اِنَّاۤ اَخۡلَصۡنٰهُمۡ بِخَالِصَةٍ ذِكۡرَى الدَّارِۚ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 46
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّاۤ اَخۡلَصۡنٰهُمۡ بِخَالِصَةٍ ذِكۡرَى الدَّارِۚ ۞
ترجمہ:
ہم نے ان کو خالص آخرت کی یاد کے ساتھ چن لیا تھا
انبیاء (علیہم السلام) کا خالص دار آخرت کے ساتھ مشغول ہونا
ص ٓ: ٤٦ میں فرمایا : ہم نے ان کو خالص آخرت کی یاد کے لیے چن لیا تھا، اس کے حسب ذیل محامل ہیں :
(١) وہ آخرت کی یاد میں اس قدر زیادہ مشغول اور مستغرق ہیں کہ گویا دنیا کو بھول چکے ہیں۔
(٢) اللہ تعالیٰ دار آخرت میں ان کے ذکرجمیل کو بلند فرمائے گا اور ان کی تعریف اور تحسین کی جائے گی۔
(٣) اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ان کی نیکیوں کا چرچا کرے گا اور آخرت میں ان کو سربلند فرمائے گا۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ان کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے قرار دینا کس طرح صحیح ہوگا جب کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکام اطاعت اور اس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی اطاعت اور عبادت میں مشغول رہنا صرف اسی لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کے دیدار کا شوق ہے اور وہ تب ہی حاصل ہوگا جب اللہ ان سے راضی ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے اسی وقت راضی ہوگا جب وہ اس کے احکام کی اطاعت اور اس کی عبادت کریں گے، تو ان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت میں مستغرق اور منہمک رہنا بھی خالص اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس سے ملاقات کے شوق کی وجہ سے ہے۔
نجم الدین دایہ نے ” التاویلات النجمیہ “ میں بیان کیا کہ ہم نے ان نبیوں اور رسولوں کو نفس کی صفات کی آمیزش سے مصفیٰ کرلیا اور نانیت کی کدورت سے پاک کردیا اور ان کے دلوں میں خالص اپنی محبت کو ڈال دیا اور اب ان کے دلوں میں ہمارے غیر کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور اب وہ ہمارے غیر کی طرف مائل نہیں ہوتے، حتیٰ کہ اپنی ذوات کی طرف بھی ان کا میلان نہیں ہوتا۔
خلافہ یہ ہے کہ دنیا ظلتم ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلال کی مظہر ہے اور آخرت نور ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جمال کی مظہر ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 46