نومولود کے کان میں اذان دینے کے امر پر اعتراضات کا جواب
نومولود کے کان میں اذان دینے کے امر پر اعتراضات کا جواب
تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
نو مولود بچے کے کان میں اذان دینے کی نفی میں اور اس فعل کو ترک کرنے پر ایک تحریر پر ہم کو مطلع کیا گیا ہے ہم اس تحریر کا جائزہ لینگے اور منہج محدثین اور سلف کے مطابق ان شاءاللہ صحیح موقف پیش کرینگے ۔
بنام ڈاکٹر راشد منہاس سعید کا مضمون پہلے نقل کرتے ہیں پھر اپنا موقف پیش کرینگے تحریر میں جن راویان پر ضعیف متروک قرار دیا گیا اسکے دلائل ہم مٹادینگے کیونکہ ہم بھی ان راویان پر اتفاق ہے کہ وہ راویان ضعیف و متروک ہیں تو روایت طویل نہ ہو اس وجہ سے
موصوف لکھتے ہیں :
نومولودکےکان میں آذان کہنا کتاب وسنت سےثابت نہیں ہےاور نہ ہی اس مسئلہ پراجماع ثابت ہے۔۔۔۔
*//پیش کی جانےوالی روایات کی تحقیق:
1-عاصم بن عبیدالله عن عبیدالله بن ابی رافع عن ابی رافع سندسےمروی روایت
تخریج:سنن ابی داود,کتاب الادب,باب فی المولود فیؤذن فی اذنه,رقم الحدیث:5105_وسنن الترمذی,کتاب الاضاحی,باب الاذان فی اذن المولود,رقم:1514_ومسنداحمد:جلد6صفحہ391_والسنن الکبری للبیہقی:جلد9صفحہ305_ومصنف عبدالرزاق:جلد4صفحہ336
تحقیق:اسنادہ ضعیف
اس کا راوی عاصم بن عبیدالله جمہور محدثین کےنزدیک حافظےکی خرابی کی وجہ سے”ضعیف”ہے_
مذید ان علماء کرام نےبهی اس روایت کوضعیف کہاہے:
*علامہ ناصرالدین البانی
*حافظ محمدزبیرعلی زئی
*ابویحیی نورپوری
*غلام مصطفی ظہیرامن پوری
*حافظ محمدعلی جوہر
*محمدیوسف ربانی
*جاویداقبال سیالکوٹی
*مبشراحمدربانی
*حافظ منشاءگجر
*ابومحمدعبدالاحدسلفی
*حافظ ندیم ظہیر
*شیخ عامر الانصاری
*شیخ نصیراحمدکاشف
وغیرهم
دیکهئے:{مختصر کتاب الجامع از ابومحمدعبدالاحدسلفی(قلمی نسخه):ج1ص25,26}
*نومولود کےکان میں آذان و اقامت کہنےکی دلیل کی تحقیق:
2-یحیی بن العَلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحه بن عبیدالله العقیلی عن الحسین(یاالحسن)بن علی کی سندسےمروی حدیث
تخریج:مسندابی یعلی:ج12ص150ح6780_وعمل الیوم واللیلہ لابن السنی:623_وشعب الایمان للبیهقی:ج6ص390ح8619_وتاریخ ابن عساکر والامالی لابن بشران,بحوالہ السلسلہ الضعیفہ للالبانی:ج1ص321-329
تحقیق:اسنادہ موضوع(من گهڑت)
راویوں کے متعلق تحقیق:
مروان بن سالم الغفاری “
یحیی بن العَلاء یہ متروک ہے
طلحہ بن عبیدالله العقیلی
*یہ مجہول ہے_”
3-محمدبن یونس(الکدیمی)عن الحسن بن عمرو بن سیف عن القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبدعن ابن عباس کی سندسےمروی حدیث_
تخریج:شعب الایمان للبیهقی:ج6ص390ح8620
تحقیق:اسنادہ موضوع(من گهڑت,خودساختہ)
سند کی تحقیق:
محمدبن یونس الکُدیمی کذاب و متروک ہے
الحسن بن عمرو بن سیف بهی کذاب ومتروک ہے_”
یہاں تک ہم کو بھی موصوف سے اتفاق ہے کہ سوائے پہلی روایت کے باقی تمام اسناد میں متھم و متروک درجے کے راویان موجود ہیں جسکی وجہ سے روایت نہ ہی تقویت حاصل کر سکتی ہے اور نہ ہی حسن لغیرہ یا حسن لذاتہ درجے کی بن سکتی ہے اسناد کے اعتبار سے ۔
