امام اعمش ایک منفرد شخصیت
امام اعمش ایک منفرد شخصیت!!!
ازقلم: اسد الطحاوی
امام اعمش محدثین کی فہرست میں وہ انمول تحفہ تھے جو اپنی مثال آپ تھے ۔۔۔
آپ نہایت دلیر اور اپنے شاگرد محدثین کی لتریشن کرنے میں بے باک تھے اور اصحاب الحدیث نما شاگردوں کی بہت اچھی چھترول کرتے زبان سے بھی اور ہاتھ سے بھی کیونکہ امام اعمش کے شاگردوں میں امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف جیسے فقھاء مجتہدین تھے
جو احادیث سے اجتیہاد کرنے کی ایسی صلاحیتوں سے مالا مال تھے کے اپنے استاذ امام اعمش کی مشکلات کو بھی حل کر دیتے تھے جسکی مثال آگے آئے گی
امام اعمش کے جو یہ اقوال مشہور ہیں
کہ میرے پاس کتے ہوتے تو وہ میں اصحاب الحدیث پر چھوڑ دیتا
یا
انکا ایک یہ قول بھی مشہور ہے کہ اصحاب الحدیث دنیا کی سب سے فتنے باز قوم ہے
اسکا سبب کیا تھا ؟ اسکا سبب یہ تھا کہ امام اعمش کا یہ مقصد تھا کہ لوگ حدیث دانی کے ساتھ فقاہت کو بھی پکڑیں یہ نہ ہو کہ حدیث رٹی ہوں اور ان احادیث سے حاصل کی ہونا ہے اسکی پہچان نہ ہو
یہی ایک واحد علمی فرق تھا اہل کوفہ اور باقی دنیا کے محدثین کے درمیا ن جن میں بصرہ ، مدینہ ، مکہ ، مصر وغیرہ کے اہل علم لوگ تھے
جیسا کہ امام ابو نعیم ایک روایت امام اعمش کی امام ابو داود کی زبانی نقل کرتے ہیں :
حدثنا سليمان بن أحمد، نا أحمد بن صدقة، نا محمد بن الحسن بن تسنيم، نا أبو داود، عن الأعمش قال: قال لي حبيب بن أبي ثابت: «أهل الحجاز وأهل مكة أعلم بالمناسك» قال: فقلت له: فأنت عنهم وأنا عن أصحابي، لا تأتي بحرف إلا جئتك فيه بحديث “
امام ابو داود فرماتے ہیں :
امام اعمش فرماتے ہیں کہ ایک بار امام حبیب بن ابو ثابت نے مجھ سے کہا :
”اہل حجاز اور اہل مکہ سب سے زیادہ مسائل شریعہ کو جاننے والے ہیں ” امام اعمش فرماتے ہیں میں نے کہا : آپ انکی طرف سے ہو جائیے میں اپنے اصحاب (اہل کوفہ)کی طرف سے ہو جاتا ہوں ۔آپ جو بھی مسئلہ بیان کریں گے میں اس سے متعلق ایک حدیث سناؤنگا ۔
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جلد5 ، ص 47]
اس سے معلوم ہوا کہ امام اعمش احادیث کے حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ فقاہت میں بھی عمدہ درجے کے مجتہد تھے اورانکا تدبر و استقراء تھا کہ انکے حافظہ میں احادیث کن کن ابواب فقہ سے تعلق رکھتی ہیں
یہی وجہ تھی کہ وہ کورے اصحا ب الحدیث جنکی کھوپڑی میں فقہ لفظ نہیں سماتا تھا ان پر قہر بن کر نازل ہوتے تھے امام اعمش جیسا کہ انکے دو اقوال اوپر اصحاب الحدیث کے بارے گزر چکے ہیں جنکی اسناد کی تحقیق گزشتہ تحریرات میں گزر چکی ہیں
انکا یہ غصہ کوئی عامی طالب علموں پر نہیں چلتا تھا بلکہ قاضی کوفہ حفص بن غیاث کا سر پھوڑ دیا تھا جب انہوں نے ایک روایت کی سند کا مطالبہ کیا تھا امام اعمش نے اور امام اعمش نے جوابی طور پر اسکا سر دیوار میں مار کر کہا لو یہ رہی سند
امام اعمش کا ایک امیر کو سبق سکھانا !!!
امام ابو نعیم ایک روایت بیان کرتے ہیں :
حدثنا سليمان بن أحمد قال: ثنا أحمد بن داود، قال: ثنا علي بن بحر، قال: ثنا عيسى بن يونس قال: بعث عيسى بن موسى بألف درهم إلى الأعمش، وصحيفة ليكتب له فيها حديثا، فأخذ الأعمش الألف درهم وكتب في الصحيفة: ” بسم الله الرحمن الرحيم قل هو الله أحد حتى ختمها وطوى الصحيفة وبعث بها إليه، فلما نظر فيها بعث إليه: يا ابن الفاعلة، ظننت أني لا أحسن كتاب الله، فكتب إليه الأعمش: «أفظننت أني أبيع الحديث، ولم يكتب له، وحبس المال لنفسه»
امام عیسیٰ بن یونس بیان کرتے ہیں امیر عیسی بن موسیٰ نے امام اعمش کے پاس ایک ہزار درہم اور ایک کاغذ بھیجا تاکہ وہ حدیث لکھ کر دیں ۔ آپ نے درہم رکھ لیے اور ایک کاغذ پر بسم للہ اور سورہ اخلاص لکھ کر لپیٹ کر اسکی جانب روانہ کر دیا ۔ جب اس نے کاغذ کو دیکھا تو آپکی والدہ کے بارے میں نازیبا لفظ لکھ کر یہ کتوب لکھا :
”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں کتاب اللہ کو اچھی طرح نہیں سمجھتا ؟”
تو امام اعمش نے اس ے جوای مکتوب لکھا :
کیا تم مجھے حدیث بیچنے والا سمجھتے ہو ؟ ”
تو آپ (اعمش) نے پیسے بھی اپنے پاس رکھ لیے اور حدیث بھی لکھ کر نہ دی
یعنی
”چل پُت توں چھٹی کر ”
اور یہی امام اعمش تھے جو طبیعت کے اعتبارے سے اتنے سخت تھے لیکن امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف سے انکا تعلق مثالی تھا کیونکہ وہ انکے علم ک سبب انکی تعظیم کرتے تھے
جیسا کہ صحیح الاسناد انکے اقوال اما م ابوحنیفہ کے بارے مشہور ہیں جن میں سے ایک ہے
کہ ابو حنیفہ آپ لوگ طبیب ہیں اور ہم عطار ہیں
اور امام ابو یوسف نے جب انہی سے حدیث سن کر ایک مسلے میں جب امام اعمش کا مسلہ حل کیا تو امام اعمش نےفرمایا کہ اس حدیث کو میں تب سے جانتا ہوں جب سے تمہارے والدین کی شادی بھی نہ ہوئی ہوگی لیکن اس روایت کا مطلب آج سمجھ آیا
تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی