بعد از وصال لوگوں کا توسل اختیار کرنا سنت رسولﷺہے

تحریر : اسد الطحاوی الحنفی

امام طبرانی اور امام ابن جوزی اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں :

حدثنا أحمد بن حماد بن زغبة قال: نا روح بن صلاح قال: نا سفيان الثوري، عن عاصم الأحول، عن أنس بن مالك قال: لما ماتت فاطمة بنت أسد بن هاشم أم علي، دخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجلس عند رأسها، فقال: «رحمك الله يا أمي، كنت أمي بعد أمي، تجوعين وتشبعيني، وتعرين وتكسونني، وتمنعين نفسك طيب الطعام وتطعميني، تريدين بذلك وجه الله والدار الآخرة» . ثم أمر أن تغسل ثلاثا وثلاثا، فلما بلغ الماء الذي فيه الكافور، سكبه عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، ثم خلع رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصه فألبسها إياه، وكفنت فوقه، ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم أسامة بن زيد، وأبا أيوب الأنصاري، وعمر بن الخطاب، وغلاما أسود يحفروا، فحفروا قبرها، فلما بلغوا اللحد حفره رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وأخرج ترابه بيده. فلما فرغ، دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاضطجع فيه، وقال: «الله الذي يحيي ويميت وهو حي لا يموت، اغفر لأمي فاطمة بنت أسد، ولقنها حجتها، ووسع عليها مدخلها، بحق نبيك والأنبياء الذين من قبلي، فإنك أرحم الراحمين» . ثم كبر عليها أربعا، ثم أدخلوها القبر،

(المعجم الاوسط للطبرانی ۱۵۲/۱۔ ۱۵۳ ح۱۹۱: و عنہ ابو نعیم الاصبہانی فی حلیۃ الاولیء ۱۲۱/۳، و عندہ: یرحمک اللہہ الذی یحییوعنہ ابن الجوزی فی العلل المتناہیہ ۲۶۸/۱، ۲۶۹ ح(۴۳۳)

سفیان ثوری نے حدیث بیان کی، انھوں نے (عن کے ساتھ) عاصم الاحول سے، انھوں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے، انھوں نے فرمایا:

جب علی رضی اللہ عنہ کی والدہ: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم (رضی اللہ عنہما) فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے پھر آپ ان کے سر کی طرف بیٹھ گئے تو فرمایا: اے میری ماں! اللہ تجھ پر رحم کرے، میری (حقیقی) ماں کے بعد تو میری ماں تھی، تو خود بھوکی رہتی اور مجھے خوب کھلاتی، تو کپڑے (چادر) کے بغیر سوتی اور مجھے کپڑا پہناتی، تو خود بہترین کھانا نہ کھاتی اور مجھے کھلاتی تھی، تمھارا مقصد اس (عمل) سے اللہ کی رضامندی اور آخرت کاگھر تھا۔

پر آپ نے حکم دیا کہ انھیں تین، تین دفعہ غسل دیا جائے، پھر جب اس پانی کا وقت آیا جس میں کافور (ملائی جاتی) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے ان پر پانی بہایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر انھیں پہنا دی اور اسی پر انھیں کفن دیا گیا۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید، ابو ایوب الانصاری، عمر بن الخطاب اور ایک کالے غلام کو بلایا تاکہ قبر تیار کریں پھر انھوں نے قبر کھودی، جب لحد تک پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اپنے ہاتھ سے مٹی باہر نکالی پھر جب فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبر میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور فرمایا:

اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ زندہ جاوید ہے کبھی نہیں مرے گا۔

(اے اللہ!) میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اس کی دلیل انھیں سمجھا دے، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے (وسیلے) سے ان کی قبر کو وسیع کردے، بے شک تو ارحم الراحمین ہے۔

پھر آپ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)، عباس اور ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہما (تینوں) نے اسے قبر میں اتار دیا۔

اس روایت کے سارے رجال ثقہ و صدوق ہیں لیکن البانی و زبیر زئی اور وہابی کمپنی کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ سند میں روح بن صلاح راوی ضعیف ہے

کیونکہ

ابن عدی نے انکو ضعیف قرار دیا اور کہا کہ اسکی بعض روایات میں نکارت ہوتی ہے

دارقطنی نے انکو ضعیف کہا ہے

ابن ماکولا نے کہا کہ انکو ضعیف قرار دیا گیا ہے

ابن یونس نے کہا کہ اس سے مناکیر مروی ہیں

::::::::::::::::::::::::الجواب:::::::::::::::::::::::

ابن عدی کا کلام روح بن صلاح پر باطل ہے کیونکہ اس روایت پر ہمارے فاضل دوست رضاء العسقلانی نے تحقیق بیان کی تھی کہ ابن عدی نے جن روایات کو بطور مناکیر پیش کی تھیں وہ تین تھیں جس میں دو روایات میں ابن عدی کا شیخ تھا جس پر انکی خود کذب کی جرح ہے

اور ایک سند میں مجہول راوی تھا جس پر خود ابن عدی کا کلام ہے کہ یہ غیر معروف ہے تو اس صورت میں ابن عدی کا ان روایات کی بنیاد پر روح بن صلاح کی تضعیف کرنا صحیح نہیں ۔۔۔۔

تو اسکو یہان بیان کرنے کی ضرورت نہیں تفصیل میں

لیکن اسکے باوجود بھی ابن عدی نے روح بن صلاح کی بعض روایات میں نکار ت کا کلام کیا تھا اور اہل علم جانتے ہیں کہ راوی کی اکثر روایات کی بجائے بعض میں نکارت یا غلطی کی جرح ہو تو راوی صدوق درجے سے بلکل نہیں گرتا لیکن یہاں تو یہ کلام بھی غیر ثابت دلائل پر مبنی تھا جو کہ جرح ثابت ہوئی

دارقطنی نے مبہم جرح کی کہ فقط ضعیف کہا اور جرح میں متعنت بھی ہیں ۔

ابن ماکولا نے صیغہ مجہول سے جرح کی کہ کن کی طرف سے ضعیف قرار دیا گیا کوئی تصریح نہیں ایسی جروحات باطل ہوتی ہیں

ابن یونس نے بھی ابن عدی والا کلا م کیا کہ مناکیر مروی ہیں جسکی حقیقت اوپر بیان کر دی ابن عدی کے تحت!!!

روح بن صلاح کی توثیق!!!!

امام حاکم فرماتے ہیں کہ روح بن صلاح ثقہ و مامون ہے

(نوٹ: یاد رہے کہ امام حاکم فقط روایات کی تصحیح میں متساہل ہیں اور انکا تساہل بھی فقط مستدرک تک محدود ہے اور یہ توثیق امام حاکم سے انکے شاگرد مسعود بن علی نے بیان کی ہے جنکی اپنی تصنیف ہے سوالات مسعود السنجری)

امام ابن حبان بھی روح بن صلاح کو ثقات میں درج کیا اور وہ منفرد نہیں اور وہ بھی متشدد ناقد ہیں معروف راویان میں انکی توثیق بدرجہ اولیٰ حجت ہوتی ہے

امام یعقوب بن سفیان الفسوی سے توثیق!

امام یعقوب بن سفیان الفسوی کہتے ہیں کہ میں نے ایک ہزار شیوخ سے روایات لکھی ہیں اور وہ تمام ثقہ ہیں

(تہذیب التہذیب)

اور امام یعقوب بن سفیان الفسوی نے روح بن صلاح سے روایات لکھی ہیں تو امام فسوی نے بھی ثقہ قرار دیا روح بن صلاح کو ۔۔۔۔

اس مختصر تحقیق سے معلوم ہوا یہ روایت حسن ہے ۔۔۔

امام ہیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت کو بیان کر کے کہتے ہیں :

رواه الطبراني في الكبير والأوسط، وفيه روح بن صلاح، وثقه ابن حبان والحاكم، وفيه ضعف، وبقية رجاله رجال الصحيح.

اسکو طبرانی نے روایت کیا ہے کبیر میں اور الاوسط میں اس میں روح بن صلاح ہے جسکو حاکم اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا اس میں کمزوری ہے ۔ بقیہ رجال صحیح ہے ۔۔

امام ہیثمی نے بھی روح بن صلاح کو صدوق قرار دیا ہے کہ کیونکہ انہوں نے اسکو ضعیف نہین قرار دیا بلکہ فی ضعف کہا کہ اس میں کمزوری ہے اور ثقہ راوی میں کمزور ہی اسکو صدوق درجے تک لاتی ہے ۔۔۔ جس سے راوی مطلق ضعیف نہین بنتا لیکن اس میں ضعف ہوتا ہے