اسکے بعد موصوف اپنی جماعت کے علماء کے فتاوے پیش کرتے ہیں :
{فتاوی علمیه المعروف توضیح الاحکام,تالیف:محدث العصرحافظ محمدزبیرعلی زئی رحمه الله,جلد:اول,صفحہ:245,ناشرمحمدسرورعاصم,اشاعت2009ءمکتبہ اسلامیہ}
**نومولود کےکان میں آذان کہنےکےسلسلےمیں حضرت عمربن عبدالعزیز رحمه الله کی روایت مستند نہیں ہے(صحیح ثابت نہیں ہے)“
[التلخیص الحبیر:273/4_ومختصرکتاب الجامع(قلمی نسخه):جلد1صفحه258]
علماء کرام کےاقوال
*شیخ ابویحیی نورپوری نےفرمایا”نومولودکےکان میں آذان واقامت کہنا نہ ہی قرآن وحدیث سےثابت ہےاورنہ ہی اجماع سے_
(09-01-2019ء)
*شیخ حافظ زبیرعلی زئی نےفرمایا”اس کی بنیاد ضعیف روایات پر قائم ہے_”
(فتاوی علمیه:244/1)
*شیخ جاویداقبال سیالکوٹی نےفرمایا”اس سلسلہ میں تین روایات پیش کی جاتی ہیں جوناقابل حجت ہیں_”
(والدین اوراولاد کےحقوق:صفحہ49)
*شیخ ابوالحسن مبشراحمدربانی نےفرمایا”نومولود کےکان میں آذان کہنےکےبارےمیں نبی کریم صلی الله علیه وسلم سےکوئی حدیث ثابت نہیں ہے_”
(تفہیم دین کتاب الآذان,صفحہ نمبر:121)
*ابومحمدعبدالاحدسلفی نےفرمایا”اس مسئلہ پرنہ روایات ثابت ہیں اور نہ ہی اجماع,اس مسئلہ پر بہت زیادہ اختلاف ہے,لہذا اس سے بچا جائے_”والله اعلم
(19-12-2020ء)
و ما علینا الا البلاغ
:::::::::::::::::::::::::::::::::::: الجواب (اسد الطحاوی) ::::::::::::::::::::::::::::::
موصوف نے اپنی ساری تحریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چونکہ کوئی بھی ایک روایت اس باب میں درجہ قبولیت تک نہیں پہنچ سکی اور اس مسلے پر بہت زیادہ اختلاف ہے اورنہ ہی اس مسلے پر اجماع ہے لہذا اس فعل کو ترک کیا جائے اور بچے کے کان میں اذان دینے والے فعل پر عمل نہ کیا جائے
لیکن موصوف نے یہ نہیں تصریح کی کہ اسکو کرنا کیا ہے ؟ بدعت ہے ؟ مستحب ہے ؟ مباح ہے ؟
تو ہم پہلے اس روایت پر محدثین پھر فقھاء اکرام کی تصریح پیش کرینگے موصوف کو چاہیے تھا اپنے دعویٰ کے مطابق اس مسلہ پر اختلاف بھی نقل کرتے اور اسکو نہ کرنے پر متفقہ علیہ محدثین و فقھاء یعنی سلف صالحین کا موقف پیش کرتے لیکن موصوف اس مسلے پر اپنی جماعت اہل حدیث تک محدود رہے اور اس میں بھی سب کا موقف بیان نہ کیا بلکہ اپنے من پسند موقف پر فقط ان لوگوں کا فتویٰ پیش کیا جو موصوف کےموقف کے مطابق تھا اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے تحقیقی کام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا کہ فقط اپنے موقف کو بیان کرنا اور مخالف موقف کے دلائل کو نقل کرنے سے بھی پر ہیز کرنا اگر تحقیق میں مخالف کے دلائل اور ائمہ دین کا مکمل موقف جب تک نہیں لکھا جائے گا تو تحقیق کامل کیسے ہوگی اور پڑھنے والے فیصلہ کیسے کرینگے جبکہ آپ نے دلائل کا تقابل ہی نہیں کیا اور نہ ہی موقف کا
جو روایت سنن ابی داود و ترمذی میں ہے اسکو نقل کر کے امام ترمذی کی شرح کو بھی نقل کرتے ہیں :
-
باب فِي الصَّبِيِّ يُولَدُ فَيُؤَذَّنُ فِي أُذُنِهِ
-
باب: بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان دینا کیسا ہے؟
، قال:” رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة”.
