روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں

تحریر : محمد عبد القدیر قادری مصباحی

غیر جانبداری کے ساتھ کئی مرتبہ میں نے غور وخوض کیا تو اسی نتیجے پر پہنچا کہ ایجادات سے انسانوں کو مجموعی اعتبار سے نقصان ہی پہنچا ہے. غیر فطری طرز زندگی نے صحت وتندرستی کی نعمت چھین لی مشینوں نے انسان کی انسان سے محتاجی کو کم کرکے انسانوں کے درمیان باہم محبت وخلوص اتحاد واتفاق کے اسباب کم کردئے اور دولت کی ریل پیل اور حرص نے عزت شرافت غیرت حمیت اور مروت کو رخصت کردیا جس کی وجہ سے مال واجرت کے ذریعے ہرکام ہونے لگا گویا انسان کو انسان کی حاجت نہ رہی پیسے کے لئے انسان استنجاء کرانے کو بھی تیار ہے. کثرت اسباب کی وجہ سے لذت کا احساس ختم ہوگیا لذیذ کھانے اتنے ہوگئے کہ کسی میں لذت باقی نہ رہی اوپر سے بھوک کا فقدان مشروبات اتنے تیار ہوگئے کہ دودھ شہد اور پھلوں کے رس بے لذت ہوگئے بے پردگی اور اختلاط کی وجہ سے اتنی عورتیں قریب ہوگئیں کہ بیویوں میں دلچسپی نہ رہی ایسے ہی بیویوں کا معاملہ بھی. بجلی کی ایجاد نے گیارہ بجے تک جاگنے کا ماحول بنایا تھا اب انٹر نیٹ نے ایک بجے تک کی نیند چھین کر صبح کی نیند میں مبتلا کر کے جسمانی وروحانی دونوں قسم کےفوائد سے محروم کردیا. سواریوں کی سہولت نے شادی غمی میں ہاتھ بٹانے کے بجائے موقع پرجانے اور فورا بھاگ آنے کاعادی بنادیا حتی کہ حج وعمرہ کی تڑپ اور لذت میں بھی فرق آگیا. خاندانی جذبہ گیا دوستوں کا دور آگیا. مٹی اور لکڑی کے بجائے پتھر لوہےاور کیمیکل کےگھروں نے سکون چھین لیا. قریب قریب، بند اور صحن ودرخت سے خالی مکانات نے روشنی اور ہوا سے محروم کردیا پنکھے اور اے سی کی ایجاد نے یہ سب غضب ڈھایا. کھانا کپڑا دوا مکان ضروری سازوسامان اور فی الحال یا آئندہ کسی بڑی ضرورت کے لئے جمع شدہ مال کے علاوہ جو دولت ہے وہ سواے سردرد کے اور کیا ہے اس کو باقی رکھنے اور بڑھانے کی فکر میں انسان گھلا جارہا ہے. مصنوعات کی کثرت نے بھی چیزوں کی مرمت اور قابل استعمال رہنے تک استعمال کرنےکی ذہنیت ختم کردی جس کا نقصان یہ ہے کہ ہم جن چیزوں کے مالک ہیں ان کی اپنائیت ہمارے دل ودماغ پر قائم ہی نہیں ہوپاتی کیوں کہ ہم انہیں جلدی جلدی بدل دیتے ہیں. استعمالی چیزوں کی طویل ملکیت اور طویل مدت تک اس کا استعمال بھی انسان کو محبت اور سکون دیتا ہے تلواروں اور اونٹنیوں پر قصیدے یونہی نہیں لکھےگئے بلکہ وہ طبعی لگاؤ کا نتیجہ ہیں . کپڑا دس سال کے بجائے دوسال پہنا جارہا ہے جوتا چپل دوسال کے بجائے دوچار ماہ پہنےجارہے ہیں سواریاں بیس پچیس سال کے بجائے پانچ سات سال ہی چلارہے ہیں گھڑی جس سے ناقابل شناخت نعش کو پہچان لیا جاتا تھااب وہ بات کہاں؟ یہ سب مصنوعات کی کثرت کی دین ہے.

پتہ نہیں کیاترقی ہوئی ہے اور کہاں ہوئی ہے؟ کیا بیماریاں بڑھنا پھر ان کاعلاج دستاب ہوناترقی ہے؟ کیاطویل مسافت لمحوں میں میں طےکرناترقی ہے؟ کیا ذرائع ابلاغ کی وسعت وسرعت ترقی ہے؟ کیا حمل ونقل اور جوڑ توڑ کی عظیم مشنریز ترقی ہیں؟ ان چیزوں نے دنیا کا سکون غارت کرکے بس ایک ہنگامہ اورہلچل پیدا کردیاہے.