مسئلۂ فلسطین پر کچھ باتیں

نثار مصباحی

حالیہ جنگ میں فلسطینی اسرائیل کو پہلے سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق اب تک تقریبا 100 اسرائیلی مارے جا چکے ہیں اور 800 سے زیادہ زخمی ہیں۔ مگر نفسیاتی میدان میں اپنے عوام اور فوجیوں کو مضبوط رکھنے کے لیے یہودی حکام جھوٹ بول کر حقائق چھپا رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے یہ خبریں اپنی جگہ سچ ہوں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں عسکری قوت کے اعتبار سے فلسطین کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تناسب دیکھا جائے تو شاید 5 : 95 کا بنے۔ یا شاید وہ بھی نہیں۔ آخر پتھروں اور غلیلوں کا ٹینکوں اور جدید ترین اسلحوں سے کیا مقابلہ؟ اور پٹاخہ جیسے کمزور راکٹوں اور کم اثر میزائلوں کا خطرناک اور جدید ترین بموں اور میزائلوں سے کیا موازنہ؟ یہی وجہ ہے کہ ہر جنگ اور ٹکراؤ کا نتیجہ فلسطینیوں کی بھاری تباہی اور اپنی کچھ زمین گنوانے کی صورت میں ہی نکلتا رہا ہے۔ اور -خدا نہ کرے، مگر- اس بار بھی امید کچھ الگ نظر نہیں آ رہی ہے۔

ایسے حالات اور بارہا کے تجربات کی وجہ ہم یہ کہنے میں -اِن شاء اللہ- حق بجانب ہوں گے کہ مقبوضہ فلسطین کی بازیابی یا مستحکم فلسطینی ریاست کا قیام ایک ایسا خواب ہے، جس کی تعبیر فی الحال نظر نہیں آتی۔ قضیۂ فلسطین کا باعزت حل، فلسطین کا استحکام اور مقبوضہ علاقوں کی بازیابی، اِن چیزوں کا حصول نہتھے فلسطینیوں کے ذریعے بہت مشکل نظر آتا ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ فلسطین کی بقا پر بھی خطرات کے مہیب بادل منڈلا رہے ہیں۔ بلکہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بارے میں یہود کے عزائم اور ان کی اب تک کی کارستانیاں دیکھی جائیں تو بیت المقدس/مسجد اقصی کو بھی شدید خطرات کا سامنا ہے۔

ہر ایسے موقعے پر نام نہاد “اسلامی ممالک” بیان بازیاں اور “نشستند گفتند برخاستند” ہی سے کام چلاتے رہے ہیں۔ اور اس بار بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ جیسا کہ تقریبا 57 مسلم ممالک کی تنظیم OIC کے گزشتہ کل منعقد ہوئے اجلاس سے ظاہر ہو رہا ہے۔

آج تو جنگی حالات کی وجہ سے امداد کی شدید ضرورت ہے، مگر عام حالات میں بھی فلسطینی شیروں کو سامانِ معیشت کی امداد سے ہزار گنا زیادہ عسکری امداد کی ضرورت رہتی ہے، مگر شاید ان نام نہاد “اسلامی ملکوں” میں کسی کے اندر اس کی ہمت نہ پہلے رہی ہے اور نہ اب ہے۔ بعد میں کچھ ممالک ہمدردی دکھاتے ہوئے سامانِ خورد و نوش، طبی امداد اور تعمیراتی سامان پہنچا دیں گے۔ اور اس طرح عالمِ اسلام فلسطین سے متعلق اپنی تمام ذمے داریوں سے یکلخت ‘سبک دوش’ ہو جائے گا۔!!!!

کوئی ہرگز یہ نہ سمجھے کہ ہم یاسیت کے شکار ہیں یا مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ بحمد اللہ سیاہ سمندر سے نور نکلنے کی امید سے ہم بھی محروم نہیں مگر جذبات میں ہم تلخ حقائق سے آنکھیں موند نہیں سکتے۔ “و أعدوا لهم ما استطعتم من قوة” کے قرآنی حکم پر اہلِ غزہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ عمل کرنے کی کوششیں ضرور کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے راکٹ اور زمین سے زمین پر مار کرنے والی میزائلوں میں اصلاحات ضرور ہوئی ہیں، مگر نہ ان کے پاس اعلی تکنیک ہے اور نہ ایسے سائنس داں جو انھیں دشمن کے ہتھیاروں کا توڑ کرنے والے ہتھیار بنا کر دے سکیں۔ ایسے میں کیا کسی صاحبِ قوت مسلم ملک کو انھیں تکنیکی، سائنسی اور عسکری میدان میں ترقی دینے کے لیے کوششیں نہیں کرنا چاہیے تھا؟(بعض جگہوں سے ہتھیاروں اور چھوٹی میزائلوں کی خفیہ امداد کی خبریں ضرور آتی ہیں، مگر یہ امداد ناکافی ہے۔ پھر بھی حسبِ استطاعت ایسی امداد کرنے والے یقینا قابلِ تحسین ہیں۔)

مسئلۂ فلسطین کو یوں تو ایک صدی کا عرصہ ہوا مگر 1967ء کی جنگ کے بھیانک نتائج دیکھنے کے بعد بھی عالَمِ اِسلام نے فلسطین کو پتھروں اور غلیلوں کے زمانے میں چھوڑے رکھا۔

مسلم امت کے اس اہم مسئلے کے حل کے لیے عالَمِ اسلام میں جس اجتماعی غیرت، سیاسی وحدت اور خود انحصاری کی شدید ضرورت ہے، اس کے آثار بھی فی الحال کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جرمِ ضعیفی کی سزا اس دنیا کے مختلف خطوں میں دنیا نے پہلے بھی دیکھی ہے اور ہم سب بھی آج دنیا کے مختلف خطوں میں دیکھ ہی رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر سے اس ‘جرم’ کا خاتمہ نہیں کرتے، یا صاحبِ قوت مسلم ممالک فلسطین کے ساتھ مضبوط عسکری تعاون نہیں کرتے تب تک کسی خوشگوار اور مسرورکن انجام کی بہت زیادہ امید نہیں کی جا سکتی ہے۔

ہم غریبانِ امت فلسطین کی کوئی زمینی امداد تو نہیں کر سکتے مگر ہمارے ہاتھوں میں دعا کا ہتھیار ضرور ہے۔ اس لیے اسی کو بروئے کار لائیں۔ مسلسل دعائیں کرتے رہیں۔ فلسطین کے ساتھ ہر پلیٹ فارم پر اظہار یکجہتی کریں۔ ان شیروں کی تشجیع اور حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔ اور پوری خاموشی کے ساتھ بغیر کسی شور شرابے کے اسرائیلی اور امریکی پروڈکٹس کا استعمال اپنے اوپر ہمیشہ کے لیے ممنوع سمجھیں۔ یہ قطعی مت سوچیں کہ میرے ایک کے کرنے سے کیا ہوگا۔ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ کاش ہم حکمت و مصلحت کے ساتھ آگے بڑھیں۔

نثارمصباحی

17 مئی ۲۰۲۱ء