ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
مسجد اقصی میں عبادت میں مصروف اہل ایمان پر اسرائیلی دہشت گردوں نے بدترین درندگی کا مظاہرہ کیا ہے جس پر عالمی دنیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
مسجد اقصی پر یہودویوں کا یہ بے بنیاد دعوی کہ جس ہر عالمی دنیا کو رام کر رکھا ہے “یہ مسجد ہیکل سلیمانی کو منہدم کر کے بنائی گئی ہے” اس کی تردید خود ان کی اپنی مذہبی کتب اور اپنی ہی لکھی ہوئی تاریخ بھی کرتی ہے جس پر تفصیلی مضمون میں نے اپنی کتاب تحفظ ناموس رسالت اسلامی و عالمی قانون میں تحریر کیا تھا۔
ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کا محل وقوع:
اسلامی مصادر میں قبلہ اول مسجد اقصی (بیت المقدس) کا ذکر قرآن پاک میں نبی اکرمﷺ کے سفر معراج میں ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿۱﴾ (سورة الإسراء آیت 1) (پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو، راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے) تاریخ اسلام بیت المقدس کی تعمیر کو یہودیوں کی بیان کردہ تاریخ سے بہت قدیم بیان کرتی ہے علامہ ابن جوزی نےاس کی تعمیر کے حوالے سے چہ جائیکہ مؤرخین کا اختلاف ذکر کیا ہے کہ بعض کے نزدیک اس کی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی ہے اور بعض کے نزدیک سام بن نوح علیہ السلام نے اس کی تعمیر کی ہےاور بعض کے نزدیک حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کی تعمیر سے پہلے اس کی اولیاء اللہ نے تعمیر کی تھی۔(تاريخ بيت المقدس، المؤلف: جمال الدین، ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی (المتوفی: 597 ھ) ناشر: مکتبۃ الثقافیۃ الدینیۃ ص 37) لیکن یہ سب ادوار حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے کے ہیں۔ اس کی تعمیر کے بارے میں حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ میں نے ایک موقع پر آقاﷺ سے عرض کی: “يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلَ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى قُلْتُ كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً”. (بخاری) (اے اللہ کے رسول سب سے پہلے زمین پر کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ ﷺ نے جواب ارشاد فرمایا مسجد حرام، آپ فرماتے ہیں، میں نے عرض کی پھر کونسی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اقصیٰ۔ میں نے عرض کی ان دونوں کی تعمیر کے درمیان میں کتنی مدت ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا چالیس سال) مسلمانوں کے لیے یہ مسجد بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ مسلمانو ں کا قبلہ اول ہونے کے ساتھ ساتھ نبی اکرم ﷺ کی امامت انبیاء کا مقام بھی ہے۔اس مسجد کی فضیلت کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔” لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى”. (بخاری) (تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہﷺکی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد اقصیٰ) ایسے ہی ایک اور روایت میں اس میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کے حوالے سے آپ ﷺنے فرمایاہے۔ “فَضْلُ الصَّلَاةِ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ عَلَى غَيْرِهِ مِائَةُ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَفِي مَسْجِدِي هَذَا أَلْفُ صَلَاةٍ وَفِي مَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَمْسُمِائَةِ صَلَاةٍ”. (مسند بزار) (مسجد حرام میں نماز کی ادائیگی کا اجرو ثواب اس کے علاوہ دیگر مساجد کی بنسبت ایک لاکھ گنا زیادہ ہے، اور میری مسجد (مسجد نبوی)میں نماز کی ادائیگی کا اجرو ثواب ہزار نمازوں کے برابر ہے اوربیت المقدس میں نماز کی ادائیگی پر پانچ سو نمازوں کے برابر ثواب ہے) ایک اور روایت ہے۔ “عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، سَأَلَ اللّٰهَ ثَلَاثًا: حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ، إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ” فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ”. (سنن ابن ماجة) (عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: “جب سلیمان بن داؤد بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، ایک تو یہ کہ جب مقدمات میں فیصلہ کریں تو وہ اللہ کے فیصلے کے مطابق ہو، دوسری یہ کہ ان کو ایسی حکومت عطا ہو جو ان کے بعد کسی کو نہ ملے،تیسری یہ کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز ہی کے ارادے سے آئے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسےاسی دن اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: “دو چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمادیں، مجھے امید ہے کہ تیسری بھی انہیں عطا کی گئی ہو گی”)
تورات میں بیان کی گئیں روایات یا یہودیوں کی تاریخ میں حضرت سلیمان سے قبل ہیکل کا ذکر نہیں ملتا، یہودی جو طویل مدت بدویانہ زندگی بسر کرتے رہے اور لمبا عرصہ صحرا نوردی میں گزرا، اس دوران ان کی عبادت کے لیے کوئی ایک متعین عبادت گاہ نہ تھی، ان کے جس خیمہ میں “تابوت سکینہ” (جس میں گزشتہ انبیاء کے تبرکات رکھے تھے) رکھ دیا جاتا وہی عبادت خانہ بن جاتا۔ لہذا سب سے پہلے عبادت خانہ کی عمارت کا تصور حضرت داؤد کے دور (تقریبا 1010 ق.م)میں ملتا ہے،اس کے بارے میں عہد نامہ قدیم “سموئیل” میں مذکور ہے کہ: “2- تو بادشاہ نے ناتؔن نبی سے کہا دیکھ مَیں تو دیوار کی لکڑیوں کے گھر میں رہتا ہوُں پر خُدا کا صندُوق پردوں کے اندر رہتا ہے۔ 3 تب ناؔتن نے بادشاہ سے کہا جا جو کچھ تیرے دِل میں ہے کر کیونکہ خُداوند تیرے ساتھ ہے۔ 4 اور اُسی رات کو اَیسا ہُؤا کہ خُداوند کا کلام ناتؔن کو پہنچا کہ۔ 5- جا اور میرے بندہ دؔاؤد سے کہہ خُداوند یُوں فرماتا ہے کہ کیا تُو میرے رہنے کے لئے ایک گھر بنائے گا؟ 6- کیونکہ جب سے مَیں بنی اِسرائیل کو مِصؔر سے نکال لایا آج کے دِن تک کِسی گھر میں نہیں رہا بلکہ خَیمہ اور مسکن میں پھرتا رہا ہُوں”(سموئیل 2 باب 7) جب آپ تک یہ پیغام پہنچ گیا تو اس کے بارے میں ہے: “18- اُسی دن جاؔد نے داؔؤد کے پاس آکر اُس سے کہا جا اور یبُوسی ارَؔوناہ کے کھلِیہان میں خُداوند کے لئے ایک مذبح بنا۔ 19- سو داؔؤد جادؔ کے کہنے کے مُوافِق جَیسا خُداوند کا حکُم تھا گیا۔ 20- اور اؔرَوناہ نے نِگاہ کی اور بادشاہ اور اُس کے خادِموں کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ سو اؔرَوناہ نِکلا اور زمین پر سرنگُوں ہو کر بادشاہ کے آگے سجدہ کیا۔ 