امریکا پر یہودیوں کا شکنجہ

تحریر : نثار مصباحی

رکن- روشن مستقبل، دہلی

1962 سے 1983 تک امریکی پارلیمنٹ کے رکن رہے مسٹر پال فِنڈلے (پیدائش: 1921ء، وفات : 2019۔ ۹۸ سال) مشرقِ وسطی خصوصا فلسطینی-اسرائیلی امور کے ایک ماہر گزرے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ امریکا کی اسرائیل نواز پالیسیز اور مشرقِ وسطی میں یہودی مظالم اور اسرائیلی جارحیت کا شدید ناقد ہونے کی وجہ سے امریکا کی یہودی لابی نے ان کے آخری دو الیکشنز میں ان کے خلاف “دھن-بَل”، “جھوٹے پروپیگنڈے” اور “چھل-کپٹ” کے ساتھ زبردست مہم چلائی اور آخر کار ۱۹۸۲ کے اواخر میں منعقد الیکشن میں پال فنڈلے کو شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ مگر شکست کے بعد فرصت کے لمحوں کو کام میں لاتے ہوئے پال فِنڈلے نے کئی اہم کتابیں لکھ ڈالیں، اور اسرائیل نیز اسرائیلی لابی کے چہرے پر پڑا نقاب نوچ ڈالا۔

امریکا میں یہودی لابی اور صہیونی گروپوں کے اثر و رسوخ اور مضبوط شکنجے کا انکشاف انھوں نے اپنی اہم کتاب They Dare to Speak out میں کیا ہے۔ اس ضخیم کتاب کا اردو ترجمہ سعید رومی نے کیا اور ۲۰۰۳ میں یہ دہلی سے “شکنجۂ یہود” (443 صفحات) کے نام سے شائع ہوئی۔

پال فنڈلے نے اس کے بعد اسرائیل کی فریب کاریوں پر ایک کتاب :

Deliberate Deceptions

کے نام سے لکھی۔ مذکورہ مترجم نے اس کا بھی اردو ترجمہ کیا اور ۲۰۰۳ء ہی میں”اسرائیل کی دیدہ و دانستہ فریب کاریاں” (246 صفحات) کے نام سے یہ دہلی ہی سے شائع ہوئی۔

۲۰۰۱ء میں پال فنڈلے نے ایک کتاب لکھی:

Silent No More: Confronting America’s False Images of Islam

اس کا موضوع اس کے نام سے ظاہر ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس کا اردو ترجمہ ہوا ہے یا نہیں۔

چند روز قبل جب یہ خبر آئی کہ فلسطین و اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلائے جانے کو امریکا نے ویٹو(مسترد) کر دیا ہے تو مجھے امریکا پر یہودی لابی کی مضبوط گرفت کا خیال آیا اور پال فنڈلے کی لکھی کئی باتیں بار بار پردۂ ذہن پر گردش کرنے لگیں۔

پال فنڈلے نے Deliberate Deceptions کے پیش لفظ(طبعِ اول) میں امریکا میں یہودی لابی کے اثر و رسوخ کے بارے میں جو باتیں لکھی ہیں اس کا ایک حصہ آپ بھی پڑھیے [واضح رہے کہ امریکی پارلیمنٹ کو “پارلیمنٹ” نہیں، “کانگریس” کہا جاتا ہے] :

*”جب جنوری 83ء میں مَیں نے کانگریس [پارلیمنٹ] کو الوداع کہا تو میں اپنے آپ کو معصومیت سے اسرائیل اور عرب ریاستوں کے بارے میں ایک ماہر تصور کرتا تھا۔ میری تعلیم صحیح معنوں میں اس وقت شروع ہوئی جب میں نے اپنی کتاب:

They Dare to Speak out : People and Istitutions Confront Israel’s Lobby (وہ جرأتِ اظہار کرتے ہیں : عوام اور ادارے اسرائیلی لابی کا سامنا کرتے ہیں)

کے سلسلے میں تحقیق و تفتیش شروع کی۔ میں جلد ہی آگاہ ہوا کہ میرے کانگریس کے تجربے نے تو مجھے ایک سطحی علم بخشا تھا کہ اسرائیل نواز گروپ کس طرح مشرقِ وسطیٰ پالیسی سازی پر اور عوام کے اسرائیل کے بارے میں رویہ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

