أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

جَنّٰتِ عَدۡنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الۡاَبۡوَابُ‌ۚ‏ ۞

ترجمہ:

(دو ) دائمی جنتیں ہیں، جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں

جنت کے دروازے کھلے رکھنے کے اسرار اور نکات

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں “ اس ارشاد کے حسب ذیل محامل ہیں :

(١) جب متقین جنت عدن کے پاس پہنچیں گے تو ان کے دوازے کھلے ہوئے ہوں گے، ان کو جنتوں کے دروازے کھلوانے کے لیے کسی مشقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور نہ فرشتوں سے اجازت لینے کا مرحلہ پیش آئے گا، بلکہ فرشتے ان کی پیشوائی کے لیے مرحبا اور خوش آمدید کہتے ہوئے ان سے ملیں گے۔

(٢) یہ قول اس طرح ہے جیسے کوئی شخص کسی کی تکریم اور تعظیم کے اظہار کے لیے کہتا ہے : میرے گھر کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہوئے ہیں۔

(٣) اس میں متقین کے بلند حوصلہ کی طرف اور نفسانی خواہشوں اور لذتوں سے ان کے دور رہنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جنت کو نفس کی ایسی ناپسندیدہ چیزوں نے گھیرا ہوا ہے کہ اس میں کسی کے داخل ہونے کی توقع نہیں ہے تو ان لوگوں کی سیرت کی عمدگی اور پاک دامنی کا کیا عالم ہوگا جن کے لیے جنت کے دوازے کھلے ہوئے ہوں گے، حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ نے جنت اور دوزخ کو پیدا کیا تو حضرت جبریل کو جنت کی طرف بھیجا اور فرمایا : جنت کو دیکھو اور ان نعمتوں کو دیکھو جو میں نے جنت میں اہل جنت کے لیے تیار کی ہیں، حضرت جبریل آئے اور جنت کو دیکھا اور ان نعمتوں کو دیکھا جو جنت میں اہل جنت کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ وہ اللہ کے پاس لوٹ کر آئے اور کہا : تیری عزت کی قسم ! جو شخص بھی جنت کے متعلق سنے گا وہ اس میں ضرور داخل ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جنت کی ہر طرف کا ان چیزوں سے احاطہ کردیا جائے جو نفس کے لیے باعث مشقت اور ناپسندیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جائو، اب جنت کو دیکھو اور جنت کی ان نعمتوں کو دیکھو جن کو میں نے اہل جنت کے لیے تیار کیا ہے۔ حضرت جبریل دوبارہ گئے تو جنت کا احاطہ ان چیزوں نے کیا ہوا تھا جو نفس کے لیے باعث مشقت اور ناپسدیدہ ہیں، حضرت جبریل لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور کہا : تیری عزت کی قسم ! اب مجھے خدشہ ہے کہ اس جنت میں کوئی شخص داخل نہیں ہوگا۔ الحدیث(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٢٦٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٤٤، مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٢، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٩٤، المستدرک ج ١ ص ٢٦، البعث والنشور للبیہقی رقم الحدیث : ١٦٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٤١١٥)

سبحان اللہ ! جنت میں داخل ہونے کے لیے اس قدر مشکل اور صبر آزما کام کرنے پڑتے ہیں کہ حضرت جبریل کو بھی یہ خطرہ تھا کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا تو ان لوگوں کے تقویٰ اور طہارت، بلند حوصلہ اور کردار کی پاکیزگی کا کیا عالم ہوگا جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت عدن کے دروازے پہلے سے کھول رکھے ہیں۔

امام ابو منصور ماتریدی متوفی ٣٣٣ ھ نے کہا ہے کہ جنت کے دروازے دو قسم کے ہیں : بعض دروازوں کا رخ مخلوق کی طرف ہوگا اور بعض دروازوں کا رخ خالق کی طرف ہوگا، جن دروازوں کا رخ مخلوق کی طرف ہوگا ان دروازوں سے جنت میں دخول ہوگا اور جن دروازوں کا رخ خالق کی طرف ہوگا ان دروازوں سے جنت میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوگا، متقین کے لیے دونوں قسم کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے، وہ مخلوق کے دروازے سے جنت میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ان کے لیے جنت میں تیار کررکھی ہیں ان سے بہرہ اندوز ہوں گے، پھر وہ جنت میں خالق کے دروازہ سے نکل کر اس جگہ پہنچیں گے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر (القمر : ٥٥) (متقین جنت میں) قدرت والے بادشاہ کے پاس صدق کی نشست میں بیٹھے ہوں گے

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 50