21- اور اؔرَوناہ کہنے لگا میرا مالک بادشاہ اپنے بندہ کے پاس کیوں آیا؟ داؔؤد نے کہا یہ کھلِیہان تجھ سے خریدنے اور خُداوند کے لئے ایک مذبح بنانے آیا ہُوں تاکہ لوگوں میں سے وبا جاتی رہے”۔ (سموئیل 2 باب 24) لیکن اس عبادت گاہ کی مستقل بنیادوں پر تعمیر و تکمیل حضرت سلیمان بن داؤد کے دور میں ہوئی اس کے بارے میں بائبل میں ہے: “1- اور بنی اسرائیل کے مُلک مصر سے نکل آنے کے بعد چار سو اسِّیویں سال اسرائیل پر سُلیمان کی سلطنت کے چوتھے برس زِیو کے مہینہ میں جو دُوسرا مہینہ ہے ایسا ہُوا کہ اُس نے خُداوندکا گھر بنانا شروع کیا۔ 2 اور جو گھر سُلیمان بادشاہ نے خُداوند کے لیے بنایا اُس کی لمبائی ساٹھ ہاتھ اور چوڑائی بیس ہاتھ اور اُونچائی تیس ہاتھ تھی”۔ اس میں آگئے بیان کیا کہ: “37- چوتھے سال زِیو کے مہینہ میں خُداوند کے گھر کی بُنیاد ڈالی گئی۔ 38- اور گیارھویں سال بُول کے مہینہ میں جو آٹھواں مہینہ ہے وہ گھر اپنے سب حصوں سمیت اپنے نقشہ کے مُطابق بن کر تیّار ہُؤا۔ یوں اُسکے بنانے میں اُسے سات سال لگے”۔(عہد نامہ قدیم، سلاطِین 1 باب 6-1تا 38)
لیکن آپ کی تعمیر کے بعد متعدد بار اسے تباہ و برباد کردیا گیا، جس کے بارے میں یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ:نبو کد نضر پنجم(Nebuchadnezzar V) نے 586-587 ق.م میں اپنی یروشلیم کی فتح کے موقع پر ہیکلِ سلیمانی کو تباہ وبرباد کر دیا جیسا کہ اس کے بارے میں بائبل عہد نامی قدیم میں ہے: “1- اور اُس کی سلطنت کے نویں برس کے دسویں مہینے کے دسویں دن یوں ہوا کہ شاہِ بابل نبو کدنضر نے اپنی ساری فوج سمیت یروشلیم پر چڑھائی کی اور اُس کے مقابل خیمہ زن ہوا اور اُنہوں نے اُس کے مُقابل گِردا گرد حصار بنائے”۔ اور کچھ آیات کے بعد مزید لکھا: “8- اور شاہِ بابل نبو کدنضر کے عہد کے اُنیسویں برس کے پانچویں مہینے کے ساتویں دن شاہِ بابل کا ایک خادم نبوزرادان جو جلوداروں کا سردار تھا یروشلیم میں آیا۔ 9- اور اُس نے خداوند کا گھر اور بادشاہ کا قصر اور یروشلیم کے سب گھر یعنی ہر ایک بڑا گھر آگ سے جلا دیا۔۔۔۔ 13- اور پیتل کے اُن سُتُونوں کو جو خداوند کے گھر میں تھے اور کُرسیوں کو اور پیتل کے بڑے حوض کو جو خداوند کے گھر میں تھا کسدیوں نے توڑ کر ٹُکڑے ٹُکڑے کیا اور اُنکا پیتل بابل کو لے گئے۔ 14- اور تمام دیگیں اور بیلچے اور گُلگیِر اور چمچے اور پیتل کے تمام برتن جو وہاں کام آتے تھے لے گئے”۔(عہد نامہ قدیم، سلاطین 2 باب 25) بائبل کی اس عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ بابل کی فوج نے نہ صرف ہیکل کو تباہ کردیا تھا بلکہ حضرت سلیمان کی تعمیر کی باقیات میں سے سونا چاندی کے ساتھ ساتھ ستون تک لے گئی تھی۔ اس لوٹ مار کا ذکر اس سے پچھلے باب میں بھی ہےاس میں لکھا ہے۔ 13- اور وہ خداوند کے گھر کے سب خزانوں اور شاہی محل کے سب خزانوں کو وہاں سے لے گیا اور سونے کے سب برتنوں کو جنکو شاہِ اسرائیل سُلیمان نے خداوند کی ہَیکل میں بنایا تھا اُس سے کاٹ کر خداوند کے کلام کے مطابق اُنکے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ 14- اور وہ سارے یروشلِیم کو اور سب سرداروں اور سب سُورماؤں کو جو دس ہزار آدمی تھے اور سب دستکاروں اور لُہاروں کو اسیر کر کے لے گیا۔ سو وہاں مُلک کے لوگوں میں سے سِوا کنگالوں کے اور کوئی باقی نہ رہا۔(سلاطین 2 باب 24)