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے۔
ابی داود نے اس روایت پر سکوت کیا !
اسی طرح امام ترمذی اسکو یوں بیان کرتے ہیں :
حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , وعبد الرحمن بن مهدي , قالا: اخبرنا سفيان , عن عاصم بن عبيد الله , عن عبيد الله بن ابي رافع , عن ابيه , قال: ” رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة ” , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل في العقيقة على ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه , عن الغلام شاتان مكافئتان , وعن الجارية شاة , وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا: انه عق عن الحسن بن علي بشاة , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے، عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے، – نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی،
بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔
اما م ترمذی کا یہ کہنا کے اس روایت پر عمل ہے عقیقہ کے مسلے پر تو اسکو بیان کرنے کا مقصد امام ترمذی کا یہی ہے کہ یہ روایت (بیشک سندا ضعیف ہے ) لیکن چونکہ اہل علم کا اس پر عمل ہے جو اس روایت کو ضعف سے نکال کر درجہ قبولیت پر لے آیا ہے
اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایسی روایت جسکی سند کتب احادیث میں ضعیف سند سے پہنچتی ہے اور فعل بھی فضائل و مستحب امور کے اثبات کا ہوتا ہے اور جب اہل علم کا اس روایت پر عمل کرنے کی تصریح ملتی ہے تو وہ حدیث تلقی بالقبول کی وجہ سے مقبول ہو جاتی ہے کیونکہ کثیر اہل علم کا ضعیف روایت عمل کرنا خود ایک دلیل ہوتا ہے جو حدیث کو سند کی محتاجی سے آزاد کر دیتا ہے
امام ترمذی سے اسکی ایک مثال پیش کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ الكُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ الحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هُبَيْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالاَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الصَّلاَةَ وَالإِمَامُ عَلَى حَالٍ فَلْيَصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الإِمَامُ.
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ إِلاَّ مَا رُوِيَ مِنْ هَذَا الوَجْهِ.
وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ.
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور میرے علم میں سوائے اس سند کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے
اور اہل علم (یعنی فقھا و محدثین) کا اس روایت پر عمل ہے
(سنن الترمذی، برقم : 591)
سید میرک رحمہ اللہ نے امام نواوی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ اس کی سند ضعیف ہے؛ تو گویا امام ترمذی عمل اہل علم سے حدیث کو قوت دینا چاہتے ہیں، واللہ اعلم‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، محدث علی قاری رحمہ اللہ، باب ما علی المأموم من المتابعۃ للإمام
خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’معتمد علما نے تصریح فرمائی ہے کہ اہل علم کا حدیث کو قبول کرنا حدیث صحیح ہونے کی دلیل ہے اگرچہ اس حدیث کی کوئی قابل اعتماد سند نہ ہو‘‘۔ (التعقبات علی الموضوعات، محدث سیوطی رحمہ اللہ،)
اور فقھاء ہی حدیث کے معنی و مفہوم کو زیادہ اچھا جانتے ہیں نہ کہ محدثین ۔۔۔
جیسا کہ ایک جگہ امام ترمذی فرماتے ہیں : ” وكذلك قال الفقهاء وهم أعلم بمعاني الحديث،”
ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ (فقھاء) حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں،
