وسیلہ، توسل و استغاثہ کی نفی، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے
کچھ لوگ امام ابوحنیفہ سے ایک عبارت بیان کر کے اسکا غلط اور باطل مطلب لے رہے ہیں جان بوجھ کر یادھوکا دیا جا رہا ہے یہ فقہ حنفی کے اصول سے نا واقف ہیں
وسیلہ، توسل و استغاثہ کی نفی، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے :
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا:
“کسی کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ اللہ سے دعا کرے مگر اسی کے واسطے سے،اور جس دعا کی اجازت ہے اور جس کا حکم ہے وہ وہی ہے جو اللہ تعالی کے اس قول سے مستفاد ہے{وَلِلّـٰهِ الْاَسْـمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِـهَا ۖ وَذَرُوا الَّـذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِىٓ اَسْـمَآئِهٖ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (180)
اور سب اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو اسے انہیں ناموں سے پکارو، اور چھوڑ دو ان کو جو اللہ کے ناموں میں کجروی اختیار کرتے ہیں، وہ اپنے کیے کی سزا پا کر رہیں گے۔}
2•امام ابو حنیفہ رحمہ نے کہا:”مکروہ ہے کہ دعا کرنے والا یوں کہے کہ میں بحق فلاں،یا بحق انبیاء ورسل تیرے،یا بحق بیت حرام و مشعر حرام تجھ سے سوال کرتا ہوں”۔
[الدرالمختار مع حاشیہ ردالمختار٢/٣٩٤،٣٩٧.]
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا:” کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ اللہ سے دعا کرے مگر اسی کے واسطے سے،اور میں یہ بھی مکروہ سمجھتا ہوں کہ دعا کرنے والا یوں کہے کہ تیرے عرش کی عزت کی بندشگاہ کے واسطے،یا بحق تیری مخلوق کے”۔[شرح الفقہ الاکبر،ص:١٩٨]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب :
بھی عبارات اوپر پیش کی گئی ہیں ان میں بحق کے الفاظ کو مکروہ کہنے کی علت موجود ہے اور وہ علت ہے لفظ حق۔
علامہ سبکی ؒ شفاء السقام ص ۱۴۵ پر فرماتے ہیں :
ولیس المراد بالحق الواجب فانه لا یجب علی اللہ شئیی۔
حق س مراد یہ ہرگرز نہیں ہے کہ خدا پر وہ چیز لازم و واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے
اور متقدمین میں یہ عقیدہ معتزلہ کا تھا جنکے مشابہت کی وجہ سے روکا گیا جسکی تفصیل آگے آئے گی
جبکہ توسل کے لیے بحک جس زمرے میں استعمال کیا جاتا ہے اس کے بارے امام سبکی کہتے ہیں :
: الحق بمعنی الوعد الثابت المتحقق الوقع فضلا لا وجبا
[شفاء السقام ص ۵]
: حق سے مراد وہ وعدہ ہے جس کا وقع یقینی ہے ۔ خدا پر واجبت نہیں بلکہ اسکا فضل ہے
اور اسکے علاوہ قرآن و حدیث میں حق کے الفاظ اللہ کی ذات کے لیے استعمال بھی ہوئے ہیں جیسا کہ :
وکان حقا نصر المومنین (الروم ۴)
اور مومنین کی مدد کرنا ہمارا حق ہے ۔
۲۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
ان لا یعذ بهم (صحیح مسلم ، ج ۱ ص ۴۴)
اللہ پر بندوں کا حق یہ ے کہ ان کو عاب نہ دے
معلوم ہوا اللہ کی طرف امت کے لیے حق ایک عقیدہ کے ساتھ سنت رسول اور مستحسن ہے اور ایک مکروہ ہے
جیسا کہ
کہ فقہا کرام کو آخر ان عبارتوں سے بحق یا حق کے الفاط کو مکروہ کیوں کہنا پڑا ؟
علامہ ابن عابدین حنفی ؒ نے بیان کیا ہے
