أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا الۡعَزِيۡزُ الۡغَفَّارُ‏ ۞

ترجمہ:

وہ آسمانوں اور مینوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے، بےحد عزت والا اور بہت بخشنے والا ہے

اللہ تعالیٰ کے غفار ہونے کے متعلق احادیث

ص ٓ: ٦٦ میں فرمایا : ” وہ آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان سب کا رب ہے، بےحد عزت والا اور بہت بخشنے والا ہے “ اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا : اللہ تعالیٰ واحد اور قہار ہے اور قہار ایسی صفت ہے جو ترہیب اور تخویف پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے قہار ہونے کو یاد کرے گا تو خوف زدہ ہوجائے گا، اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ان صفات کا ذکر فرمایا جو کہ ترغیب اور امید پر دلالت کرتی ہیں، کیونکہ ایمان اس کیفیت کا نام ہے جو کہ عذاب کے خوف اور مغفرت کی امید کے درمیان ہے۔ سو اس آیت میں پہلے اپنے رب ہونے کا ذکر فرمایا، اس کا رب ہونا اس معنی کی خبر دیتا ہے کہ وہ پرورش کرتا ہے، احسان اور کرم فرماتا ہے اور رحمت فرماتا ہے اور اس کا غفار ہونا اس معنی کی خبر دیتا ہے کہ وہ گناہوں کو بخش دیتا ہے، پس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے اور اس کی مغفرت اور اس کی بخشش کی امید رکھنی چاہیے۔ حسب ذیل احادیث میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کو بیان کیا گیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک ایک بندہ گناہ کرلیتا ہے، پھر دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب ! مجھ سے گنا ہوگیا تو میرا گناہ معاف فرمادے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :) کیا میرے بندہ کو علم ہے کہ اس کا رب ہے جو اس کے گناہ کی مغفرت بھی کرتا ہے اور اس کے گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے، میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا، پھر وہبندہ دوبارہ گناہ کرتا ہے اور پھر دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب ! مجھ سے گنا سرزد ہوگیا تو مجھ کہ معاف فرما، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا، پھر جتنا وقت اللہ چاہتا ہے وہ بندہ گزارتا ہے، پھر گناہ کرلیتا ہے، پھر دعا کرتا ہے کہ مجھ سے گناہ ہوگیا تو میرے گناہ کو بخش دے۔ پھر اللہ فرماتا ہے : کیا میرے بندہ کو علم ہے کہ اس کا رب ہے، جو اس کے گناہ کو معاف بھی کرتا ہے اور اس کے گناہ پر مواخذہ بھی فرماتا ہے، میں نے اپنے بندہ کو تین بار معاف کردیا، وہ جو چاہے عمل کرے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥٠٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٥٨، مسند احمد رقم الحدیث : ١٠٣٨٤، عالم الکتب) علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اگر بندہ بار بار گناہ کرے، سو بار یا ہزار بار یا اس سے بھی زیادہ بار اور ہر بار توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہوگی اور اس کے گناہ ساقط ہوجائیں گے اور اگر تمام گناہوں کی ایک ہی بار توبہ کرے تب بھی اس کی توبہ صحیح ہے۔ اور یہ جو فرمایا ہے : تو جو چاہے عمل کر میں نے تجھ کو بخش دیا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ جب تک تو گناہ کرنے کے بعد توبہ کرتا رہے گا میں تجھ کو بخشتا رہوں گا۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١١ ص ٦٨٨٢۔ ٢٨٨١، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ)

بار بار گناہ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کا بخش دینا

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٧٥٢ ھ لکھتے ہیں :

عالمہ ابن بطال مالکی متوفی ٤٤٩ ھ نے اس حدیث کی شرح میں یہ کہا ہے کہ جو شخص گناہوں پر اصرار کرتا ہے (یعنی بغیر توبہ کے بار بار گناہ کرتا ہے) اس کی مغفرت اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، اگر چاہے تو اس کو عذاب دے اور اگر چاہے تو اس کو بخش دے، اس کی نیکی کو غلبہ دیتے ہوئے اور اس بندہ کا یہ اعتقاد ہے کہ اس کا رب ہے جو خالق ہے، وہ عذاب بھی دیتا ہے اور بخشتا بھی ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا اس کے اس عقیدہ پر دلالت کرتا ہے، اس حدیث میں یہ دلیل نہیں ہے کہ جس گناہ کی مغفرت طلب کررہا ہے اس گناہ سے وہ توبہ کرچکا ہے، کیونکہ توبہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ گناہ سے رجوع کرے اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے اور اس گناہ سے وہ توبہ کرچکا ہے، کیونکہ توبہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ گناہ سے رجوع کرے اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے اور اس گناہ کا تدارک اور تلافی کرے اور فقط گناہ پر استغفار کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس نے اس معنی میں توبہ بھی کی ہے اور بعض علماء نے توبہ کی تعریف میں یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ اس کو اپنے فعل پر ندامت ہو اور بعض نے کہا ہے کہ توبہ کے لیے صرف ندامت کافی ہے کیونکہ گناہ کا تدارک اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم ندامت سے ہی پیدا ہوتا ہے اور حدیث میں ہے : ندامت توبہ ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٥٢، مسند احمد رقم الحدیث : ٣٥٦٨ )

(اس عبارت کا مفاد یہ ہے کہ استغفار کرنے اور توبہ کرنے میں فرق ہے اور کسی گناہ پر استغفار کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ اس گناہ سے توبہ بھی کررہا ہو، لیکن اس بحث کے آخر میں حافظ ابن حجر نے یہ لکھا ہے کہ لوگوں میں معروف یہ ہے کہ استغفار کرنا توبہ کرنے کو مستلزم ہے۔ سعید غفرلہ)

علامہ ابوالعباس قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے : یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل اور اس کی وسیع رحمت پر دلالت کرتی ہے لیکن اس حدیث میں جس استغفار کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دل سے استغفار کرے، حتیٰ کہ اس سے اصرار کی گرہ کھل جائے اور اس کو ندامت ہو اور ایسا استغفار اس کی توبہ کا ترجمان ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : حضرت نعمان سن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو فتنہ میں پڑنے کے بعد توبہ کریں۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧١٢٠) اور اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو بار بار گناہ کرے اور بار بار توبہ کرے، پس جب اس سے گناہ سرزد ہوگا تو وہ توبہ کرے گا اور اس سے مراد ایسا شخص نہیں ہے جو زبان سے تو استغفار کررہا ہو اور اس کا دل اس گناہ پر مصر ہو اور یہ ایسا استغفار ہے کہ اس استغفار سے بھی استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مثل ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو اور جو شخص اس حال میں استغفار کرے کہ وہ گناہ پر قائم ہو، وہ اس شخص کی مثل ہے جو اپنے رب سے مذاق کررہا ہو۔ (المفہم ج ٧ ص ٨٥۔ ٨٤، دارابن کثیر، بیروت، ١٤٢٠ ھ) (فتح الباری ج ١٥ ص ٤٤١، دارلفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

اللہ تعالیٰ کے غفار ہونے کے متعلق دیگر یہ احادیث ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے استغفار کو لازم کرلیا اللہ تعالیٰ اس کی ہر مشکل کا ایک حل اور ہر مصیبت سے ایک نجات کا راستہ پیدا کردیتا ہے اور اس کو وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥١٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٥١٩، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣٣٨٨) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو بیدار ہوتے تو یہ آیت پڑھتے تھے :

ما من الہ الا اللہ الواحد القھار رب السموات والارض وما بینھما العزیز الغفار (ص ٰٓ : ٦٦۔ ٦٥ )

اللہ کے سوا کوئی عبادت کیا مستحق نہیں ہے، جو واحد ہے اور سب پر غالب ہے وہ آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان سب کا رب ہے، بےحد عزت والا اور بہت بخشنے والا السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٠٧٠٠، المستدرک ج ١ ص ٥٤٠، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٦٦١٥، یہ حدیث صحیح السند ہے) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم خطا کرتے رہو، حتیٰ کہ تمہاری خطائیں آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تم توبہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمالے گا۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٤٨ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اور اگر وہ توبہ کرلے اور اس گناہ کو اتار دے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ زیادہ گناہ کرے تو وہ نقطے زیادہ ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ اس کے پورے دل کو ڈھانپ لیتے ہیں اور یہی وہ ” ران “ (زنگ) ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے :

کلا بل ران علی قلوبھم ماکانو یکسبون (المطففین : ١٤) نہیں، بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤۔ ٣٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٤٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٣، المستدرک ج ٢ ص ٥١٧) حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر ابن آدم خطا کرنے والا ہے اور خطا کاروں میں سب سے بہتر توبہ کرنے والے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٠١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٥١، المستدرک ٤ ص ٢٤٤، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢٦٢١) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک بندہ کی روح نکلتے وقت اس کے حلقوم تک نہ پہنچ چکی ہو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتارہتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٣٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٥٣، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٨٨) حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے، آپ نے فرمایا : تم حتیٰ الوسع اللہ تعالیٰ کے خوف کو لازم رکھو اور پتھر اور درخت کے پاس اللہ کا ذکر کرو اور اگر تم نے کوئی بُرا کام کیا ہے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو، پوشیدہ گناہ کی پوشیدہ توبہ کرو اور علی الاعلان گناہ کی علی الاعلان توبہ کرو۔ (المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ١٥٩ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کراماً کا تبین سے اس کے گناہ بھلا دیتا ہے اور اس کے اعضاء اور زمین کی نشانیوں (مثلاً شجر وحجر) سے بھی اس کے گناہ بھلا دیتا ہے، حتیٰ کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں اللہ سے ملاقات کرے گا کہ اس کے گناہ کا کوئی گواہ نہیں ہوگا۔(الترغیب والترہیب للمنذری رقم الحدیث : ٤٦٠٢، الترغیب والترہیب للاصبہانی رقم الحدیث : ٧٥١ )

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ تم سے پہلی امتوں میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کیے، پھر اس نے زمین والوں سے پوچھا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ اسے ایک بڑا راہب (عیسائیوں میں تارک الدنیا عبادت گزار) کا پتا بتایا گیا، وہ شخص اس راہب کے پاس گیا اور یہ کہا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، کیا اس کی توبہ ہوسکتی ؟ اس نے کہا : نہیں، اس شخص نے اس راہب کو بھی قتل کرکے پورے سو قتل کردیئے، پھر اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ تو اس کو ایک عالم کا پتا دیا گیا، اس شخص نے کہا کہ اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کی توبہ ہوسکتی ہے ؟ عالم نے کہا : ہاں ! توبہ کی قبولیت میں کیا چیز حائل ہوسکتی ہے، جائو فلاں، فلاں جگہ پر جائو، وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں، تم ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ عی عبادت کرو اور اپنی زمین کی طرف واپس نہ جائو کیونکہ وہ بری جگہ ہے، وہ شخص روانہ ہوا، جب وہ آدھے راستہ پر پہنچا تو اس کو موت نے آلیا اور اس کے متعلق رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوگیا، رحمت کے فرشتوں نے کہا : یہ شخص توبہ کرتا ہوا اور دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہوا آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے بالکل کوئی نیک عمل نہیں کیا، پھر ان کے پاس آدمی کی صورت میں ایک فرشتہ آیا، انہوں نے اس کو اپنے درمیان حکم بنا لیا، اس نے کہا : دونوں زمینوں کی پیمائش کرو، وہ جس زمین کے زیادہ قریب ہو اسی کے مطابق اس کا حکم ہوگا، جب انہوں نے پیمائش کی تو وہ اس زمین کے زیادہ قریب تھا جہاں اس نے جانے کا ارادہ کیا تھا، پھر رحمت کے فرشتوں نے اس پر قبضہ کرلیا، حسن نے بیان کیا ہے کہ جب اس پر موت آئی تو اس نے اپنا سینہ پہلی جگہ سے دور کرلیا تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٦٦، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٢٢، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ٤٦ )

تائب کے لیے بری جگہ اور برے لوگوں کو چھوڑ دینے کا استحباب

اس حدیث میں ہے : عالم نے کہا : تم فلاں فلاں علاقے میں جائو، وہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تم ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اپنی زمین کی طرف لوٹ کر نہ جائو کیونکہ وہ بری زمین ہے۔ علماء نے کہا ہے کہ توبہ کرنے والے کے لیے مستحب یہ ہے کہ جس زمین میں اس نے گناہ کیے ہوں اس کو چھوڑ دے اور جو لوگ اس کو گناہ کی دعوت دیتے ہوں اور گناہ میں اس کی معاونت کرتے ہوں ان سے مقاطعہ کرے تاوقتیکہ وہ لوگ بھی تائب نہ ہوجائیں اور یہ کہ علماء صلحاء، عبادت گزاروں اور اہل تقویٰ کی صحبت اور مجلس کو اختیار کرے اور ان کی نصیحت اور مجلس سے فائدہ حاصل کرے۔

اولیاء کرام کی وجاہت

اس حدیث سے اولیاء کرام کی اللہ کے ہاں وجاہت اور قدرومنزلت معلوم ہوئی کہ اگر کوئی گنہگار ان کے پاس جاکر توبہ کرنے کا صرف ارادہ کرے، ابھی وہاں گیا نہ ہو اور توبہ نہ کی ہو تب بھی بخش دیا جاتا ہے تو جو لوگ ان کے پاس جاکر ان کے ہاتھ پر بیعت ہوں، توبہ کریں اور ان کے وظائف پر عمل کریں، ان کے مرتبہ اور مقام کا کیا عالم ہوگا اور یہ تو پہلی امتوں کے اولیاء کرام کی وجاہت ہے تو امت محمدیہ کے اولیاء کرام خصوصاً غوث اعظم (رض) کی اللہ کے ہاں قدرومنزلت اور وجاہت کا کیا عالم ہوگا اور جو مسلمان ان کے سلسلہ سے وابستہ ہیں ان کے لیے حصول مغفرت اور وسعت رحمت کی کتنی قوی امید ہوگی۔ لیلۃ القدر کا بڑا مرتبہ ہے، ایک رات میں عبادت کرلی جائے تو اس راست کی عبادت کا درجہ ایک ہزار راتوں کی عبادتوں سے زیادہ ہے، لیکن اگر کوئی اس رات کو پاکر عبادت نہ کرے تو اسے کوئی اجر نہیں ملے گا، لیکن اولیاء اللہ کی کیا شان ہے کہ کوئی ان کے پاس جاکر عبادت اور توبہ نہیں کرتا، صرف جانے کی نیت کرلیتا ہے تو بخش دیا جاتا ہے، یہی حال کعبہ کا ہے۔ کوئی شخص کعبہ کی زیارت اور اس میں عبادت کرے گا تو اجروثواب ملے گا، اگر کعبہ تک نہیں پہنچا تو اجروثواب نہیں ملے گا، پھر لیلۃ القدر اور کعبہ میں عبادت سے اجروثواب میں اضافہ ہوتا ہے، بخشش کی ضمانت نہیں ہے، لیکن جو شخص اللہ والوں کے پاس جاکر توبہ کرنے کی نیت کرلے بخش دیا جاتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 66