تو معلوم ہوا امام ترمذی نے اس ضعیف سند سے مروی روایت پر اہل علم کا عمل بیان کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ امر مشروع ہیں عند المحدثین و الفقھاء
اب آتے ہیں غیر مقلدین کے محققین کی طرف کہ انکا کیا موقف ہے :
اہل حدیث کے محدثین میں سر فہرست مبارکپوری ہیں جنہوں نے سنن ترمذی کی شرح لکھی ہے بنام ” تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي”
اور وہ اس روایت کے تحت امام ترمذی کے حوالے سے لکھتے ہیں :
قوله (عن عاصم بن عبيد الله) قال في التقريب عاصم بن عبيد الله بن عاصم بن عمر بن الخطاب العدوي المدني ضعيف من الرابعة
قوله (أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة) أي أذن بآذان الصلاة وفيه دليل على سنية الأذان في أذن المولود
قال القارىء وفي شرح السنة روي عن عمر بن عبد العزيز كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي
مبارکپوری کہتے ہیں :
کہ عاصم جس کے بارے امام ابن حجر نے تقریب میں فرمایا ہے کہ یہ یہ ضعیف ہے اور اس سے مروی روایت مذکورہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔ اور اس میں یہ دلیل ہے کہ امر سنت ہے کہ نومولود بچے کے کان میں اذان دی جائے
اور اگلی سطروں پر مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں :
فإن قلت كيف العمل عليه وهو ضعيف لأن في سنده عاصم بن عبيد الله كما عرفت
قلت نعم هو ضعيف لكنه يعتضد بحديث الحسين بن علي رضي الله عنهما الذي رواه أبو يعلي الموصلي وبن السني
قوله (وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم في العقيقة من غير وجه عن الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية شاة) وإليه ذهب الجمهور (وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أيضا أنه عق عن الحسن بن علي بشاة) رواه الترمذي وهو ضعيف وسيأتي
(وقد ذهب بعض أهل العلم إلى هذا الحديث) وهو قول مالك كما عرفت فيما تقدم وقد عرفت ما فيه
اگر مجھ سے کہا جائے کہ اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس روایت کی سند میں عاصم ضعیف ہے
میں کہتا ہوں جی بالکل یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اسکو تقویت ہے اس حدیث مذکورہ کے تحت جسکو حسین بن علی نے بیان کیا ہے جسکو ابو یعلی و ابن السنی نے روایت کیا ہے
جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی
اور امام ترمذی کے ا س قو ل ( بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے) امام مالک اس روایت کی طرف گئے ہیں
(تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي، جلد ۵، ص ۹۰)
نوٹ: البانی صاحب نے پہلے اس روایت کو حسن قرار دیا سنن ترمذی و ابی داود میں لیکن اپنی دوسری تصنیف سلسلہ ضعیف میں اس روایت کے شواہد میں متروک درجے کے راویان کی وجہ سے اس روایت کی تضعیف کی طرف گئے ہیں لیکن انہوں نے بھی مبارکپوری کی شرح کو نقل کر کے اتفاق کیا کہ اس امر کو مشروع قرار دینے میں
( سلسلہ الضعیفہ جلد ۱، جلد493)
اسی طرح امام ملا علی قاری محدث اس روایت کی شرح میںفرماتے ہیں :
والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود
اور اسکا معنی یہ ہے کہ اس طرح اذان دی جیسا کہ نماز کے لیے دی جاتی ہے یہ دلالت کرتا ہے اس پر کہ نومولد کے کان میں اذان دینا مشروع ہے
اور پھر امام سیوطی ؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه
اور امام سیوطی نے جامع صغیر میں فرمایا ہے کہ امام نووی نے روضہ (تصنیف) میں اذان دینے کے امر پر مستحب کا قول فرمایا ہے
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، شرح برقم حدیث : 4157)
علامہ قاضی شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں امام نووی سے :
فيه استحباب التأذين في أذن الصبي عند ولادته.
