متعہ، حلالہ اور نکاح۔

معاشرتی ناسوروں میں دو ناسور متعہ اور حلالہ بھی ہیں ۔رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر بول نیوز کے پروگرام میں ہونے والے ایک ڈبیٹ میں متعہ اور حلالہ کو موضوعِ سخن بناکر عوامِ مسلمین کو گمراہی وبدکاری کی گہری کھائی میں دھکیلنے کی خوب کوشش کی گئ اللہ کریم فریقین کو ہدایت نصیب فرمائے ۔۔

اہلِ تَشَیُّع متعہ کو جائز مانتے ہیں تو اہلِ سنت حنفی کہنے والوں میں سے کچھ کج فکر لوگ فقہ حنفی میں مُرَوّجہ حلالہ کا جواز تلاش کرتے ہیں حالانکہ نکاحِ متعہ خالص زنا، فعلِ بد اور حرام کاری ہے یونہی مُرَوّجہ حلالہ لعنتی ومکروہ فعل ہے اور بےحیائی کے کاموں میں سے ایک کام ہے ۔۔

آج کے اِس کالم میں ہم نکاحِ شرعی کی تعریف، متعہ کی تعریف، مُرَوّجہ حلالہ کی تعریف کی اور اِن سب کی شرعی حیثیات بیان کریں گے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جانیں گے کہ مذھب کے ترجمان کو فھمِ عبارات کےلئے کیا چیز ضروری ہے ۔۔

کالم لکھنے میں معاون ومددگار کتابوں میں سے 4 کتابیں اِس وقت میرے پیشںِ نظر ہیں ۔

نمبر 1مقالاتِ سعیدی نمبر 2  الرسائل والمسائل جلد 1 نمبر 3 الارشاد والاسترشاد فی الاسلام نمبر4 بہارِ شریعت۔

نکاح کی شرعی تعریف :::

وہ عقدِ دائمی جو اِس لئے مقرر کیا گیا کہ عورت سے نفع اٹھانا مرد کےلئے حلال ہو ۔

شرائط نکاح

نکاح کی چار شرائط ہیں ۔

نمبر 1

عاقل ۔۔۔۔یعنی مردوعورت دونوں عقلمند ہوں ۔۔ناسمجھ اور پاگل کا نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوتا ۔

نمبر 2

بالغ ۔۔۔۔۔یعنی دونوں بالغ ہوں ۔

نمبر3

گواہوں کا موجود ہونا ۔۔۔یعنی عقدِ نکاح(ایجاب وقبول ) کے وقت دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں موجود ہوں ۔۔۔۔۔

ضروری نوٹ

اگر کسی نے بند کمرے میں یا کسی پارک میں اکیلے جانو کے ساتھ اُس کی طرف متوجہ ہوکر کہا میں تیرا شوہر تو میری بیوی اور جانو نے بھی جواباً کہا مجھے قبول ہے یہ نکاح باطل ہے اصلاً نکاح ہی نہیں ہے ۔اگر مذکورہ صورت میں کوئی حرکت کریں گے تو وہ بدکاری ہی کہلائے گی ۔

نمبر4

مردوعورت کا گواہوں کی موجودگی میں ایک ہی مجلس میں ایجاب وقبول کرلینا ۔۔۔۔۔

اہم وضاحت

اگر جانو پاکستان میں ہے اور مانو دبئ میں اِس صورت میں ایجاب وقبول کررہے ہیں تو یہ نکاح بھی درست نہیں کیونکہ مجلس دونوں کا ایک نہیں ہے ۔

ممکنہ سوال

جب نکاح کی تعریف اور شرائط اتنی آسان اور واضح ہیں تو پھر لوگ متعہ کے ذریعے کی جانے والی خالص زنا کو نکاحِ متعہ اور حلالہ کے ذریعے ہونے والی بےغیرتی وبےحیائ کو نکاحِ حلالہ کا نام کیوں دیتے ہیں ؟

جواب

فکری بدہضمی ،جھالت ،تعصّب اور مخصوص زاویہ سوچ کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔

بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ فھمِ عبارات تک پہنچنے واسرارِ دین جاننے کےلئے پاکیزہ دل، اور لاشرقی لاغربی ذھن ہونا ضروری ہے ورنہ مخصوص زاویہ خیالات والے لوگ نصوص کی اصل منشاء ومطلب سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔۔

متعہ کی تعریف

وہ عقد جس میں مقررہ معاوضہ کے بدلے ایک ایک خاص ٹائیم پیریڈ تک کسی عورت سے فائدہ اٹھانے کےلئے اُس کا مالک بننا ۔۔نہ اس میں گواہوں کی ضرورت نہ عورتوں کی مقررہ تعداد متعین بلکہ متعہ کےذریعے لاتعداد عورتوں سے منہ کالا کرسکتے ہیں ۔۔

متعہ خالص زنا اور حرام فعل ہے خدائے پاک مسلمانوں کو سمجھ نصیب فرمائے ۔۔

قرآن وحدیث ،آئمہ دین اور مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر علماء نزدیک متعہ ناجائز وحرام وبدکاری کا عمل ہے البتہ یہودیوں اور مجوسیوں کے مشترکہ عمل سے وجود میں آنے والے ایک گروہ کے نزدیک متعہ جائز ہے ۔ہم مسلمان ہیں ہمیں یہودیوں اور مجوسیوں سے کیا غرض ۔۔

حلالہ

بیوی کو تین طلاقیں دے کر عدت گزر

جانے کے بعد نکاح کراکے ایک آدمی کے حوالے کرنا تاکہ وہ اسے حلال کرے۔۔

حلالہ کا شرعی حکم

حلالہ ایک خالص بےحیائی والا کام ہے، مُرَوّجہ حلالہ کی اسلام میں گنجائش ہے نہ فقہ حنفی میں ۔

حدیثِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ ہے “الا اخبرکم بالتیس المستعار قالوا بلٰی یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال ھو المحلّل لعن اللہ المحلل والمحلّل لہ “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انسانوں میں اجرت پر لئے جانے والا سانڈ بکرا محلل ہے ۔اللہ نے محلل ومحلل لہ دونوں پر لعنت کی ہے ۔۔

حلالہ زمانہ جاہلیت میں مُرَوّج بےغیرتی پر مبنی ایک بد فعل تھا جسکو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سختی سے ناجائز کہا اور حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے دونوں پر لعنت کی ہے ۔۔

بعض کج فکر #مُلّا کہتے ہیں کہ فقہ حنفی نے حلالہ کو جائز قرار دیا ہے حالانکہ حلالہ کی گنجائش فقہ حنفی میں بالکل بھی نہیں ہے ۔۔۔

حلالہ پرست انسان نما سانڈ جوکہ اسلاف کی کتب کے مطالعہ سے محروم ہیں فقہ حنفی میں حلالہ کی گنجائش نکال کر ہمارے بےداغ امام امام الآئمہ فقیہِ بےبدل نعمان بن ثابت المعروف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کو کو بدنام کرکے فقہِ حنفی کےلئے جگ ہنسائی کا سامان کررہے ہیں ۔۔

فقہِ حنفی کے معتبر امام علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے “والاظھر بطلانہ ” یعنی نکاحِ حلالہ کا باطل ہونا ظاہر ہے ۔۔

اس کے بعد لکھا “قال الشمنی فانْ قلتَ مامعنٰی لعنھما؟

قلتُ معنی اللعن علی المحلّل لانہ نکح علی قصد الفراق، والنکاح شُرِعَ للدّوام وصار کالتّیسِ المُستعارِ۔

واللّعنُ علی المحلّل لہ لانّہ صار سببا لمثل ھذالنکاح والمراد اظھارُ خساستھما لانّ الطبع السلیم ینفر عن فعلھما “۔

شارح شمنی نے کہا کہ اگر تم دونوں اشخاص پر لعنت کئے جانے کی وجہ معلوم کرنا چاہتے ہو تو میں تمھیں بتادوں ۔وہ یہ ہے کہ حلالہ کے نام سے نکاح کرنے والے یعنی زوج ثانی پر اس لئے لعنت کی گئی کہ اس نے طلاق دینے کے ارادہ سے یہ نکاح کیا ہے حالانکہ نکاح کو مدت العمر کی وجہ سے روا رکھا گیا ہے، یہ شخص ضرورت کے تحت مانگ کرلیا گیا سانڈ بکرا کی طرح ہوا ۔۔

شوہرِ اوّل پر لعنت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس قسمِ بےغیرتی کا سبب بن گیا اور مقصد ان دونوں کی خساست وکمینگی مسلم معاشرہ پر ظاہر کرنا ہے اس لئے کہ بےغیرتی وبےمروتی سے محفوظ عزت دار نفس اس عمل سے نفرت کرتے ہیں ۔۔

فقہ حنفی کی معروف کتاب فتاوٰی تاتارخانیہ میں ہے “و سُئِل عن ابن احمد عمّن قال لامرئتہ انْ فعلتِ کذا فانتِ طالق ثلاثا ۔ثم انھا فعلتْ ذالک ولم یعلم الزوج بذالک ومضی علیھا ثلاثۃ قروء فتزوجت بزوجٍ آخر ودخل بھا ثم طلقھا ومضت علیھا ثلاثۃ اقراء ثم اخبرت الزوج الاوّل بما صنعت ۔۔۔۔۔

