بیت المقدس اور قومی بے حسی
بیت المقدس اور قومی بے حسی
غلام مصطفٰی رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)
ہم سو رہے ہیں…گہری نیند میں ہیں…بے حسی طاری ہے…ہم خوش بھی ہیں؛ لاشیں ہماری کہاں ہیں؟ لاشیں تو شامیوں کی ہیں! فلسطینیوں کی ہیں! یمنیوں کی ہیں…ہم ہندی ہیں…ہمارا کنبہ سلامت…خاندان سلامت … فیملی سلامت …ہم محفوظ ہیں…پھر کیوں کسی کے قتل و لہو کا سوگ کریں!…کیوں کسی کی یتیمی کا رنج منائیں…ہمارا کاروبار جاری ہے…ہماری آسائشیں موجود ہیں! لذتیں سلامت! …یہی بے حسی ہمیں بے نیاز کیے دیتی ہے… گہری نیند سلائے دیتی ہے…
جو بجلیاں ہمارے بھائیوں پر گِر رہی ہیں…کسی دن اس کی زد میں ہمارا آشیانہ بھی آئے گا…بہ حیثیت مسلمان ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ…شرق و غرب میں بہنے والا مسلم لہو کسی اور کا نہیں؛ ہمارے ہی بھائی کا ہے…ہم سرحدوں میں مقید ہیں…لیکن سارا جہان ہمارا ہے…ساری کائنات ہماری ہے…عقائد میں ہم آہنگی کی بنیاد پر؛ عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس جوہر کی بنیاد پر ہم حدودِ ارض و نسل سے وراء ہو کر ایک ہیں؛ وجہِ اتفاق- سرمایۂ ایمان -قدرِ مشترک ہے…اس بنیاد پر مشرق میں بہنے والا مسلم لہو بھی ہمارا ہے؛ مغرب میں بہنے والا خونِ مسلم بھی ہمارا ہے… بیت المقدس ہمارا ہے…اس پر نچھاور ہونے والی جانیں ہماری ہیں…پورا وجودِ مسلم ایک جسم کے مانند ہے؛ اگر کسی حصے پر زخم آئے تو وہ زخم اُمتِ مسلمہ پر ہے…جس کا درد پوری قوم کو ہونا چاہیے…
آج مسجد اقصٰی کی دہلیز لہو لہو ہے…فلسطینیوں کا خون پانی سے زیادہ سستا ہو چکا ہے… یہودی مسلط ہیں…اِدھر ہند میں نفرتوں کی آگ نے کئی مسلم آشیانے جَلا ڈالے…شام میں ہم ہی تباہ کیے گئے…عرب حکمرانوں نے امریکہ و اسرائیل کی وفاداری میں زندگی گزاری ہے…اور آج بھی ان کے دل و دماغ پر یہود و نصاریٰ چھائے ہوئے ہیں… وہ تو دولتِ حرمین نذرِ کلیسا کر رہے ہیں…یہود و نصاریٰ کے سپاہ پال رہے ہیں…انھیں سے عراق تباہ کرایا…انھیں سے شام تباہ ہوا…یمن کا سہاگ لوٗٹا گیا…لبنان پر بارود برسائے گئے…ان سب کی تباہی کا ایک مقصد رہا…کہ اسرائیل محفوظ ہو جائے…اسی لیے حرمین کے بادشاہوں نے کبھی فلسطینیوں کی خبر گیری نہیں کی…بعد از قتل ریالوں کی خیرات دینا یہ رمزِ مسلمانی نہیں…وہاں مسلم جانوں کے تحفظ کے لیے دفاعی قوت فراہم کرنے کی ضرورت تھی…بیت المقدس کے تحفظ کے لیے عرب سپاہ بھیجنی تھی…حرمین مقدس میں مسلم مملکتوں کے تحفظ کی منصوبہ بندی کی جانی تھی…لیکن! افسوس کہ امریکہ کی مہمان نوازی کی جا رہی ہے…اسرائیل کے سپورٹ کے اقدام کیے جا رہے ہیں…جو دولت بیت المقدس و غزہ کے جوانوں کو تقویت پہنچانے میں صرف کی جانی تھی؛ وہ انگریز مملکتوں کو تحائف دینے میں خرچ ہو رہی ہے…اُن ائمہ کو ہٹایا جاتا ہے؛ جو یہود وانگریز کی سازشوں سے باخبر کرتے ہیں…جو مسلمانوں کو اسلام دُشمنوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں؛ اُنھیں دُشمن گردانا جاتا ہے…پھر کیوں کر مسلمانانِ فلسطین کی محبت جاگے گی! کیوں کر انھیں خونِ مسلم عزیز ہوگا!اور قوم؛ یہود و نصاریٰ کی سازشوں سے باخبر ہو گی!