کہ یہ مستحب ہے کہ بچے کے کان میں اذان دی جائے
(نیل الاوطار ، جلد ۵، ص ۱۶۱)
اسی طرح امام شعیب الارنووط محدث اس روایت کو تضعیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قلنا: ومع ضعف الحديث الوارد في هذه المسألة، فقد عمل به جمهور الأمة قديما وحديثا، وهو ما أشار إليه الترمذي عقبه بقوله: والعمل عليه. وقد أورده أهل العلم في كتبهم وبوبوا عليه واستحبوه
ہم کہتے ہیں کہ اس مسلے پر حدیث کے ضعیف ہونے کے باوجود جمہور ائمہ ماضی اور حاضر نے اس پر عمل کیا ہے جسکی وجہ سے امام ترمذی نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کہ اس (روایت) پر عمل کیا گیا ہے ۔ اور اسی (امر کی تحسین) اہل علم نے اپنی کتب میں نقل کی ہے اور اسکو مستحب قرا ر دیا ہے
(مسند احمد ، برقم: 23870)
اور اہل حدیث کے معتبر فتاویٰ
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی میں اس مسلے کے تحت لکھا ہے :
نومولود بچے یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے والے عمل کو مسنون اور صحیح قرار دینے والے محدثین کرام، علمائِ دین اور محققین کرام کے نام ہیں۔
-
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ایک کان میں اذان دینے والی حدیث کو ’’حسن‘‘ اور ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس پر عمل ہے۔(جامع الترمذی، باب العقیقۃ)
-
حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس عمل کو مشروع قرار دیا ہے۔(تحفۃ الاحوذی، ج:۲، ص:۳۶۳)
-
علامہ محمد عطاء اللہ حنیف نے اس عمل کو مشروع قرار دیا ہے۔(تنقیح الرواۃ،ج:۲،ص:۲۳۰)
-
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے (نیل الاوطار،ج:۳،ص:۲۳۰)
-
علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔(حوالہ زاد المعاد)
-
علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ عظیم آبادی)
-
علامہ شیخ الکل سید نذیر حسین نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔(فتاویٰ نذیریہ)
-
حضرت مولانا حمید اللہ میرٹھی نے اس عمل کو مسنون قرار دیا ہے۔ (خطباتِ توحید)۔
-
علامہ شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔ (حوالہ خطبات التوحید پر نظر ثانی و افادات)
-
امام النووی رحمہ اللہ نے اس عمل کو مسنون قرار دیا ہے۔ (حوالہ شرح المھند،ج:۴،ص:۴۴۲)
-
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’تحفۃ الودود‘‘ میں مستقل باب باندھا ہے کہ :
تو معلوم ہوا نومولد بچے کے کان میں اذان دینا متقدمین میں اہل علم فقھاء و محدثین ، ففسرین ،شارحین کی تصریحات کے مطابق مشروع و مستحب عمل ہے اور اس پر یہ عمل تواتر سے چلا آرہا ہے اور اسکے انکار پر نہ ہی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی اختلاف
اور جماعت اہل حدیث کے بھی جمہور علماء نے اسکے مشروع و مستحب ہونے پر اتفاق کیا ہے اسی لیے تمام محدثین ، متقدمین سے متاخرین و محققین کی تصریحات کو پس پردہ ڈال کر فقط حدیث کو ضعیف کہہ کر امر سے لوگوں کو متنفر کرنا ایک غیر علمی عمل ہے کیونکہ ضعیف احادیث بھی حدیث رسولﷺ ہی ہوتی ہے نہ کہ کذب
اس لیے اس میں شکوک کی وجہ سے روایت سے حجت قائم کرنے سے رکا جاتا ہے لیکن اعمال صالح پر ان جیسی روایات پر عمل کر جمہور محدثین کا منہج ہے
اور امام اعظم کا منہج یہ تھا کہ وہ ضعیف روایت کو بھی قیاس پر مقدم کرتے تھے اسی لیے اللہ ہم کو حدیث رسولﷺ کی سچی محبت عطاء کرے اور حدیث رسولﷺ کے تضعیف کے باوجود بھی اسکی قدر اور عظمت کا قائل ہونے کے راستے پر رکھے جبکہ نادان اہل حدیث کی نئی پود جو کہ حدیث ضعیف اور موضوع روایت کو ایک ہی طبقے میں رکھتے ہیں اور حدیث ضعیف کو فضول جانتے ہوئے کسی بھی امر میں حدیث ضعیف کو قابل قبول نہیں کرتے اور یہ اسلوب نہ ہی محدثین کا تھا اور نہی فقھاء کا اس لیے حدیث رسولﷺ کے محب بنیں اور علوم حدیث کو ویسے ہی قبول کیا جائے جیسا کہ یہ متقدمین سے متاخرین سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے بیشک سلف صالحین ہم سے زیادہ متقی پرہیز گار ، اور علوم دین کی معرفت رکھنے والے تھے اور اپنے نفس اور قیاس کو انکے منہج پر مقدم کرنا لا علم اور نا پختہ لوگوں کا کام ہے
اللہ ہم کو حدیث رسولﷺ پر عمل کرنے کی توفیق دے
خادم الحدیث : رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی سہروردی