اہل اسلام کا مشرکین سے بائیکاٹ اور افلاس کا اندیشہ
اہل اسلام کا مشرکین سے بائیکاٹ اور افلاس کا اندیشہ ۔
✒️ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کا نواں سال تھا ۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت ابوبکر کی امارت میں صحابہ کرام کو حج کے لیئے روانہ فرمایا ۔ سورة التوبة کی آیات براءت ( مشرکین سے بائیکاٹ) نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو یہ آیاتِ براءت میدان حج میں علی رؤس الاشھاد اعلان کرنے کے لئے بھیجا ۔
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کے کلام مقدس کی آفاقیت و عالمگیریت و ابدیت کہ ملک عزیز پاکستان کا وزیراعظم اور ہم نوا جن خطرات کا اظہار کر رہے ہیں اور اہل پاکستان کو مطمئن کرنے کے جو دلائل دے رہے ہیں وہ سب اور ان کا علاج خداوندی درج ذیل آیت مبارکہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
🌹 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ( سورة التوبة 28)
✒️ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے صرف حکام و امرآء کو نہیں بلکہ جہان بھر کے تمام اہل ایمان کو مخاطب کیا ہے یعنی ہر صاحب ایمان کی یہ ذمہ داری ہے۔
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ۔
طے شدہ بات یہی ہے کہ سارے مشرک نجس ہیں ۔
ان کی نجاستوں اور خباثتوں کی بناء پر تم سب یقینی بناؤ کہ
فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا
اس برس کے بعد وہ مسجد حرام و حدود حرم میں داخل ہونا تو دور کی بات ، ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں ۔
ریاست مدینہ منورہ ابھی کسی طور مستحکم نہ تھی ۔ مسلمانوں کی مالی حالت بھی پتلی تھی ۔ صنعت و حرفت تھی ہی نہیں ، قدیم طرز کی زراعت و باغبانی اور سال میں ایک آدھ تجارتی سفر ہی ظاہری وسیلہ روزگار تھے ۔ حدود حرم شریف سے مشرکین کو روکنا ظاہر ہے یکطرفہ تو رہ نہیں سکتا تھا ۔ انہوں نے جواباً متحد ہو کر مسلمانوں کا مؤثر بائیکاٹ کرنا تھا ، جس کے مسلمہ نقصانات و افلاس کے اندیشے کچھ صحابہ کرام کے ذہنوں میں آ بھی سکتے تھے ۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کو صحابہ سے خاص محبت ہے اور سچے مؤمنین سے بھی ۔ وہ ان کی سوچوں کو بھی منفی تصورات سے ارفع و پاکیزہ رکھنا پسند رکھتا ہے ۔ چنانچہ پہلے ہی فرما دیا
وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (28)
اور اگر تمہیں اہل و عیال کی ضروریات کی عدم دستیابی اور پورے ملک کے معاشی افلاس کا اندیشہ ہو تو ( اس خوف میں مبتلا نہ ہونا اور یقین رکھنا کہ ) مشیت الٰہی ہوئی یعنی تمہارے حق میں بہتر ہوا تو جلد ہی اللہ اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا ۔ یقینا اللّٰہ ( تمھاری ضروریات سے ) بخوبی آگاہ ہے ( اور کب ؟کتنا؟ کیسے؟ کہاں سے دینا ہے ) سبھی حکمتیں اسی کی ہیں ۔
جو مسلمان یہ یقین رکھے کہ میں جب اللّٰہ کا ہو گیا ہوں تو علیم و حکیم اللہ رب العالمین بھی میرے ساتھ بے ۔ اگر غنی ہونا میرے لئیے بہتر ہوا تو ضرور غنی کر دے گا اور اگر اس کا عکس بہتر ہوا تو وہی کرے گا لیکن یہ کیا کم ہے کہ اس کی مشیت کے تحت ہوں ۔
🤲 اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ان حضرات صحابہ کرام کے تصدق اس فقیر خالد محمود اور اس کی تا قیامت نسل کو اپنی مشیت خیر سے نوازے رکھے ۔ ہر آن راضی رہے۔ اپنی ہر نعمت مکمل فرمائے ۔
فقیر خالد محمود
جامع مسجد حضرت سیدہ خديجة الكبرى رضى الله تعالى عنها و ارضاها عنا .
19 رمضان المبارک 1442
2 مئی 2021