اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍؕ-كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ(۴۱)

کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے (ف۹۶) پر پھیلائے سب نے جان رکھی ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح اور اللہ اُن کے کاموں کو جانتا ہے

(ف96)

جو آسمان و زمین کے درمیان میں ہیں ۔

وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(۴۲)

اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف پھر جانا

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهٗ ثُمَّ یَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِهٖۚ-وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَیُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُؕ-یَكَادُ سَنَا بَرْقِهٖ یَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِؕ(۴۳)

کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نرم نرم چلاتا ہے بادل کو (ف۹۷) پھر اُنہیں آپس میں ملاتا ہے (ف۹۸) پھر انہیں تہ پر تہ کردیتا ہے تو تُو دیکھے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے اور اُتارتا ہے آسمان سے اس میں جو برف کے پہاڑ ہیں ان میں سے کچھ اولے (ف۹۹) پھر ڈالتا ہے اُنہیں جس پر چاہے (ف۱۰۰) اور پھیردیتا ہے اُنہیں جس سے چاہے (ف۱۰۱) قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھ لے جائے (ف۱۰۲)

(ف97)

جس سر زمین اور جن بلاد کی طرف چاہے۔

(ف98)

اور ان کے متفرق ٹکڑوں کو یک جا کر دیتا ہے ۔

(ف99)

اس کے معنٰی یا تویہ ہیں کہ جس طرح زمین میں پتھر کے پہاڑ ہیں ایسے ہی آسمان میں برف کے پہاڑ اللہ تعالٰی نے پیدا کئے ہیں اور یہ اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ان پہاڑوں سے اولے برساتا ہے یا یہ معنٰی ہیں کہ آسمان سے اولوں کے پہاڑ برساتا ہے یعنی بکثرت اولے برساتا ہے ۔ (مدارک وغیرہ)

(ف100)

اور جس کے جان و مال کو چاہتا ہے ان سے ہلاک و تباہ کرتا ہے ۔

(ف101)

اس کے جان و مال کو محفوظ رکھتا ہے ۔

(ف102)

اور روشنی کی تیزی سے آنکھوں کو بے کار کر دے ۔

یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ(۴۴)

اللہ بدلی کرتا ہے رات اور دن کی (ف۱۰۳) بےشک اس میں سمجھنے کا مقام ہے نگاہ والوں کو

(ف103)

کہ رات کے بعد دن لاتا ہے اور دن کے بعد رات ۔

وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى بَطْنِهٖۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى رِجْلَیْنِۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰۤى اَرْبَعٍؕ-یَخْلُقُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴۵)

اور اللہ نے زمین پر ہر چلنے والا پانی سے بنایا (ف۱۰۴) تو اُن میں کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے (ف۱۰۵) اور اُن میں کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے (ف۱۰۶) اور اُن میں کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے (ف۱۰۷) اللہ بناتا ہے جو چاہے بےشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے

(ف104)

یعنی تمام اجناسِ حیوان کو پانی کی جنس سے پیدا کیا اور پانی ان سب کی اصل ہے اور یہ سب باوجود متحد الاصل ہونے کے باہم کس قدر مختلف الحال ہیں ، یہ خالِقِ عالَم کے علم و حکمت اور اس کے کمالِ قدرت کی دلیلِ روشن ہے ۔

(ف105)

جیسے کہ سانپ اور مچھلی اور بہت سے کیڑے ۔

(ف106)

جیسے کہ آدمی اور پرند ۔

(ف107)

مثل بہائم اور درندوں کے ۔

لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۴۶)

بےشک ہم نے اُتاریں صاف بیان کرنے والی آیتیں (ف۱۰۸) اور اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے (ف۱۰۹)

(ف108)

یعنی قرآنِ کریم جس میں ہدایت و احکام اور حلال و حرام کا واضح بیان ہے ۔

(ف109)

اور سیدھی راہ جس پر چلنے سے رضائے الٰہی و نعمتِ آخرت میسّر ہوویں اسلام ہے ۔ آیات کا ذکر فرمانے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان تین فرقوں میں منقسم ہوگئے ایک وہ جنہوں نے ظاہر میں تصدیقِ حق کی اور باطن میں تکذیب کرتے رہے وہ منافق ہیں ، دوسری وہ جنہوں نے ظاہر میں بھی تصدیق کی اور باطن میں بھی معتقد رہے یہ مخلصین ہیں ، تیسرے وہ جنہوں نے ظاہر میں بھی تکذیب کی اور باطن میں بھی وہ کُفّار ہیں ان کا ذکر بالترتیب فرمایا جاتا ہے ۔

وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَؕ-وَ مَاۤ اُولٰٓىٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ(۴۷)

اور کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ اور رسول پر اور حکم مانا پھر کچھ اُن میں کے اس کے بعد پھر جاتے ہیں (ف۱۱۰) اور وہ مسلمان نہیں (ف۱۱۱)

(ف110)

اور اپنے قول کی پابندی نہیں کرتے ۔

(ف111)

منافق ہیں کیونکہ ان کے دل ان کی زبانوں کے موافق نہیں ۔

وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۴۸)

اور جب بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ رسول اُن میں فیصلہ فرمائے تو جبھی ان کا ایک فریق منہ پھیر جاتا ہے

وَ اِنْ یَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْۤا اِلَیْهِ مُذْعِنِیْنَؕ(۴۹)

اور اگر ان میں ڈگری ہو(ان کے حق میں فیصلہ ہو) تو اس کی طرف آئیں مانتے ہوئے (ف۱۱۲)

(ف112)

کُفّار و منافقین بارہا تجرِبہ کر چکے تھے اور انہیں کامل یقین تھا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ سرا سر حق و عدل ہوتا ہے اس لئے ان میں جو سچا ہوتا وہ تو خواہش کرتا تھا کہ حضور اس کا فیصلہ فرمائیں اور جو ناحق پر ہوتا وہ جانتا تھا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی عدالت سے وہ اپنی ناجائز مراد نہیں پا سکتا اس لئے وہ حضور کے فیصلہ سے ڈرتا اور گھبراتا تھا ۔

شانِ نُزول : بِشر نامی ایک منافق تھا ایک زمین کے معاملہ میں اس کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا یہودی جانتا تھا کہ اس معاملہ میں وہ سچا ہے اور اس کو یقین تھا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق و عدل کا فیصلہ فرماتے ہیں اس لئے اس نے خواہش کی کہ یہ مقدمہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے فیصل کرایا جائے لیکن منافق بھی جانتا تھا کہ وہ باطل پر ہے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عدل و انصاف میں کسی کی رو رعایت نہیں فرماتے اس لئے وہ حضور کے فیصلہ پر تو راضی نہ ہوا اور کعب بن اشرف یہودی سے فیصلہ کرانے پر مُصِر ہوا اور حضور کی نسبت کہنے لگا کہ وہ ہم پر ظلم کریں گے ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی ۔

اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗؕ-بَلْ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠(۵۰)

کیا اُن کے دلوں میں بیماری ہے (ف۱۱۳) یا شک رکھتے ہیں (ف۱۱۴) یا یہ ڈرتے ہیں کہ اللہ و رسول اُن پر ظلم کریں گے (ف۱۱۵) بلکہ وہ خود ہی ظالم ہیں

(ف113)

کُفریا نفاق کی ۔

(ف114)

سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوّت میں ۔

(ف115)

ایسا تو ہے نہیں کیونکہ یہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ حق سے متجاوز ہو ہی نہیں سکتا اور کوئی بددیانت آپ کی عدالت سے پرایا حق مارنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے وہ آپ کے فیصلہ سے اعراض کرتے ہیں ۔