اور امام ذھبی نے بھی روح بن صلاح سے مروی روایت کی توثیق و مداح کی ہے جیسا کہ تاریخ الاسلام میں ایک روایت بیان کرنے سے پہلے امام ذھبی فرماتے ہیں ۔۔

قلت: وقد وقع لي حديثه عاليا:

اور یقینا اس کی حدیث میرے لئے عالی واقع ہوئئ

أخبرنا محمد بن عبد السلام، وأحمد بن هبة الله، وزينب بنت كندي، قراءة عن المؤيد الطوسي، أن أبا عبد الله الفراوي، وعن عبد المعز الهروي، أن تميما المؤدب أخبره وعن زينب الشعرية، أن إسماعيل بن أبي القاسم أخبرها قالوا: أخبرنا عمر بن أحمد بن مسرور، قال: أخبرنا إسماعيل بن نجيد الزاهد سنة أربع وستين وثلاث مائة قال: حدثنا محمد بن إبراهيم البوشنجي، قال: حدثنا روح بن صلاح المصري، الخ۔۔۔۔۔

ومن يكن فيه أربع فلا يضره ما زوى عنه من الدنيا: حسن خليقة، وعفاف، وصدق حديث، وحفظ أمانة “

(تاریخ الاسلام برقم:۳۶۰)

اور یہ الفاظ امام ذھبی کسی راوی کی حدیث میں توثیق پر ہی استعمال کرتے ہیں

جیسا کہ یہی قول میزان الاعتدال میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

قلت: وقع لناجزء البانياسي من حديثه عاليا، ولا بأس به إن شاء الله.

میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث بہت عالی واقع ہوئی ہے بانیاسی کے جز میں سے اور اس میں کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ

(میزان الاعتدال ، برقم:۱۴۳)

اسی طرح اس روایت کے تحت امام ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں :

خبرنا عمر بن أحمد بن مسرور، أخبرنا أبو عمرو بن نجيد سنة أربع وستين وثلاث مائة، حدثنا محمد بن إبراهيم البوشنجي، حدثنا روح بن صلاح المصري، حدثنا موسى بن علي، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو:

عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: (الحسد في اثنتين: رجل آتاه الله القرآن، فقام به، وأحل حلاله، وحرم حرامه، ورجل آتاه الله مالا، فوصل منه أقرباءه ورحمه، وعمل بطاعة الله، تمنى أن يكون مثله، ومن تكن فيه أربع، لم يضره ما زوي عنه من الدنيا: حسن خليقة، وعفاف، وصدق حديث، وحفظ أمانة)

حديث غريب، عال جدا.

وروح: ضعفه ابن عدي، وذكره ابن حبان في (الثقات) ، وبالغ الحاكم، فقال: ثقة، مأمون.

امام ذھبی سیر اعلام میں روح بن صلاح سے روایت بیان کر کے فرماتے ہیں کہ یہ روایت غریب (منفرد) ہے اور بہت اعلیٰ ہے اسکے بعد روح بن صلاح کے بارے فرماتے ہیں کہ انکو ابن عدی نے ضعیف قرار دیا اور ابن حبان نے ثقات میں درج کیا اور امام حاکم نے انکی اعلی توثیق کرتے ہوئے ثقہ مامون قرار دیا ہے

(سیر اعلام النبلاء، برقم:۳۰۲)

معلوم ہوا امام ذھبی نے روح بن صلاح سے مروی منفرد روایت کو اعلیٰ قرار دیا ہے اور روح بن صلاح پر ابن عدی کی جرح کو درگزر کرتے ہوئے امام ابن حبان و حاکم کی توثیق پر اعتماد کیا ہے کیونکہ اس پر جروحات مبھم ہیں

اسی طرح امام سمھودی اس روایت کے تحت فرماتے ہیں :

وفي الكبير والأوسط للطبراني برجال الصحيح الأروح بن صلاح وقد وثقه أبن حبان والحاكم وفيه ضعف عن أنس

اور طبرانی و الاوسط میں طبرانی نے صحیحین کے رجال سے روایت کیا ہے سوائے روح بن صلاح کے جسکو ابن حبان و حاکم نے ثقہ قرار دیا ہے اور ان میں کمزوری ہے ۔ انس سے الخ۔۔۔

(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى جلد۲ ،ص ۳۶۹)

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی