بھارت میں جیل بھرو
sulemansubhani نے Monday، 3 May 2021 کو شائع کیا.
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
بھارت میں جیل بھرو آندولن
حضوراقدس تاجدار دوجہاں روحی فداہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کی خاطر سرفروشان ہند نے سر سے کفن باندھ لیا ہے۔وہ کفن بر دوش ہو کر تحفظ ناموس رسالت کے لئے نکلنے والے ہیں۔
ان سربکف عشاق حبیب خدا علیہ التحیۃ والثنا کو سلام۔ان گلی کوچوں اور شاہراہوں کو سلام جن سے وہ گزر کر جائیں۔ان کے قدموں تلے کی خاک فضائے ہند میں بکھیر دو,ان شاء اللہ تعالی وبائی امراض ملک سے بھاگ کھڑے ہوں گے۔
غبار راہ سے کہہ دو سنبھالے نقش قدم
زمانہ ڈھونڈھے گا انہیں رہبری کے لئے
سی اے اے کا معاملہ درپیش ہوا تو سب سے پہلے جامعہ ملیہ(دہلی)اور مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) کے بچوں نے مظاہرہ شروع کیا۔ کالج ویونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کو ملکی قوانین معلوم ہوتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ قانون کی روشنی میں کب کیا کرنا ہے؟
اگر کوئی یہ کہے کہ پولیس نے ان بچوں پر ظلم وستم ڈھایا تو جواب یہ ہے کہ یہ غیر قانونی عمل تھا۔اس کی توقع نہیں تھی۔
جمہوری ممالک میں احتجاج و مظاہرہ اہل ملک کا ایک اہم حق ہے۔دراصل وہ اظہار رائے کی ایک مضبوط وقوی شکل ہے۔ملیہ وعلی گڑھ کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہوئے,بلکہ دنیا بھر میں احتجاج و مظاہرے ہونے لگے۔
اگر ہم احتجاج کا سلسلہ ختم کردیں۔صرف کورٹ جائیں تو کورٹ جانے میں بھی خطرہ ہے کہ آتے جاتے کسی مقام پر غنڈوں سے حملہ کرا دیا جائے,جیسے جے این یو میں غنڈوں نے بچوں پر حملہ کیا تھا۔
ظلم وستم کا خطرہ ہر جگہ ہے۔احتجاج و مظاہرہ میں بھی ظلم وستم کا خطرہ۔کورٹ جانے میں بھی ظلم وستم کا خطرہ۔اگر خاموش رہیں تو بھی ظلم وستم کا خطرہ ہے۔
خموشی کے سبب کشمیر میں تادم تحریر دس ہزار سے زائد مسلم بہن بیٹیوں کی عصمتیں تارتار ہو چکی ہیں۔فوجی لوگ مرودں کو گھر سے باہر نکال دیتے ہیں اور گھر کے اندر ان کی مستورات کے ساتھ بدکاری کرتے ہیں۔
مرد لوگ گھر کے باہر کھڑے رہتے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔وہ بے بس اور مجبور ہوتے ہیں۔ان کے لئے اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے۔
دیگر ریاستوں کے مسلمانوں نے بھی نہ کبھی اس پر آواز اٹھائی,نہ کورٹ گئے,نہ حکومت کے اعلی ذمہ داروں سے ملاقات کی۔ان کو کشمیری مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا,یا پھر اہل حکومت سے اس قدر خوف زدہ رہے کہ قانونی انداز میں بھی ڈیفنس نہ کر سکے۔
مان لیا جائے کہ حالیہ چند سالوں سے بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مظاہرین پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔کیا جن ریاستوں میں مظاہرین پر گولی نہیں چلائی جاتی,وہاں بھی مظاہرہ سے بچنا چاہئے؟
جن لوگوں نے مظاہرہ سے بچنے کی تلقین کی ہے,کیا وہ کورٹ جانے کی تائید کرتے ہیں؟
دشمنوں سے بھی خود کو محفوظ رکھیں,نیز قہر خداوندی سے بھی ڈرتے رہیں۔
مسلم تحریکوں کا جیل بھرو آندولن:
جیل بھرو آندولن جمہوری ممالک میں پبلک کا ایک قانونی حق ہے۔نرسنگھانند کی گرفتاری کے لئے تحریک فروغ اسلام اور دیگر خوش نصیب تحریکیں 04:مئی 2021 کو جیل بھرو آندولن کی قیادت کر رہی ہیں۔ہم سو فی صد ان کے ساتھ ہیں۔
ان تمام تحریکوں سے بصد ادب عرض ہے کہ ایسے معاملات میں مایر علمائے کرام سے صرف جواز و عدم جواز کا فتوی دریافت کریں۔دیگر مشورے وکیلوں سے کریں۔پولیس کے اعلی افسران سے ملیں۔ حکومتی وزرا اور ایم ایل اے اور ایم پی سے ملیں۔خواہ وہ کسی پارٹی کے ہوں۔
الیکشن میں جیتا ہوا ہر ممبر پبلک کا نمائندہ ہوتا ہے,خواہ وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔
اگر این آر سی کا معاملہ علما کے زیر قیادت ہوتا تو نہ مظاہرے ہوتے,نہ حکومت خوف زدہ ہوتی,بلکہ لاک ڈاؤن کے باوجود این آر سی کا سسٹم نافذ ہو جاتا۔آج نہ جانے کتنے لوگ ڈٹنشن سنٹر میں نظر آتے۔
قوانین اور حالات سے نا آشنا ہونے کے سبب دنیاوی امور میں علمائے دین کا ہر مشورہ قابل عمل نہیں۔
ہماری تائید اور شرائط تائید
1-جیل بھرو آندولن کے لئے لامحالہ ڈی سی آفس جانا ہو گا,جہاں گرفتاری دینی ہے۔
اگر لاک ڈاون کے سبب حکومت کی طرف سے سڑکوں پر نکلنے کی پابندی ہو تو نہ جائیں اور اگلی تاریخ کا اعلان کریں۔
2-حکومت کی طرف سے سڑکوں پر نکلنے کی اجازت ہے تو ضرور جائیں اور حکومتی گائیڈ لائنس پر عمل کریں۔
گرفتاری نہ ہونے پر چند گھنٹوں کے لئے دھرنا پر بھی بیٹھیں۔اس کے بعد واپس آ جائیں اور اعلان کر دیں کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد دوبارہ جیل بھرو آندولن پر غور کیا جائے گا۔
غیر مدتی دھرنا کی میں تائید نہیں کرتا,کیوں کہ ہمارے پاس بہت سے آپشنز موجود ہیں اور مظاہرین پر پولیس کے لوگ ظلم وستم کرتے ہیں۔خاص کر بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلم مظاہرین پر ظلم وستم کوئی پوشیدہ بات نہیں۔
ایسی صورت میں لازم ہے کہ ہم محفوظ صورتوں کو اختیار کریں اور عوام کا جذبہ بیدار رکھیں۔کورٹ سے بھی رجوع کریں اور معاملہ کے حل کی دیگر صورتیں بھی اختیار کریں۔
غیر مسلم تنظیموں سے بھی رابطے مضبوط بنائے جائیں۔بوقت ضرورت وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ آتے رہے ہیں۔غیر مسلموں میں تمام لوگ متعصب نہیں۔ہاں,آرین قومیں متعصب بھی ہیں اور فتنہ پرور بھی۔
سب سے اہم ڈیفنس یہ ہے کہ بھارتی مسلمان اپنی سیاسی قوت بڑھائیں۔سیاسی میدان میں اتریں۔انتخابات میں خود امید وار بنیں۔ایک سیٹ پر چند مسلم امیدوار کھڑے نہ ہوں۔
جہاں آپ کے جیتنے کی امید ہو اور کوئی پارٹی ٹکٹ نہ دے تو آزاد امیدوار بن کر جیت حاصل کریں۔
مسلم بچے اب تعلیم حاصل کر رہے ہیں,لیکن سیاست سے بہت دور ہیں۔یہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔سیاست سے دوری کے سبب دیگر خطرات جنم لے رہے ہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:03:مئی 2021