ھل تحل للاوّل ام لا؟

فقال ان لم یصدقھا الزوج فانھا لاتحل لہ بحال واِنْ صدّقھا فی التّزوّج بزوجٍ آخر والدخول بھا وغیر ذالک ۔فانھا لاتحل عندالفقھاء من اصحابنا وتحل عندالجھال من اصحابنا “۔۔

حضرت امام ابن احمد سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو کہا کہ اگر تونے فلاں کام کیا تو تجھے تین طلاق ہے پھر اس عورت نے وہ کام کر ڈالا لیکن اس کے خاوند کو اس کا علم نہ ہوا، اس عورت نے تین حیض عدت گزارنے کے بعد اپنے طور پر دوسرے شخص سے کے ساتھ نکاح کیا، نکاح کے اس شخص نے عورت سے ہمبستری بھی کی، بعد ازاں اسے طلاق دیی اور اس پر عدت کے تین حیض گزر گئے پھر اس نے اپنے پہلے والے خاوند کو صورتحال سے آگاہ کرکے نکاح کےلئے تیار کرنا چاہا ۔آیا یہ عورت اس کےلئے حلال ہوسکتی ہے یا نہیں؟

اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگرپہلے شوہر نے اس کی ان باتوں کو تسلیم نہیں کیا تو کسی بھی طرح وہ اس کےلئے حلال نہیں ہوسکتی اور اگر اس کی ان سب باتوں کو تسلیم کیا تب بھی ہمارے فقھائے کرام کے نزدیک اس کےلئے حلال نہیں ہوسکتی جبکہ ہماری صفوں میں رہنے والے جاہلوں کے نزدیک حلال ہے ۔۔

بعض جھلاء (کسی زمانے میں میں بھی اُن کی صفوں میں شامل تھا خدا میری جھالتیں دور فرمائے) مروجہ حلالہ کے جواز کےلئے آیت “فلاتحل لہ من بعد حتّی تنکح زوجاً غیرہ “سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ اُن کا یہ استدلال باطل ہے ۔۔

اس آیت کا صاف چٹا اور واضح مطلب یہ ہے کہ تین طلاقوں کے بعد عدت گزرجانے کی صورت میں عورت کسی اور مرد سے شرعی نکاح کرے پھر اگر شرعی نکاح اور ہم بستری کے بعد دوسرا شوہر فوت ہوجاتا ہے یا اس کے ساتھ نباہ نہیں ہو پارہا باامرِ مجبوری عورت طلاق لیتی ہے تو اب وہ پہلے شوہر کےلئے حلال ہوجائے گی ۔۔

یہ بھی مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ لوگ حلالہ جیسے لعنتی فعل کےلئے قرآن کی اس آیت کو مشقِ ستم بناکر قرآن جیسی لاریب کتاب کی غلط ترجمانی کرکے اسلام کو بدنام کررہے ہیں ۔۔

سورۃ بقرہ کی اسی آیت کےتحت فقہ حنفی کی معروف کتاب ہدایہ شریف میں لکھا ہے “حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا او یموت عنھا “

کہ نکاح صحیح ہوا۔ پھر اگر دوسرے شوہر نے طلاق دی ہے یا اس کی موت واقع ہوئی تو اب عورت پہلے شوہر کےلئے حلال ہوگی ۔۔

نکاح بشرطِ تحلیل مکروہ ہے اور شرطِ تحلیل صاف لفظوں میں ہو یا انڈراسٹڈ ہو ہردونوں میں صورتوں مکروہ تحریمی وناجائز عمل ہے ۔۔

ھدایہ شریف میں ہے ” واذا تزوجھا بشرط التحلیل فالنکاح مکروہ “

جب دوسرا شخص پہلے شوہر کےلئے حلال کرنے کی شرط پر اس عورت کے ساتھ نکاح کرے تو یہ نکاح مکروہ ہے ۔۔

بعض لوگ کہتے ہیں اس طرح نکاح کرنا اگرچہ مکروہ ہے لیکن عورت پہلے شوہر کےلئے پھر بھی حلال ہوجائے گی ۔۔

مکروہ تحریمی منھی عنہ فعل ہے ناجائز ہے اور خصوصی طور پر حلالہ جیسے غیر مہذب عمل کےلئے مکروہ کی مکروہیت اور زیادہ بڑھ جائے گی ۔جس چیز کو شرع نے منھی عنہ میں شمار کیا، اس کےارتکاب پر ناجائز کی وعید سنائی ایسے عمل کےذریعے عورت کیسے پہلے شوہر کےلئے حلال ہوسکتی ہے ؟۔۔

اللہ کریم دینِ اسلام کو اچھے علمائے کرام نصیب کرے جو فھمِ دین سے مالا مال ہوں اور عباراتِ اکابرین کی درست تفھیم سمجھاکر اسلام کی صحیح ترجمانی کریں ۔آمین۔

✍️ ابوحاتم

02/05/2021