یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍؕ-مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ۫ؕ-ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّؕ-طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۵۸)

اے ایمان والو چاہیے کہ تم سے اِذن لیں تمہارے ہاتھ کے مال غلام (ف۱۳۰) اور وہ جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے (ف۱۳۱) تین وقت (ف۱۳۲) نمازِ صبح سے پہلے (ف۱۳۳) اور جب تم اپنے کپڑے اُتار رکھتے ہو دوپہر کو (ف۱۳۴) اور نمازِ عشاء کے بعد (ف۱۳۵) یہ تین وقت تمہاری شرم کے ہیں (ف۱۳۶) ان تین کے بعد کچھ گناہ نہیں تم پر نہ اُن پر (ف۱۳۷) آمدورفت رکھتے ہیں تمہارے یہاں ایک دوسرے کے پاس (ف۱۳۸) اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لیے آیتیں اور اللہ علم و حکمت والا ہے

(ف130)

اور باندیاں ۔

شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انصاری غلام مدلج بن عمرو کو دوپہر کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بلانے کے لئے بھیجا وہ غلام ویسے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان میں چلا گیا جب کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بے تکلّف اپنے دولت سرائے میں تشریف رکھتے تھے غلام کے اچانک چلے آنے سے آپ کے دل میں خیال ہوا کہ کاش غلاموں کو اجازت لے کر مکانوں میں داخل ہونے کا حکم ہوتا ۔ اس پر یہ آیۂ کریمہ نازِل ہوئی ۔

(ف131)

بلکہ ابھی قریبِ بلوغ ہیں ۔ سنِ بلوغ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک لڑکے کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکی کے لئے سَترہ سال ، عامہ عُلَماء کے نزدیک لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے پندرہ سال ہے ۔ (تفسیرِ احمدی)

(ف132)

یعنی ان تین وقتوں میں اجازت حاصل کریں جن کا بیان اسی آیت میں فرمایا جاتا ہے ۔

(ف133)

کہ وہ وقت ہے خواب گاہوں سے اٹھنے اور شب خوابی کا لباس اتار کر بیداری کے کپڑے پہننے کا ۔

(ف134)

قیلولہ کرنے کے لئے اور تہ بند باندھ لیتے ہو ۔

(ف135)

کہ وہ وقت ہے بیداری کا لباس اتارنے اور خواب کا لباس پہننے کا ۔

(ف136)

کہ ان اوقات میں خلوت و تنہائی ہوتی ہے ، بدن چھپانے کا بہت اہتمام نہیں ہوتا ممکن ہے کہ بدن کا کوئی حصّہ کھل جائے جس کے ظاہر ہونے سے شرم آتی ہے لہذا ان اوقات میں غلام اور بچے بھی بے اجازت داخل نہ ہوں اور ان کے علاوہ جوان لوگ تمام اوقات میں اجازت حاصل کریں کسی وقت بھی بے اجازت داخل نہ ہوں ۔ (خازن وغیرہ)

(ف137)

مسئلہ : یعنی ان تین وقتوں کے سوا باقی اوقات میں غلام اور بچے بے اجازت داخل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ ۔

(ف138)

کام و خدمت کے لئے تو ان پر ہر وقت استیذان کا لازم ہونا سببِ حرج ہوگا اور شرع میں حرج مدفوع ہے ۔ (مدارک)

وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۵۹)

اور جب تم میں لڑکے (ف۱۳۹) جوانی کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اِذن مانگیں (ف۱۴۰) جیسے ان کے اگلوں (ف۱۴۱) نے اِذن مانگا اللہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے اپنی آیتیں اور اللہ علم و حکمت والا ہے

(ف139)

یعنی آزاد ۔

(ف140)

تمام اوقات میں ۔

(ف141)

ان سے بڑے مَردوں ۔

وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیْنَةٍؕ-وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۶۰)

اور بوڑھی خانہ نشین عورتیں (ف۱۴۲) جنہیں نکاح کی آرزو نہیں ان پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے بالائی کپڑے اُتار رکھیں جب کہ سنگھار نہ چمکائیں (ف۱۴۳) اور اس سے بچنا (ف۱۴۴) ان کے لیے اور بہتر ہے اور اللہ سُنتا جانتا ہے

(ف142)

جن کا سن زیادہ ہو چکا اور اولاد ہونے کی عمر نہ رہی اور پیرانہ سالی کے باعث ۔

(ف143)

اور بال ، سینہ ، پنڈلی وغیرہ نہ کھولیں ۔

(ف144)

بالائی کپڑوں کو پہنے رہنا ۔

لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآىٕكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًاؕ-فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةًؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠(۶۱)

نہ اندھے پر تنگی (ف۱۴۵) اور نہ لنگڑے پر مضائقہ اور نہ بیمار پر روک اور نہ تم میں کسی پر کہ کھاؤ اپنی اولاد کے گھر (ف۱۴۶) یا اپنے باپ کے گھر یا اپنی ماں کے گھر یا اپنے بھائیوں کے یہاں یا اپنی بہنوں کے گھر یا اپنے چچاؤں کے یہاں یا اپنی پھپیوں کے گھر یا اپنے ماموؤں کے یہاں یا اپنی خالاؤں کے گھر یا جہاں کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہیں (ف۱۴۷) یا اپنے دوست کے یہاں (ف۱۴۸)تم پر کوئی الزام نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ (ف۱۴۹) پھر جب کسی گھر میں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو (ف۱۵۰) ملتے وقت کی اچھی دعا اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ اللہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے آیتیں کہ تمہیں سمجھ ہو

(ف145)

شانِ نُزول : سعید بن مسیّب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کو جاتے تو اپنے مکانوں کی چابیاں نابینا اور بیماروں اور اپاہیجوں کو دے جاتے جو ان اعذار کے باعث جہاد میں نہ جا سکتے اور انھیں اجازت دیتے کہ ان کے مکانوں سے کھانے کی چیزیں لے کر کھائیں مگر وہ لوگ اس کو گوارا نہ کرتے بایں خیال کہ شاید یہ ان کو دل سے پسند نہ ہو اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور انہیں اس کی اجازت د ی گئی اور ایک قول یہ ہے کہ اندھے اپاہج اور بیمار لوگ تندرستوں کے ساتھ کھانے سے بچتے کہ کہیں کسی کو نفرت نہ ہو اس آیت میں انہیں اجازت دی گئی اور ایک قول یہ ہے کہ جب جب اندھے ، نابینا ، اپاہج کسی مسلمان کے پاس جاتے اور اس کے پاس ان کے کھلانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو وہ انہیں کسی رشتہ دار کے یہاں کھلانے کے لئے لے جاتا یہ بات ان لوگوں کو گوارا نہ ہوتی ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

(ف146)

کہ اولاد کا گھر اپنا ہی گھر ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے ، اسی طرح شوہر کے لئے بیوی کا اور بیوی کے لئے شوہر کا گھر بھی اپنا ہی گھر ہے ۔

(ف147)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اس سے مراد آدمی کا وکیل اور اس کا کار پرداز ہے ۔

(ف148)

معنٰی یہ ہیں کہ ان سب لوگوں کے گھر کھانا جائز ہے خواہ وہ موجود ہوں یا نہ ہوں جب کہ معلوم ہو کہ وہ اس سے راضی ہیں ، سلف کا تو یہ حال تھا کہ آدمی اپنے دوست کے گھر اس کی غَیبت میں پہنچتا تو اس کی باندی سے اس کا کیسہ طلب کرتا اور جو چاہتا اس میں سے لے لیتا جب وہ دوست گھر آتا اور باندی اس کو خبر دیتی تو اس خوشی میں وہ باندی کو آزاد کر دیتا مگر اس زمانہ میں یہ فیاضی کہاں لہذا بے اجازت کھانا نہ چاہئیے ۔ (مدارک و جلالین)

(ف149)

شانِ نُزول : قبیلۂ بنی لیث بن عمرو کے لوگ تنہا بغیر مہمان کے کھانا نہ کھاتے تھے کبھی کبھی مہمان نہ ملتا تو صبح سے شام تک کھانا لئے بیٹھے رہتے ۔ ان کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی ۔

(ف150)

مسئلہ : جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے اہل کو سلام کرے اور ان لوگوں کو جو مکان میں ہوں بشرطیکہ ان کے دین میں خلل نہ ہو ۔ (خازن)

مسئلہ : اگر خالی مکان میں داخل ہو جہاں کوئی نہیں ہے تو کہے ” اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَ رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰـی وَبَرَکَاتُہ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلٰی اَہْلِ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ اﷲِ تَعالٰی وَبَرَکَاتُہ،”حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ مکان سے یہاں مسجدیں مراد ہیں ۔ نخعی نے کہا کہ جب مسجد میں کوئی نہ ہو تو کہے ” اَلسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ سَلَّمْ ”(شفاشریف) ملَّا علی قاری نے شرح شفا میں لکھا کہ خالی مکان میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام کے گھروں میں روحِ اقدس جلوہ فرما ہوتی ہے ۔