وجاء فی الا ثار ما دل علی الجواز (قوله لا نه لا حق للخلق علی الخالق) قد یقال انه لا حق لهم وجوبا علی اللہ تعالیٰ لکن اللہ سبحانه و تعالیٰ جعل لهم حقا من فضیله او یر اد بالحق الحرمة والعظیمة
[رد المختار الدارالمختار ، ج۲، ص ۳۹۷]
چناچہ امام شا عبدالعزیز محدث انی کتاب تفسیر عزیزی میں سورہ البقرہ میں آیت ولکم فی الارض مستقر و متاع الی حین کے تحت لکھتے ہیں :
فقہا کرام نے حق فلاں کے کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے اس کے بعد شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں
کہ معتزلہ کے مذہب میں بندہ کا علم بندہ کی پیداوار ہے اور اللہ نے اس کے عم کا اجر مقرر کیا ہے ۔ یہ اجر بندے کا حق ہے ایسا حق کہ جو حقیقی ہے یہ مذہب معتزلیوں کا ہے لہذا فقہا کرام نے اس کے استعمال سے منع کیا ہے اور معلوم ہوا کہ یہ بحق کے استعمال کا مکروہ ہونا معتزیوں کے رد کی وجہ سے تھا
لہذا تحقیق سے معلوم ہوا کہ فقہا کرام کا لفظ بحق کو بمعنی واجب مکروہ لکھا ہے اور اس لفظ کے استعمال کو ممنوع لکھا ہے
اور آج کے دور میں یہ فقہ اپنی موت آپ مر چکا ہے تو اب ان الفاط سے دعا کرنے سے باکل معتزلہ کی کوئی مشابہت نہیں ہوگی
تو اب یہ دعا ان الفاظ کے ساتھ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق مانگی جا سکتی ہے اور کسی کو ان الفاظ سے اب معتزلہ کی مشابہت
کا ڈر نہیں ہوگا
تو ثابت شدہ دعائیں جس میں بدعتیوں کی مشابہت کا فتنہ پیدا ہوتا تھا کہ تمیز نہ ہو سکے ان الفاظ کو استعمال کرنے والا اہل سنت کا ہے یا بدعتی تو ایسی دعائیں مکرہ قرار دی جاتی تھیں یہ فقہاء کا منہج ہے
فقہا کرام نے اس طرح دیگر الفاط کے ساتھ بھی دعا کو مکروہ کہا مگر اسکی علت انکے معنی کے نا پسندیدگی ہوتی ہے نہ کہ انکو رک اور حرام ہونا
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک روایت
الهم انی اسالك قد العزمن عرشك (مجمع الزوائد امام ہیثمی ، برقم ۱۷۰۶)
ترجمہؒ اے اللہ ، عرش سے تیری عزت کے تعلق اور وابستگی کے وسیلے سے میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں
علامہ ہیثمی لکھتے ہیں ؒ
رواتہ الطبرانی و اسنادہ حسن ۔
اس طرح کی دعا کے بارے میں فقہا کرام نے مکروہ ہونا لکھتے ہیں اور اسکی وجہ باتے ہیں کہ :
ویکرہ (قوله فی الدعا ء اسالك بمعقد العز من عرشق)
لانه یوهمتعلق عزه بالعرش المحدث واللہ تعالیٰ جبمیع صفاته قدیم
(مجمع الانہر فی شرملتقی الابہر ، ج۲، ص ۵۵۴)
تو یہاں امام ابو حنیفہ نے جو مکرہ کہا ہے دعا کو وہ بحق کی وجہ سے کہا ہے
ااور وہ بھی اس لیے کہ اس دور میں معتزلہ سے مشابہت کا فتنہ تھا
آج ایسا کوئی فرقہ نہیں جسکا یہ عقیدہ ہو کہ مخلوق کا اللہ پر حق حقیقی ہے اس لیے اب بحق کا لفظ استعمال کیا جائے گا
لہذا فقہاکرام نے اس کے استعمال سے منع کیا اس تحقیق سے یہ معلوم ہو کہ فقہا کرام کا لفظ بحق کے لفظ کو بمعنی واجب مکرہ لکھا ہے ، اس لفظ کے استعمال کو ممنوع لکھا تاکہ متعزلہ سے مشابہت نہ ہو ۔
جیسا کہ حدیث رسولﷺ میں موجود ہے
اور احناف کے متقدمین سے متاخرین تک سب توسل کے قائل ہیں کسی حنفی جید امام نے بحق لفظ سے توسل کی نفی کا مطلب نہیں لیا نہ ہی امام ابو حنیفہ کا یہ موقف تھا
بلکہ امام ابن حجر نے اپنی تصنیف میں امام ابو حنیفہ سے منسوب قصیدہ لکھا ہے جس میں نبی اکرمﷺ کا وسیلہ ہے