بشارۃ الرحمٰن لِمُؤمِنِیْ آلِ أبي سفیان وأبي سفيان۔

موضوع : ہر صحابی نبی جنتی جنتی ۔۔

وادئ مہران سندھ جو کسی زمانے میں علم وادب کا مرکز ہوا کرتا تھا۔اُنْدلس ،بغدادِ مُعلٰی کے بعد سندھ مرکزِ علم وادب تھا ۔سندھ کے کئ علمائے کرام نابغہ روزگار ہستیاں ہوا کرتی تھیں طالبانِ علومِ نبویہ سندھی علمائے کرام کے زیرِسایہ زانوئے تلمذ طے کرنے کو اپنے لئے شرف سمجھتے تھے ۔۔

ہر عروج کو زوال ہے کے تحت نیز قرآنِ کریم کی آیت “فخلف من بعدھم خلف اضاعواالصلٰوۃ واتبعوا الشھوت” کے مصداق بعد والوں میں سے کئ لوگوں نے علم وادب سے اپنا رشتہ توڑا، شھوات کی پیروی کی خدائی قانون کے بموجب سزاکے طور پر سندھ سے علم وادب کی برکات بھی اٹھا لی گئیں ۔۔

وہ سندھ جو کسی زمانہ میں گہوارہ علم وادب تھا آج بدعات وخرافات کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ابنِ قاسم کی آمد اور بزرگانِ دین کی تبلیغ کی برکت سے جس سرزمین سے علم وحکمت کے چشمے پھوٹے آج وہاں جھالت ننگا ناچ رہی ہے ۔۔

سندھ کے وہ آستانے جہاں علومِ نبویہ کے تِشنگان اپنی علمی پیاس بجھانے آتے تھے آج وہاں کالے جھنڈے لہرا رہے ہیں ۔۔

سندھی ماٹھو جو کسی زمانہ میں صبح صبح لائبریریوں کا رُخ کیا کرتے تھے آج جھالت وتوھم پرستی کی وجہ سے علی الصبح کالے کالے عَلَموں کی سلامی بھرتے ہیں ،جعلی پیروں کی جعلی من گھڑت کرامات پر لڈو ہوکر علمائے دین سے دور رہ کر اپنا دین وایمان برباد کررہے ہیں ۔۔

ممکنہ سوال

ہوسکتا ہے کسی جعلی پیر کا مرید عقیدت کا ستو پی کر اور جلسوں میں کرایہ کے طور پر دستیاب خطیبوں کی پھیلائ گئی غلط باتوں کی وجہ سے کہہ دے کہ نہیں نہیں سندھ تو اب بھی علم وثقافت کامرکز ہے کیونکہ میرے پیر نے 500 کتابیں لکھی ہیں ۔۔

الجواب۔

عقیدت کا بھنگ پی کر مست رہنے والوں کا نشہ اتارنا مجھے خوب آتا ہے ۔جعلی پیروں کی جھالتوں کا پردہ چاک کرنے میں بھی بندہ ناچیز ایکسپرٹ ہے یوں سمجھیں اِس ٹاپک پر ہم نے پی ایچ ڈی کی ہوئ ہے تو یہ بات حقیقت کے بالکل قریب ہے ۔۔۔

ہمجاھل عقیدت مندوں کو صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ صفحات کالے کرنا اور بات ہے علم والا ہونا اور بات ہے تمھارے پیر نے جن 500 کتابوں میں باتیں لکھی ہیں علمی دنیا میں وہ کس قدر سطحی ہیں یہ بات ہرذی علم شخص جانتا ہے ۔۔

آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ۔۔

سندھ میں جھالتوں کے مٹانے، بےعلمی وبدعملی وبدعقیدگی کے جن کو قابو کرنے والے علمائے کرام نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں ہم پہلے ہی پریشان تھے کہ عقیدت کا نشہ پی کر جھالتوں کے مئے سے سیراب ہونے والی قوم کی اصلاح کیسے کریں مزید ایک اور فتنہ نمودار ہوا ۔۔

پوٹھوہار پنجاب سے تعلق رکھنے والے پنڈی کے وائرس سے متاثر ایک شخص چمن زمان صاحب بھی سندھیوں کو خراب کرنے سندھ میں آگئے ۔۔

حضرت کی عادتِ بد بڑی ہی نرالی ہے اہلِ علم کہلوانے کے باوجود بھی جید علمائے کرام کی پگڑیاں اچھالنا، معتقداتِ اہلِ سنت پر تیشہ چلا کر اہلِ سنت وجماعت کی جمعیت کو منتشر کرنا حضرت چمن زمان صاحب اپنا فرضِ پنڈوی سمجھتے ہیں ۔۔

رفض کے جراثیم سے متاثر خارش زدہ حنیف قریشی پنڈوی کے قریبی ساتھی حضرت چمن زمان صاحب نے اِن دنوں ایک نیا مسئلہ اٹھایا ہوا کہ ” ہرصحابی نبی جنتی جنتی ” کہنا اہلِ سنت کا مؤقف نہیں ہے ۔۔