مسلمانانِ فلسطین کے مسائل:
[۱] انھیں دوسرے درجے کا شہری مانا جاتا ہے…اس لیے حُسنِ سلوک کا حق دار نہیں سمجھا جاتا…
[۲] غربت و افلاس اور کسمپرسی کا عالم ہے…مسکین ہیں…ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں…انھیں صحیح سے کھانے کو میسر نہیں…صاف پانی سے محروم ہیں…کیوں کہ غریب ہیں…انسانی حقوق سے محروم ہیں کیوں کہ مسلمان ہیں…
[۳] ان کی کوئی آواز نہیں…ان کے احتجاج کی کوئی اہمیت نہیں…انھیں احتجاج کا بھی حق نہیں…اپنے جائز حقوق کی آواز جب بلند کرتے ہیں؛ تو بے دردی سے کچل دیے جاتے ہیں…کئی لاشیں اُٹھاتے ہیں…آہوں سسکیوں کے ساتھ صبر کے گھونٹ پیتے ہیں…کئی زخمیوں کے ساتھ لوٹ جاتے ہیں…روز مرہ کی یہ روایت اب قوم بھی نظر انداز کر رہی ہے…قتل و خوں کی ان شاموں اور صبحوں سے بچانے کی صدا خاموش ہے…کیوں کہ وہ ہر روز قتل ہوتے ہیں… ہر دن غم کی شام ہوتا ہے…
[۴] جیلوں میں نوجوان فلسطینی قید ہیں…بچیاں جن کی عمریں پڑھنے کی ہیں قیدو بند کی اذیتوں سے دوچار ہیں…کوئی انھیں رہا کرانے والا نہیں؛ کوئی ان کے مقدمات نمٹانے والا نہیں…غیرقانونی حراست میں وہ زندگی کی سُرخیاں کھو رہے ہیں…
[۵] بچوں کے حقوق روز قتل کیے جاتے ہیں…گودیں سٗونی کی جا رہی ہیں…بے دَردی سے ننھی کلیاں مَسَل دی جاتی ہیں…جو زندہ ہیں وہ غذائیت کی کمی سے نیم جاں ہیں…جو مریض ہیں وہ بہتر علاج سے محروم ہیں…قصور یہ ہے کہ وہ مسلم ہیں، یہود کے اجارہ دار بننا منظور نہیں!
[٦] ان کے حق کی آواز کو ’’دہشت گرد‘‘، ’’Terrorist‘‘، ’’بنیاد پرست‘‘، ’’آتنک واد‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے…اس لیے حقوق کا سلوگن لائقِ التفات و توجہ نہیں سمجھا جاتا…
وجہِ ظلم:
مظالم/تشدد کا سبب یہ ہے کہ فلسطین سے مسلمانوں کو مکمل طور پر مٹا دیا جائے…القدس کی ارضِ حرمت پر صرف یہودیوں کا قبضہ ہو…اسی لیے مسلمانوں کی زمین مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہے…وہ محصور ہیں…اپنی ہی زمینوں پر ظلم کے شکار ہیں…ظالم امیر بھی ہے…جدید ہتھیاروں سے لیس بھی…اقتدار بھی اس کا… تمام مسلم طاقتیں بشمول سعودی عرب/امارات اسرائیل کے حامی ہیں…اسی لیے وہ عرب کی زمیں پر شیر بن کر رہتا ہے…اوربزدلانہ طریقے سے کم زور فلسطینیوں کے غریب خون سے اپنی درندگی کی پیاس بجھاتے رہتا ہے…کیوں کہ مسلمانوں کے لہو کی مسلم حکمرانوں کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں! اس لیے وہ کیوں فلسطین کی تائید کریں! کیوں مسلمانوں کے خون پر روئیں!!کیوں اَشک بہائیں…!