اس کےانہدام کے تقریبا 70 سال بعد ہیکل دوم کی بنیاد رکھی جواس کے بعد 516 ق.م اور 70ء کے درمیان تک قائم رہا تھا۔مگر اس دوران بھی انطیوکس چہارم ایپی فینز (168 ق.م) (Antiochus IV Epiphanes)نے نہ صرف اس کے خزانوں کو لوٹ لیا بلکہ کتابوں کو بھی جلا ڈالا۔اور یہودیوں کا بدترین قتل عام کیا۔اس کےبارے میں آتا ہے:
He ordered his soldiers to cut down without mercy those whom they met and to slay those who took refuge in their houses. There was a massacre of young and old, a killing of women and children, a slaughter of virgins and infants. In the space of three days, eighty thousand were lost, forty thousand meeting a violent death, and the same number being sold into slavery.) 2. Maccabees Bible, King James Version 5:11-14)
اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ بے رحمی سے سب کو تہہ تیغ کر دیا جائے چاہے وہ سامنا کریں یا گھروں میں پناہ گزین ہوں۔ یہ جوانوں اور بوڑھوں کی نسل کشی تھی، عورتوں اور بچوں کا قتل عام اور کنواریوں اور شیرخوار وں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کردیا گیا۔تین دن کے عرصے میں اسی ہزار جانوں کا نقصان ہواچالیس ہزار کو سفاکانہ موت کا سامنا کرنا پڑا اور اتنی ہی تعداد کو غلام بنا کر فروخت کر دیا گیا۔
سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ بائبل ڈکشنری میں ہے کہ اس کے کچھ عرصہ بعد 54 ق.م میں کریسس (Crassus)نے اسے تخت وتاراج کیا۔اور کریسس کے حملہ کے چند سال بعد اس کے بارے میں آتا ہے کہ:
The whole Temple with all its buildings was destroyed by fire during the capture of Jerusalem by the forces of Titus in 70.A.D. (7th Day Adventist BD, p. 1099(
اس کے بعد 70ء میں طیطس کی فوجوں کے ہاتھوں یروشلیم پر قبضے کے دوران تمام ہیکل اپنی تمام تعمیرات کے ساتھ آگ کے ذریعے نیست ونابود کر دیا گیا۔بلکہ اس بربادی کی پیش گوئی بائبل میں حضرت عیسیٰ کے ساتھ بھی منسوب ہے۔
انجیل میں بھی آنے والے دور میں حضرت عیسیٰ کے حوالے سے اس کی تباہی کی پیش گوئی موجود ہے:
“Jesus left the temple and was walking away when his disciples came up to him to call his attention to its buildings. ‘Do you see all these things?’ he asked. ‘I tell you the truth, not one stone here will be left on another; every one will be thrown down”. (Matt.24:1-2 NIV Lk.21:5-6 (
1- اور یِسُوع ہَیکل سے نِکل کر جا رہا تھا کہ اُس کے شاگِرد اُس کے پاس آئے تاکہ اُسے ہَیکل کی عِمارتیں دِکھائیں۔ 2- اُس نے جواب میں اُن سے کہا کیا تُم اِن سب چِیزوں کو نہِیں دیکھتے؟ مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ یہاں کِسی پتھّر پر پتھّر باقی نہ رہے گا جو گِرایا نہ جائے گا۔
لہذا یہود و نصاریٰ کی اپنی تاریخ و صحف کے دلائل و شواہد سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ حضرت عمر نے اپنے دور میں بیت المقدس کی فتح کے وقت جہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قبۃ الصخرۃ اور براق باندھنے کی جگہ پر نماز ادا کی اور اس جگہ مسجد کی عمارت تعمیر کرنے کاحکم دیا وہ آج مسجد اقصی کہلاتی ہے۔ اس تعمیر سے پہلے اس پر ہیکل سلیمانی کا پچھلے سات سو سال سے کوئی وجود نہیں تھا۔ اس کی مزید تائید و تصدیق یہودیوں کے انسائیکلوپیڈیا سے بھی ہوتی ہے،وہ مسجد عمر کی تعمیر کے بارے میں لکھتے ہیں:
The mosque was built over a rock the traditions of which were sacred; probably the site was the same as that of the temple which Hadrian erected to Jupiter. (Jewish Encyclopedia published by: Funk & Wagnalls between 1901 and 1906)
مسجد کی تعمیر ایک چٹان پر کی گئی جس کے بارے میں روایات ہیں کہ وہ مقدس چٹان تھی۔غالباً اس کا محل وقوع ہیکل والا تھا جسے” ہیڈرین” نے ” جوپیٹر” کے لیے تعمیر کیا تھا۔
یعنی مسجد کی تعمیر ہیکل کے مقام پر ہونے کے بارے میں خود یہودیوں کو یقین نہیں بلکہ شک میں ہیں کہ اس کا محل وقوع وہی ہے یا مختلف ہے۔
اور اس کا تو کوئی بھی یہودی اپنی روایات و تاریخ کی روشنی میں انکار کر ہی نہیں سکتا کہ اصل ہیکل سلیمانی کی عمارت جس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کروایا تھا اگر وہ اسی جگہ تھی بھی جہاں مسجد اقصیٰ کی دوبارہ تعمیر کی گئی ہے تو اس کا وجود مسجد اقصیٰ کی تعمیرسے 587ق.م پہلے نبوکد نضر (بخت نصر) کے دور میں ختم ہوگیا تھایا تقریبا دو ہزار سال پہلے ختم ہوگیا تھا۔جیسا کہ یہودی مؤرخ “یوسیفس” کہتا ہے کہ “ہیکل تعمیر کرنے کے چار سو ستر سال، چھ ماہ اور دس دن بعد جلا دیا گیا تھا”۔
(Twenty Books of the JEWISH Antiquities by: Flavius Josephus, London 1737, book:10 8.5)
اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہم پر ان کے مقابلے میں زیادہ حق ہے اوران کی یادگار کے بھی ان کے مقابلے میں ہم زیادہ حق دار ہیں جیسا کہ دس محرم کے یہودیوں کے روزہ کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: “نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوْسَى مِنْكُمْ” (سنن ابن ماجه) تمہارے مقابلے میں حضرت موسیٰ کا ہم پر زیادہ حق ہے۔
پہلی صلیبی جنگ کے بعد عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں رد و بدل کرتے ہوئے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنالیا۔ اس کو صلیبی حکمرانوں کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کی آزادی کےلیے 16 جنگیں لڑیں اور آپ نے اس میں نصب کرنے کے لیے منبر تیار کروا رکھا تھا جسے ہر جنگ میں لشکر کے ساتھ رکھتے تھے۔ 1187ء کو اللہ تعالیٰ نے سلطان کی کوششوں کو کامیابی نصیب فرمائی اور دوبارہ بیت المقدس فتح ہوگیا۔جس پر قبلہ اول کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک صاف کرتے ہوئے مسجد کی ہیئت کو بحال کیا گیا۔
موجودہ دور میں اس پر دوبارہ قبضے کی کوششیں جاری ہیں جن کی وجہ سے21 اگست 1969ء کو ایک سازش کے ذریعے آسٹریلوی نژاد یہودی ڈینس مائیکل روحان کے ہاتھوں قبلہ اول کو آگ لگادی گئی جس پر کئی گھنٹے شعلے بھڑکتے رہے اور جنوب مشرقی جانب قبلہ کی طرف کا ایک بڑا حصہ گر پڑا اور اسکے ساتھ وہ منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے نصب فرمایاتھا۔
جرمنی میں عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی کے بعد ان لوگوں کو مسلمانوں کے سر پر مسلط کر دیا گیا اور مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے جب تک مسلمان عالم کفر کے مقابلے میں متحد نہیں ہوتے یہ سلسلہ جاری رہے گا
ابو تراب حبیب الحق شاہ ضیائی