ہر صحابی نبی جنتی جنتی کہنا تو روا اور درست ہے شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب “تحقیق الاشارۃ فی تعمیم البشارۃ ” میں تفصیل وتحقیق کے ساتھ اِس بات کو بیان کیا ہے ۔۔

رفض کی پھکیوں سے متاثرہ ہاضمہ خراب لوگوں کو اصل مسئلہ سیدنا معاویہ پاک رضی اللہ عنہ اور اَسَدُالقریش سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو جنتی کہنے سے ہے آج کے اِس مقالے میں ہم مومنینِ آلِ ابی سفیان کا جنتی ہونا قرآنِ کریم کی آیاتِ بَیّنات کی روشنی میں بیان کریں گے۔ان شاءالله عزوجل۔

اوّلا کچھ احادیث بیان کرتے ہیں فنقول وباللہ التوفیق ۔

سیدنا معاویہ پاک رضی اللہ عنہ کا جنتی ہونا بخاری شریف کی حدیث “اوّلُ جیشٍ یغزوا مدینۃَ قیصر مغفور لھم ” سے ثابت ہے ۔۔

اَسَدُ القریش سیدنا صخر بن حرب المعروف ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا جنتی ہونا بھی حدیث سے ثابت ہے ۔۔

مُصَنّفُ ضیاءِ النبی نے اپنی کتاب ضیاء النبی جلد 4 صفحہ 507 پر نقل کیا ہے کہ جنگ طائف میں طائف والوں نے مسلمانوں پر خوب تیر برسائے ۔اسی معرکہ میں ابوسفیان بن حرب کی ایک انکھ بھی ضائع ہوگئ، اور وہ اپنی آنکھ کے ڈھیلے کو ہاتھ میں لئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوسفیان! تمھیں کیا پسند ہے، کیا اِس کے بدلے میں جنت میں آنکھ لینا چاہتے ہو یا اللہ سے دعا کروں اور تمھاری یہ آنکھ درست ہوجائے؟۔

حضرت ابوسفیان نے عرض کی :یارسول اللہ! مجھے جنت میں آنکھ عطا فرمائیں ۔۔

یہ عرض کرنے کے بعد حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے آنکھ کا ڈھیلا جو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا زمین پر دےمارا ۔۔

ابو سفیان و #مومنینِ آلِ ابی سفیان کی ایمان وجنتی ہونے کی گواہی قرآنِ کریم کی زبانی ۔۔

سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلامی اطاعت قبول کرنے والے افراد تین قِسموں پر تھے ۔

نمبر 1

خالص مومنین جنہیں اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔

نمبر 2

خالص منافقین

نمبر 3

اعراب یعنی عرب شریف کے بدو جنہوں نے کلمہ پڑھا لیکن اِن میں سے کثیر تعداد مزاجِ اسلام سے ناواقف تھی اور اِنہی میں سے کئ لوگ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری وفات کے بعد اسلام سے پھربھی گئے تھے ۔۔

قرآنِ کریم نے اِن تینوں قسموں کے افراد کے حالت کو بیان کیا ہے ۔۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن تینوں قسموں میں سے وہ کون سی قسم ہے جن میں حضرت ابو سفیان وآلِ ابوسفیان کا شمار ہوتا ہے؟۔

تینوں قسموں کی تفصیل۔

خالص مومنین جنہیں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننے کا شرف حاصل ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن کہتا ہے “واعلموا انّ فیکم رسول اللہ لویطیعکم فی کثیرمّن الامر لعنتم ولٰکنّ اللہ حبّب الیکم الایمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولٰئک ھم الرشدون”

ترجمہ ۔

اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں، بہت معاملوں میں اگر یہ تمھاری خوشی کریں تو تم ضرور مشقت میں پڑو لیکن اللہ نے تمھیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اُسے تمھارے دلوں آراستہ اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمھیں ناگوار کردی، ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں ۔۔

قربان جاؤں رب کے کلام پر ۔۔۔۔

یہ آیت بتارہی ہے کہ اللہ عزوجل نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کے دلوں میں ایمان کی محبت کو انڈیل دیا ہے ایمان کی جڑیں اُن کے دلوں میں ایسے مضبوط ہیں جیسے پہاڑ اور کفر سے نفرت ڈال دیا ہے ۔۔

صحابہ کرام علیھم الرضوان کے دلوں کو اللہ پاک نے ایمان سے زینت دی اور اللہ پاک نے حضور سیددوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کےلئے شریعت کی حکم عدولی کرنا، حضور کی نافرمانی کرنا سخت ناگوار کردیا ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکم عدولی صحابہ کرام علیھم الرضوان کو سخت ناپسند ہے۔

نمبر 2 کلمہ گو منافقین۔

یہ وہ لوگ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے منافقین تھے جو بظاہر کلمہ گو تھے لیکن اُن کے دل کفر سے بھرے ہوئے تھے ۔

قرآنِ کریم ایسے لوگوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے “ومِمّنْ حولکم مّنَ الاعراب مُنٰفقون، ومن اھل المدینۃ، مردوا علی النّفاق ،،،