بہانوں کی سوداگری:
جب مسلمانوں میں کچھ دَم خَم محسوس ہوتا ہے…بہانے بنا کر یہودی کبھی؛ غزہ پر حملہ کر دیتے ہیں؛ کبھی مسجد اقصٰی پر…پھر درجنوں بلکہ سیکڑوں ہلاکتیں؛ کوئی بولنے والا نہیں…بولنے والے خاموش کر دیے گئے…صدام خاموش، قذافی خاموش، لیبیا و لبنان خاموش، یمن و مصر خاموش، امارات و قطر خاموش…جن میں دَم خَم تھا وہ نہیں رہے…ایک ترکی نیم جاں ہے؛تنہا آواز بلند کرتا ہے…جو بچے ہیں وہ غلام ہیں…اسیرِ فکرِ مغرب ہیں…دامِ فرنگ کے شکار ہیں…ان کے اقتدار کا آفتاب یورپ سے طلوع ہوتا ہے…اور عیش و طرب میں ڈوب جاتا ہے…ان کی شامیں مدحِ یہود میں گزرتی ہیں…ان کی شبیں یورپی تمدن سے اُلفت کی شاہد ہیں…بلکہ اب زمانی تقاضوں کی دوہائی دے کر حجاز کی مقدس زمیں پر فلمی مراکز/مغربی عشرت کدے قائم کیے جا رہے ہیں…غیر مسلموں کے لیے ممنوع حدود کے علامتی بورڈ بدلے جا رہے ہیں… مغربی کلچر کے ذرائع میں فائنانس کیا جا رہا ہے… پھر کیوں کر مسلمانوں کی تباہی کا احساس ہو…عشرت کدے آباد ہیں، بادشاہتیں سلامت ہیں تو پھر کوئی ملک تباہ ہو؛ کیا غرض؟… کیا مطلب؟
وہ بھی ڈوبیں گے:
اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے…خونِ صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہونے کو ہے…تشدد کی آندھیاں انتہا کو ہیں…لاکھوں مسلمانوں کا لہو جن کی گردنوں پر ہے…ان کے اقتدار کی کشتی ڈگمگا رہی ہے…دولت کا نشہ جس دن ہَرَن ہوگا…اس دن احساس ہوگا کہ ہم نے دفاعی قوت نہیں بنائی…جس سیال سونے (پٹرول) سے مسلمانوں کا دفاع کرنا تھا…سامانِ حرب و ضرب بنانے تھے…فوجیں ایستادہ کرنی تھی…ان سے عیاشیوں کے محل بنائے گئے…وہی سامانِ نشاط موت ثابت ہوں گے…جب آنکھ کھلے گی تو سب لُٹ چکا ہوگا…اور انقلاب کی صبح لاکھوں لہو خیزی کے بعد طلوع ہو گی تو ظالم مسلم بادشاہتیں بھی فنا ہوں گی اور یہود و نصاریٰ کی شوکت بھی زوال پذیر…اُس صبح کا انتظار ہے…جب لہوخیزی رنگ لائے گی…اُس شام کا انتظار ہے جب؛ ظلم شامِ غم سے دوچار ہوگا اور بیت المقدس کی زمیں آزاد ہو گی…کاش! ایسا ہو!
بیتِ اقدس کی زمیں!
مسکنِ ظلم و ستم!
ارضِ غزہ پر ہجومِ مکر و کید
یہود کی سازشوں سے!
نصاریٰ پے آزار ہوئے
ظلم کے بادل چھٹیں
رحمتوں کی بدلیاں
ارضِ طیبہ سے اُٹھیں
یا رحمۃ للعالمین!
مبتلاے رنج و محن ہیں
قومِ مسلم کے جواں!
سوئے اقصیٰ قافلے
عشقِ شہ لولاک کے
نُصرتوں کے سائے میں!
آزاد ہو زمینِ قدس
ارضِ فلسطیں کا سُہاگ
پھر سے شاد آباد ہو!
کشتِ ایماں شاداب ہو!
فصیلِ اسلام کے پاسباں
سوئے حرم آباد ہوں
٭٭٭
شذرہ: ٢٥ رمضان المبارک ١٤٤٢ھ کو یہ خبر ملی کہ مسجد اقصٰی میں اسرائیل کی دہشت گردی نے انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں… رنج ہوا…. پھر اسرائیل نواز عرب حکمرانوں کا خیال آیا… یقیناً انھوں نے اسرائیل سے دوستی کر کے فلسطینی مسلمانوں کے لہو کا سودا کیا ہے…. ان سے غیرت کی توقع عبث ہے… احقر کی یہ تحریر گرچہ دو برس قبل(٢ رمضان المبارک ١٤٤٠ھ میں) شائع ہوئی… لیکن صورتِ حال کے تجزیہ میں معاون ہو گی… اسی غرض سے جزوی تبدیلی کے ساتھ شئیر کی گئی….