ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟

سورت القلم کی یہ آیت نمبر 33 ہم سے پہلے کی امت کے ایک باغ والوں کے ان شاءاللہ نہ کہنے اور مساکین کو کھیتی میں سے کچھ دینے سے بچنے کی کوشش کرنے والوں کو پہنچنے والے عذاب کے بیان کا تتمہ ہے ۔

آج ہماری اکثریت بھی اللّٰہ تعالیٰ کو ، اس کی تعلیمات کو ، ان شاءاللہ درست معنی میں نہ کہنے کو ، دین کو ، دینی ضروریات کو ، زکات ، عشر ، صدقات و خیرات کو بھول چکی ہے ۔ سو ہمیں سمجھانے کے لئے فرمایا

P🌹 كَذٰلِكَ الْعَذَابُؕ-

جس طرح ان باغ والوں کو عذاب آیا اور ان کا باغ و کھیتی سب رات ہی رات میں ضائع ہو گیا ۔ تم کسی شک و شبہ میں نہ رہو ہمارا عذاب اسی طرح اچانک ہی آتا ہے اور سنبھلنے کا موقع نہیں دیتا اور ہاں یہ بھی ابھی سے سن سمجھ لو

🌹 وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠

اور بے شک آخرت کا عذاب سب سے بڑھ کر ہے ۔

کیا اچھا ہوتا اگر وہ سمجھ جاتے ۔

✒️ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت و نسبت سے ایسے نیست و نابود کر کے رکھ دینے والے عذاب ہم پر نہیں آتے لیکن بد اعمالیوں اور نافرمانیوں کی شامت گھروں ، بازاروں، دفتروں ، فیکٹریوں، کھیت کھلیانوں میں ہر جگہ نظر آ رہی ہے ۔ یہ مہنگائی، امراض ، وبائیں ، نقصانات ، موسموں کی ستم رسانیاں سبھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیئے کافی ہیں اگر ہم سمجھ سے کام لیں ۔

فقیر خالد محمود

ادارہ معارف القرآن کشمیر کالونی کراچی

بدھ

15 رمضان المبارک 1442

28 اپریل 2021