اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱)

مسلمانوں کی بات تو یہی ہے (ف۱۱۶) جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول اُن میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے

(ف116)

اور ان کو یہ طریقِ ادب لازم ہے کہ ۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲)

اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں

وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ اَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّؕ-قُلْ لَّا تُقْسِمُوْاۚ-طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۵۳)

اور اُنہوں نے (ف۱۱۷) اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں حد کی کوشش سے کہ اگر تم اُنہیں حکم دو گے تو وہ ضرور جہاد کو نکلیں گے تم فرمادو قسمیں نہ کھاؤ (ف۱۱۸) موافقِ شرع حکم برداری چاہیے اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو (ف۱۱۹)

(ف117)

یعنی منافقین نے ۔ ( مدارک)

(ف118)

کہ جھوٹی قَسم گناہ ہے ۔

(ف119)

زبانی اطاعت اور عملی مخالفت اس سے کچھ چھپا نہیں ۔

قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْؕ-وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْاؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۵۴)

تم فرماؤ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا (ف۱۲۰) پھر اگر تم منہ پھیرو (ف۱۲۱) تو رسول کے ذمہ وہی ہے جو اُس پر لازم کیا گیا (ف۱۲۲) اور تم پر وہ ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا (ف۱۲۳) اور اگر رسول کی فرمان برداری کرو گے راہ پاؤ گے اور رسول کے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا (ف۱۲۴)

(ف120)

سچے دل اور سچی نیت سے ۔

(ف121)

رسول علیہ الصلٰوۃ والسلام کی فرمانبرداری سے تو اس میں ان کا کچھ ضَرر نہیں ۔

(ف122)

یعنی دین کی تبلیغ اور احکامِ الہی کا پہنچا دینا اس کو رسول علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اچھی طرح ادا کر دیا اور وہ اپنے فرض سے عہد ہ برآ ہو چکے ۔

(ف123)

یعنی رسول علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ۔

(ف124)

چنانچہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت واضح طور پر پہنچا دیا ۔

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۵۵)

اللہ نے وعدہ دیا اُن کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے (ف۱۲۵) کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا (ف۱۲۶) جیسی اُن سے پہلوں کو دی (ف۱۲۷) اور ضرور اُن کے لیے جمادے گا اُن کا وہ دین جو اُن کے لیے پسند فرمایا ہے (ف۱۲۸) اور ضرور اُن کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا (ف۱۲۹) میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں

(ف125)

شانِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی نازِل ہونے سے دس سال تک مکّہ مکرّمہ میں مع اصحاب کے قیام فرمایا اور کُفّار کی ایذاؤں پر جو شب و روز ہوتی رہتی تھیں صبر کیا پھر بحکمِ الٰہی مدینہ طیّبہ کو ہجرت فرمائی اور انصار کے منازل کو اپنی سکونت سے سرفراز کیا مگر قریش اس پر بھی باز نہ آئے روز مرّہ ان کی طرف سے جنگ کے اعلان ہوتے اور طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتیں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت خطرہ میں رہتے اور ہتھیار ساتھ رکھتے ایک روز ایک صحابی نے فرمایا کبھی ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ ہمیں امن میسّر ہو اور ہتھیاروں کے بار سے ہم سبکدوش ہوں ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی ۔

(ف126)

اور بجائے کُفّار کے تمہاری فرمانروائی ہوگی ۔ حدیث شریف میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس جس چیز پر شب و روز گزرے ہیں ان سب پر دینِ اسلام داخل ہوگا ۔

(ف127)

حضرت داؤد و سلیمان وغیرہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کو اور جیسی کہ جبابرۂ مِصر و شام کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو خلافت دی اور ان ممالک پر ان کو مسلّط کیا ۔

(ف128)

یعنی دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب فرمائے گا ۔

(ف129)

چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور سرزمینِ عرب سے کُفّار مٹا دیئے گئے ، مسلمانوں کا تسلُّط ہوا ، مشرق و مغرب کے ممالک اللہ تعالٰی نے ان کے لئے فتح فرمائے ، اکاسرہ کے ممالک و خزائن ان کے قبضہ میں آئے ، دنیا پر ان کا رعب چھا گیا ۔

فائدہ : اس آیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور آپ کے بعد ہونے والے خلفاءِ راشدین کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ ان کے زمانہ میں فتوحاتِ عظیمہ ہوئے اور کسرٰی وغیرہ مُلوک کے خزائن مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور امن و تمکین اور دین کا غلبہ حاصل ہوا ۔ ترمذی و ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خلافت میرے بعد تیس سال ہے پھر ملک ہوگا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت دو برس تین ماہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت دس سال چھ ماہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت بارہ سال اور حصرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت چار سال نو ماہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت چھ ماہ ہوئی ۔ (خازن)

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۵۶)

اور نماز برپا رکھو اور زکوٰۃ دو اور رسول کی فرمان برداری کرو اس اُمید پر کہ تم پر رحم ہو

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِۚ-وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۠(۵۷)

ہرگز کافروں کو خیال نہ کرنا کہ وہ کہیں ہمارے قابو سے نکل جائیں زمین میں اور ان کا ٹھکانا آ گ ہے اور ضرور کیا ہی بُرا انجام