعي بن خراش، وعبد الرحمن بن قرط، وسعد بن هشام بن عامر، وخالد بن عمير، ومروان بن أوس، وأبي بردة بن أبي موسى، وأبي الأحوص الجشمي، وعدة.
(سیر اعلام النبلاء ، برقم:۱۷۴)
اب امام بخاری کا رد ہم پیش کرتے ہیں صحابہ اور کبیر تابعین سے :
پہلے صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جو جید صحابہ میں سے ایک ہیں اور شروع سے آخری وقت تک نبی کریمﷺ کی رفاقت میں رہے
ان سے ایک مشہور و معروف روایت جو ترمذی و سنن نسائی میں ہے جنکی توثیق امام نسائی و ترمذی نے کی ہے اور امام بخاری کے شیخ امام ابن ابی شیبہ نے اسکو اپنی سند صحیح سے بیان کیا ہے :
حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الله بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله، قال: ألا أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ «فلم يرفع يديه إلا مرة»
اور
دوسرا انکا عمل امام ابراہیم النخعی بیان کرتے ہیں :
حدثنا وكيع، عن مسعر، عن أبي معشر، عن إبراهيم، عن عبد الله، «أنه كان يرفع يديه في أول ما يستفتح، ثم لا يرفعهما»
امام وکیع ابی مشعر کے طریق سے ابراہیم سے اور وہ حضرت عبداللہ سے فرماتے ہیں : کہ رفع الیدین صرف شروع میں ہے اور اسکے بعد رفع الیدین نہیں ہے (نماز میں )
(مصنف ابن ابی شیبہ ، برقم:۲۴۴۳)
حدثنا هشيم، قال: أخبرنا حصين، ومغيرة، عن إبراهيم، أنه كان يقول: «إذا كبرت في فاتحة الصلاة فارفع يديك، ثم لا ترفعهما فيما بقي»
امام ہشیم کہتے ہیں مجھے خبر دی حصین نے اور مغیرہ نے وہ بیان کرتے ہیں حضرت ابراہیم النخعی سے وہ کہتے ہیں کہ جب نماز شروع کرو تو رفع الیدین کرو اور باقی نماز میں رفع الیدین نہ کرو
(مصنف ابن ابی شیبہ ، برقم:۲۴۴۵)
اس سند میں کسی قسم کا کوئی ضعف نہیں ہے لیکن وہابیہ یہاں محدثین اور اصول حدیث سے کھلواڑ کرتے ہوئے علت گھڑتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعی کی حضرت عبداللہ
جبکہ محدثین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ ابراہیم کی حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت منطقع نہیں ہوتی ہے جیسا کہ انکی خود کی تصریح ثابت ہے
امام ابو داود سے جب سوال ہوا امام ابراہیم اور حضرت ابی اسحاق کی مراسیل کے بارے میں تو وہ جواب دیتے ہیں
قُلْتُ: مَرَاسِيْل إِبْرَاهِيْم، أو مَرَاسِيْل أَبِي إِسْحَاق؟ قَالَ: مَرَاسِيْل إِبْرَاهِيْم.