[یہودی گروپوں کا] یہ اثر و نفوذ امریکا کے طول و عرض میں زندگی کے ہر شعبے۔۔۔۔کیا ذاتی کیا عوامی ۔۔۔۔ اور ہر حکومتی ادارہ میں گھر کر چکا ہے۔ کیپٹل ہِل [یعنی امریکی پارلیمنٹ اور حکومتی ادارہ جات اور دفاتر، نیز ان سے متصل نہایت اہم رہائشی علاقہ] پر تو اس قدر قوی ہے کہ وہاں کبھی عرب-اسرائیل تنازعہ پر معنی خیز بحث ہو ہی نہیں پائی۔ سوائے ورجینیا کے رابرٹ بائرڈ، ریاستِ کینسا کے باب ڈول، ریاستِ اوہائیو کے جیمس ٹریکائیٹ جونیر، اور ویسٹ ورجینیا کے نِک جو راحل کے اور کوئی بھی نمائندہ (دونوں ایوانوں میں) اسرائیل کے برتاؤ پر انگلی نہیں اٹھاتا۔

ایک سابقہ ‘انڈر سکریٹری آف اسٹیٹ’ جارج بال کا کہنا ہے:

*’جہاں تک مشرقِ وسطی پالیسی کا تعلق ہے، تو کانگریس[پارلیمنٹ] پالتو پِلّوں کے ایک ایسے گروہ ہونے کا مظاہرہ کرتی ہے جو اشارہ ملنے پر اسرائیلی لابی کے ہاتھ میں پکڑے گول چھلّے میں سے چھلانگ لگاتا ہے۔’*

امریکی کانگریس سال بسال جو رقم اسرائیل کو خیرات کرتی ہے اگر اسے ساری اسرائیلی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ہر فرد، عورت، مرد اور بچہ کے حصہ میں ایک ہزار امریکی ڈالر آتے ہیں!!!!! وفاقی بجٹ میں اور تمام معاملات میں کمی ہو، تو ہو، اسرائیل کو جو تحفہ عطا ہو رہا ہوتا ہے اس پر کوئی چون و چرا نہیں ہوتی۔ مجھے اپنے دوران نمائندگی یہ ادراک ہوا کہ اسرائیل کی امداد ہمارے اپنے سوشل سیکورٹی اور طبی پروگرام سے بھی زیادہ متبرک ہے!!!!!

(امریکی) انتظامیہ (یعنی Administration = प्रशासन) میں بھی اسرائیل کی گرفت اسی قدر مضبوط ہے۔”*

(اسرائیل کی دیدہ و دانستہ فریب کاریاں، صفحہ ۲۵، ۲۶۔ پیش لفظ)

یہ وہ حقائق ہیں جنھیں تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اور اگر کسی کو تردد ہو تو وہ ایک بار They Dare to Speak Out کا مطالعہ کر سکتا ہے۔

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جس ملک کے پرائیویٹ سے لے کر پبلک اداروں، پارلیمنٹ سے لے کر حکومتی دفتروں، پالیسی سازوں سے لے کر انتظامی افسروں اور عوامی زندگی سے لے کر ان کے ذہنوں تک یہودی لابی اس قدر تسلط اور اثر و نفوذ رکھتی ہو، وہ سپر پاور ملک یہود و اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کیسے ہونے دے گا؟

یہی وجہ ہے کہ شروع سے اب تک امریکا ہمیشہ اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرتا رہا ہے اور اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر یا تو خطِ تنسیخ پھیرتا رہا، یا عملاً کالعدم کرتا رہا ہے، اور اسرائیل بھی انھیں عملی طور پر کاغذ پر لکھی چند بےمعنی سطروں سے زیادہ اہمیت دینے سے ہمیشہ انکاری رہا ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے اسرائیل ہر طرف سے عرب اور مسلم ممالک سے گِھرا ہوا ہے مگر یہ مسلم ممالک اور مسلم ملکوں کی تنظیمیں مثلا OIC وغیرہ فلسطینیوں پر اسرائیل کے تمام غیرقانونی اور غیرانسانی مظالم دیکھتے ہوئے بھی “نشستند، گفتند، برخاستند” سے آگے نہیں بڑھ پاتے اس کی وجہ جہاں اسرائیل کی عسکری اور دفاعی مضبوطی ہے، وہیں خود ان ملکوں کی بزدلی، بےحسی، بےغیرتی، عسکری کمزوری، ناکارہ پن اور مغرب پر انحصار بھی بڑی وجہ ہے۔ البتہ اس کی اصل وجہ یہ امریکا بہادر ہے، جس کی مرضی کے خلاف یہ کٹھ پتلی حکومتیں کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔ اور اگر ایک دو استقلال پسند ملک کچھ کرنا بھی چاہیں تو امریکا کبھی بھی اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام انھیں نہیں کرنے دے گا، اگرچہ اس کے لیے دھمکی یا پیش قدمی سے کام لینا پڑے۔

نثارمصباحی

۱۶ مئی ۲۰۲۱ء