اور تمھارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے اُن کی خُو ہوگئ ہے نفاق ۔۔

سورۃ توبہ کی اور آیت کریمہ میں منافقین کے بارے میں آیا ہے

“الاعراب اشدّ کفرا وّنفاقا وّاجدر الّا یعلموا حدود مآانزل اللہ علٰی رسولہ، واللہ علیم حکیم “

گنوار کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ اللہ نے جو حکم اپنے رسول پر اتارے اس سے جاھل رہیں اور اللہ علم وحکمت والا ہے ۔۔

نمبر 3 زمانہ نبوی کے خالص اعرابی ۔

یہ وہ لوگ تھے جو عرب شریف کے بدو تھے لیکن اِن میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو صحیح طرح صحبت سے فیضیاب نہیں ہوسکے اسلام کا غلبہ دیکھ کر ایمان لائے۔۔

قرآن کریم ایسے لوگوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے

“قالت الاعراب اٰمنّا، قل لم تؤمنوا ولٰکن قولوآ اسلمنا ولمّا یدخل الایمان فی قلوبکم “

گنوار بولے :ہم ایمان لائے، تم فرماؤ :تم ایمان تو نہ لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مطیع ہوئے اور ابھی ایمان تمھارے دلوں میں کہاں داخل ہوا ۔۔

غور فرمائیے! قسم اوّل کے ایمان کی گواہی اللہ خود دے رہا ہے جبکہ تیسری قسم والے اپنے آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ۔۔۔فبینھما بون بعید ۔۔

اِن تینوں آیات کریمہ کے اسباق میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ منافق صرف مدینے میں رہتے تھے یا مدینہ شریف کے آس پاس ۔۔

اور اعرابی وہ لوگ تھے جو گاؤوں کے دور دراز لوگ تھے بظاہر شوکتِ اسلام دیکھ کر ایمان لائے تھے لیکن ایمان کی محبت ابھی اُن کے دلوں میں صحیح سے داخل نہیں ہوئ تھی ۔۔

خلاصہ کلام۔

حضرت ابو سفیان و حضرت معاویہ پاک رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ کے بھائ جان اور والدہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما مکہ شریف کے رہنے والے تھے اور مکہ عرب شریف کا سب سے اہم شہر،تمام قبائلِ عرب کا مرجعِ خاص اور تجارتی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا تو معلوم ہوا کہ حضرت ابوسفیان اور اُن کی زوجہ اور دونوں بیٹے نا تو منافق ہیں کیونکہ منافقین مدینہ شریف اور مدینہ شریف کے گردونواح میں رہتے تھے نیز حضرت ابوسفیان اور اُن کی آل اعرابی بھی نہیں تھے کہ اعرابی عرب شریف کے وہ بدو تھے جنھوں نے کلمہ تو پڑھ لیاتھا لیکن مزاجِ اسلام سے ناواقف تھے بلکہ آپ اور آپ کے گھر والے خالص مومنین اور جانثار صحابہ کرام میں سے تھے جن کے متعلق پارہ 26 سورۃ الحجرات کی آیت شریف میں ارشاد ہوا جسکو ہم اوپر بھی نقل کرچکے ہیں “واعلموا ان فیکم رسول اللہ، لویطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم ولٰکنّ اللہ حبّبَ الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان، اولٰئک ھم الرشدون”۔

خالص مومنین اصحابِ رسول کے متعلق ایک جگہ ارشاد ہوا”انماالمؤمنون الذین اٰمنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا وجٰھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ اُولٰئک ھم الصدقون”۔

ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی لوگ سچے ہیں ۔۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفاتِ ظاہری کے بعد اعراب دین سے پھر گئے، کچھ وہ تھے جنھوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا۔۔

حضرت ابوسفیان اور اُن کے دونوں بیٹوں نے اکابرین صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے ساتھ ملکر مانعینِ زکوٰۃ اور مرتدین کے خلاف جنگ کیا ۔اسلام پر یہ کڑا وقت تھا اُس کڑے وقت میں سیدنا ابوسفیان وامیر معاویہ رضی اللہ عنھما ثابت قدم رہ کر بتادیا کہ وہ نبی کے سچے اصحاب اور صادق الایمان مسلمان ہیں ۔۔

میرا نبی جن کےلئے جنت کی بشارت دے، میرا نبی جن سے فرمائیں چاہو تو جنت میں آنکھ لو، میرا رب جن کو اولٰئک ھم الرٰشدون، اولئک ھم الصٰدقون کی بشارات سے نوازے وہ صحابہ کرام ہیں وہ ابوسفیان ہیں وہ امیرمعاویہ ہیں ۔اُن کے جنتی ہونے میں جوشک کرے وہ خود دوزخی ہے۔۔

اگر پنڈی کا کوئی خارش زدہ سیدنا ابوسفیان و معاویہ پاک رضی اللہ عنھما کی ذات پر بھونکے تو سمجھ جانا وہ بھونکنے والا شخص کلب من کلاب الھاویہ ہے۔

✍️ ابوحاتم

29/04/2021/