امام الاجری کہتے ہیں میں نے پوچھا : کہ براہیم کی مراسیل (صحیح ہیں ؟) یا ابو اسحاق کی مراسیل؟
تو ابو داود نے کہا کہ : حضرت ابراہیم النخعی کی مراسیل (حجت ہیں )
اور اسی لیے امام ذھبی فرماتے ہیں :
كمراسيل: مجاهد، وإبراهيم، والشعبي. فهو مُرسَل جيّد لا بأسَ به
امام مجاہد، امام ابراہیم النخعی، شعبی انکی مراسیل جید ہیں ان میں کوئی حرج نہیں
(الموقظة في علم مصطلح الحديث ، ص 40)
اور امام ابراہیم النخعی کی حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی روایات پر منطقع کا اعتراض معلمی یمنی نے گھڑا تھا جسکا رد البانی صاحب نے کیا اور ثابت کیا کہ ابراہیم نخعی کی حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی روایت جید ہوتی ہے منقطع نہیں کیونکہ جب ابراہیم نخعی اپنے کثیر شیوخ جو حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب میں سے ہوں سنتے ہیں تو پھر وہ سند متصل بیان نہیں کرتے ۔۔ معلوم ہوا اس میں انقطاع ہوتا ہی نہیں
پس ثابت ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ترک کے قائل تھے
اسی طرح سند صحیح سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے تمام اصحاب ترک رفع الیدین پر متفق تھے
حدثنا وكيع، وأبو أسامة، عن شعبة، عن أبي إسحاق، قال: «كان أصحاب عبد الله وأصحاب علي، لا يرفعون أيديهم إلا في افتتاح الصلاة، قال وكيع،، ثم لا يعودون»
امام وکیع بن جراح اور ابو اسامہ وہ حضرت شعبہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ حضرت ابو اسحاق سے بیان کرتے ہیں :
اصحاب حضرت علی اور اصحاب حضرت عبداللہ بن مسعود رفع الیدین نہیں کرتے تھے سوائے نماز کے شروع میں
اور حضرت وکیع بن جراح فرماتے ہیں کہ پھر رفع الیدین نہ کرتے
(مصنف ابن ابی شیبہ ، برقم : ۲۴۴۶)
یہ سند بھی جید ہے اب جیسا کہ
اوپر ثابت ہو اکہ حضرت عبداللہ بن مسعود چونکہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے تو انکے اصحاب بھی رفع الیدین نہ کرتے تھے جیسا کہ اوپر امام ابو اسحاق کا قول ثابت ہے
پس یہ ثابت ہوا کہ جب صحابی رفع الیدین نہیں کرتا تو انکے اصحاب کیسے کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ابو اسحاق نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت مولا علی کے اصحاب بھی رفع الیدین نہیں کرتے تھے
اور حضرت علی کے اصحاب رفع الیدین کیوں نہ کرتے تھے اسکی دلیل بھی خود حضرت علی سے ثابت ہے :
حدثنا وكيع، عن أبي بكر بن عبد الله بن قطاف النهشلي، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، «أن عليا، كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، ثم لا يعود»
(مصنف ابن ابی شیبہ)
امام وکیع کہتے ہیں ابی بکر النحشلی سے وہ عاصم سے وہ اپنے والد سے کہ بیشک حضرت علی نماز میں سوائے شروع کے پھر رفع الیدین نہیں کرتے تھے
اب حضرت علی جو حضرت ابو بکر کے پیچھے نماز ادا کرنے والے حضرت عمر کے پیچھے نمازادا کرنے والے خلیفہ چہارم ہیں جب وہ خود رفع الیدین نہیں کرتے تھے تو پھر حضرت ابو بکر و عمر بھی تو رفع الیدین نہیں کرتے ہونگے ۔
اس سند میں کوئی بھی ضعیف راوی نہیں لیکن وہابی کہتے ہیں کہ امام احمد نے اسکا انکار کیا ہے
اب جب سند صحیح ہے تو انکار کرنے کی وجہ ؟
یہ بھی انکی جہالت ہے امام احمد کا منہج ہے وہ جب ثقہ منفرد کی روایت کو یکھتے تو اسکو منکر قرار دیتے یہ جرح نہیں ہوتی بلکہ ثقہ کا تفرد ہوتا ہے
اسکے بعد حضرت قیس بن ابی حاتم، جو عشرہ مبشرہ صحابہ کے شاگرد ہی وہ بھی رفع الیدین نہیں کرتے تھے ، اور امام شعبی پر پہلے ہی تحریر لکھ چکے ہیں
امام قیس بن ابی حاتمسے ثبوت:
حدثنا يحيى بن سعيد، عن إسماعيل، قال: «كان قيس، يرفع يديه أول ما يدخل في الصلاة، ثم لا يرفعهما»
امام قیس نماز میں داخل ہوتے تو رفع الیدین کرتے پھر رفع الیدین نہ کرتے
(مصنف ابن ابی شیبہ و سند صحیح )
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔
تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی
ٹیگز:-
امام بخاری , رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی , اسد الطحاوی الحنفی البریلوی , اسد الطحاوی الحنفی , رفع الیدین